Merit Kay Bagair

میرٹ کے بغیر

پاکستان خصوصاً کراچی میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا کوئی پرسان حال نہیں، یہاں جوکچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ عموماً روزگارکا اختیار صوبائی حکومتوں کے پاس ہے۔ آئین کے آرٹیکل 18 کے تحت مرکز سے بہت سارے اختیارات لے کر صوبوں کے حوالے کردیے گئے ہیں، جن میں روزگار بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے اس اختیارکی منتقلی کے بعد ہی نہیں پہلے سے حصول روزگارکے دوطریقے انتہائی معنی خیز ہیں۔




اول صوبائی حکومت کا اختیار اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکزکے ہاتھوں میں جو اختیارات مرکوز تھے، مختلف شعبوں میں خاص طور پر روزگارکے شعبے میں سخت ناانصافیوں کا دور دورہ تھا جب آرٹیکل 18 صوبوں کے ہاتھوں میں آیا تو امید کی جا رہی تھی کہ صوبائی حکومتیں انصاف سے کام لیں گی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا بلکہ میرٹ کے بجائے مرضی کا رواج چل پڑا۔ صوبائی سربراہ یعنی چیف منسٹر بے لگام اختیارات کا مالک بن گیا اور یہ ایک فطری بات ہے کہ روزگار دینے میں عموماً میرٹ کے بجائے زبان اور قومیت کا چلن عام ہوگیا۔

کراچی سب سے زیادہ متاثر ہوا کیونکہ صوبہ سندھ کی حکومت میں اردو اسپیکنگ کا دور دور تک پتا نہیں چلتا، اگر اکا دکا کوئی نمایندہ ہے تو وہ بھی بے اختیار ہے۔ میرٹ سے آزادی کے بعد سربراہوں کی مرضی میرٹ بن گئی ۔

سرمایہ دارانہ نظام کی پہچان رشوت سب سے بڑا میرٹ بن گئی پھر تو دوسرے شعبوں کی طرح روزگار کا شعبہ بھی کرپشن کی نذر ہوگیا۔ ہر ادارے میں مختلف قسم کی ملازمتوں کے ریٹ فکس ہوگئے اور نوکریاں صوبائی حکومتوں اور نوکری کی قیمت کے تابع ہوگئیں۔ ہر صوبے میں صوبوں کی زبان بولنے والے سارے اصول کو ہوا میں اڑا کر دو اصولوں پر چلنے لگے زبان، قومیت اور رشوت اس ’’کلچر‘‘ کا سب سے بڑا نقصان تعلیم یافتہ اورمختلف شعبوں میں مہارت کے حامل نوجوانوں کو ہوا۔

ماضی میں جوحکومتیں رہی ہیں، ان کے ایجنڈے میں نوجوان اور تعلیم یافتہ افراد کی بھلائی اور مستقبل کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا، سو اس دور سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جاب کے لیے مسلسل دھکے کھانے پڑ رہے ہیں۔ کراچی ڈھائی کروڑ انسانوں کا ایک بہت بڑا شہر ہے جہاں دوسرے صوبوں سے آنے والوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ میں یہاں اس بات کی وضاحت کردوں کہ میں رنگ، نسل، زبان اور قومیتوں کے حوالے سے فائدہ اٹھانے والوں کو اچھا نہیں سمجھتا۔ ساری دنیا میں میرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہی ایک اصول ایسا ہے جو شہریوں خاص طور پر نوجوان شہریوں کو مطمئن کرسکتا ہے اور حیرت ہے کہ اس حوالے سے کسی اہل فکر کی زبان ہی نہیں کھلتی۔

نوجوانوں کے ساتھ اگر ناانصافیوں کا یہی سلسلہ چلتا رہا تو ملک کا مستقبل تاریک ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک کے چاروں صوبوں میں اہل فکر اور ایسے دانشور موجود ہیں جو انسان کو صرف انسان کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں تعلیم کے حوالے سے جانچتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں نوجوانوں کو میرٹ کے حوالے سے جانچنے کے بجائے رشتے ناتوں، رنگ، نسل، زبان اور قومیت کے حوالے سے جانچا جاتا ہے اور انھی حوالوں سے ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ مایوسی اور اشتعال کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ ہر صوبے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو میرٹ کا احترام کرتے ہیں میرٹ کو ہٹا دیا جائے تو صرف جہل رہ جاتا ہے۔

پاکستان میں ویسے تو ابتدا سے ہی میرٹ کو نظرانداز کیا جاتا رہا لیکن جب سے نام نہاد جمہوریت کا دور دورہ شروع ہوا ہے، میرٹ معاشرے سے غائب ہوگیا ہے۔ بات صرف ملازمتوں کی نہیں ہے بلکہ ملک کی مجموعی ترقی اور قابل نوجوانوں کے مستقبل کی ہے، ان حقائق پر حکمرانوں کو سوچنا چاہیے لیکن حکمرانوں کی توجہ اس جانب ہوتی ہی نہیں بدقسمتی سے ہمارا ملک 72 سال سے اشرافیہ کی گرفت میں ہے اور اشرافیہ کا کام دولت اور سفارش سے شروع ہوتا ہے اور اسی پر ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارے ملک ہی نہیں پوری دنیا کو ان آلائشوں سے اس وقت تک پاک نہیں کیا جاسکتا جب تک سرمایہ دارانہ نظام معیشت سے چھٹکارا نہیں ملتا یہ ایک ایسا سچ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

موجودہ حکومت کے آنے سے قبل پاکستان مکمل طور پر اشرافیہ کی گرفت میں تھا، عمران خان کے آنے سے ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ مڈل کلاس کا ایک فرد وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچا ہے۔ یہ تبدیلی اشرافیہ کو بالکل منظور نہیں۔ حکومت کو ہٹانے کے لیے سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ حکومت کو عوام کی حمایت حاصل ہے اور جسے عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہے اسے اشرافیہ بھی ہٹا نہیں سکتی۔ ہماری اشرافیہ کو پہلی بار یہ احساس ہوا ہے کہ سب سے بڑی طاقت عوام ہوتے ہیں۔ اس تجربے اور احساس نے اشرافیہ کو بہت مایوس کیا ہے اور اب وہ تشدد پر اتر آئی ہے۔

بات چلی تھی میرٹ کی خلاف ورزی سے، میرٹ کی خلاف ورزی یقینا ایک بہت بڑی خرابی ہے لیکن اس کا ماخذ بھی اشرافیائی نظام ہی ہے۔ اشرافیہ اس طریقے سے یہ سارے دھاندلی کے کام کرتی ہے کہ خود بدنامی سے بچ جاتی ہے اور نچلے طبقات قصور وار ٹھہرتے ہیں۔ رنگ، نسل، زبان اور قومیت کی تائید سے عام آدمی تو متاثر ہوتا ہے اور یہاں بھی اشرافیہ پردے میں رہتی ہے ہماری بڑی سیاسی جماعتوں میں میرٹ کے حامی موجود ہیں لیکن یہ حضرات متحرک نہیں ہیں۔ یہ کام مفکروں، ادیبوں اور دانشوروں کا ہے کہ وہ عوام میں ان امتیازات کے خلاف بیداری پیدا کریں۔

Leave a Reply