Muqadas Ayam Ko Mutanaza Banaye Walon Kay Nam

!!مقدس ایام کو متنازعہ بنانے والوں کے نام

قریب قریب آج سے پینتیس برس قبل حضرت واصف علی واصفؒ کے کالم نما مضامینِ حکمت کی کتاب ’’دل دریا سمندر‘‘ شائع ہوئی تو اس کا انتساب یوں لکھا گیا’’ مقدس ایام کومتنازع بنانے والوں کے نام، بڑے افسوس کے ساتھ!‘‘ اْس دور میں محرم الحرام ایسے مقدس ایام کو متنازع بنانے والے لوگ معدودے چند تھے اور اشارے کنائے سے پہچان لیے جاتے۔ سوشل میڈیا کی طوفان خیز قیامت ابھی برپانہ ہوئی تھی، آج ہر طرف ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہے۔ علم و ادب باقی رہا‘ نہ فہم و دانش! یہاں ہر وہ شخص بزعم ِ خویش دانشور ہے ، جس کی انگلیاں ٹائپ کر سکتی ہیں۔ ہر وہ شخص دین ، تاریخ اور عقائد کے معاملات میں دخل دَر معقولات کا اہل ٹھہرتا ہے‘ جس کی زبان تیزی سے حرکت کر سکتی ہے۔ علم کے نام پر بد علمی کی فضا اَذہان کو مسموم کر رہی ہے۔




مرشدی حضرت واصف علی واصف‘ کا ایک قول ہے’’ بے علمی بدعلمی سے بدرجہا بہتر ہے‘‘۔ بدعلمی ایک ایسا مہلک زہر ہے کہ نیک نیت ہونے کے باوجود انسان کے عمل کا نتیجہ خیر کی بجائے شر برآمد ہوتا ہے۔ معلوم نہیں اس کی وجہ بنیادی حقائق سے بے خبری ہے یا تعصب، یا پھر اپنے فہمِ دین پر غرور کا شاخسانہ کہ ہر سال محرم کا چاند طلوع ہوتے ہی کچھ لوگ اہلِ بیت کے مقابلے میں ملوکیت کے وکیل بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ شارحِ تاریخ بن کر اصحاب ِ رسولؐ پر دشنام طرازی کے طریق کو اہلِ بیت سے محبت کی سند سمجھ لیتے ہیں۔ اہلِ بیت سے دنیا نے صبر ، تسلیم و رضا ، جود وسخا اور عالی ظرفی کا سبق سیکھا ہے۔ وہ پوری اْمت بلکہ پوری انسانیت کے رہبر و پیشوا ہیں …اب تک اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو معاف کر چکے ہوں گے۔ مفسرین و مقررین پر لازم ہے کہ وہ ان ہستیوں کے فضائل ِ کردار پر زیادہ سے زیادہ گفتگو کریں تاکہ کردار میں کمزور قوم اپنی کمزوریوں کو رفع کرے اور قوموں کی دنیا میں کوئی عظیم کردار ادا کر سکے۔ عظیم کرداروں کا ذکر کرنے والی قوم کا کردار بھی عظیم ہونا چاہیے۔

فضائل ِ اَصحابِ رسولؐ سے کس کم فہم کو اِنکار ہوگا۔ دین کے باب میں اْن کی خدمات رہتی دنیا تک اْمت کے جمیع مصلحین سے زیادہ ہیں …لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ کم فہم بلکہ کج فہم لوگ تاریخ سے تاریخی لڑائی لڑتے ہوئے اپنے زعمِ فہمِ دین میں انہیں اہلِ بیت سے مقابلے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔یہ بات ایک فطری اَمر کی طرح طے ہے کہ دوستوں کا مقابلہ گھر والوں کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ دوست معاونین ہوتے ہیں، گھر والے وارثین ہوتے ہیں۔ بخدا ! یہاں کسی فرقے کی بات نہیں ہو رہی، اور نہ مورخین ِعرب و عجم کا موازنہ ہی مقصود ہے۔ مقصود و مطلوب صرف حق تک رسائی ہے… اور پیغمبر صادقؐ کے فرمان اور دعا کے عین مطابق ’’جدھر علی ہے ادھر حق ہے، جدھر حق ہے ادھر علی ہے‘‘۔ امام نسائیؒ نے حضرت علی المرتضیٰؑ کے فضائل کی بابت ایک ہزار احادیث مرتب کی ہیں۔ استبداد ِ ملوکیت دیکھیے امام نسائی کو یہی کلمہ حق کہنے کی پاداش میں تشدد کر کے شہید کر دیا جاتا ہے۔ فضائل علیؑ پر چیں بہ جبیں ہونا نفاق کی علامت ہے، اَز رْوئے حدیث طے ہے کہ مومن اور منافق میں یہی فرق ہے۔ اصحاب اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے کتنی ہی روایتوں سے منقول ہے کہ ہم کسی شخص کے مومن یا منافق ہونے کی پہچان اس طرح کیا کرتے کہ اس کے سامنے فضائلِ علی بیان کرتے، اگر سننے والے کے چہرے پر بشاشت آجاتی تو ہم سمجھ لیتے کہ ہمارا مخاطب مومن ہے، اگر اس کے چہرے پر قبض کے اثرات نظر آتے تو ہم جان لیتے کہ یہ منافق ہے۔ یہی پہچان آج بھی قائم ہے۔ یہ فتو ٰی نہیں ‘ مشاہدہ ہے۔ شہرِ علم ؐ تک رسائی کیلئے اگر درِ علم میسر نہ آ سکا تو معلومات کے دشت ِ بے اماں میں بے سمت آوارہ گردی شعورِ بنی آدم کا مقدر ٹھہرے گا۔

شاعر نے کہا تھا ‘ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے، اطلاعاً عرض ہے‘ یہاں پوسٹوں کا انتخاب بھی رسوا کرنے کے لیے کافی ہے۔ پچھلے دنوں ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں ایک متشرع واعظ خطبۂ غدیر میں فضائلِ علی ؑ کے باب میں قولِ رسولِ کریمؐ کا’’پس منظر‘‘بیان کرنے کی آڑ میںمنظر کو پس منظر میں لے جانے کی ناکام کوشش کی۔ نادانوں نے بے سوچے سمجھے بڑے’’خشوع و خضوع‘‘سے وہ پوسٹ اپنی وال پر شیئر کی ہوئی تھی۔ گویااپنی دیوارِ فکر و عمل مکمل سیاہ کی ہوئی تھی۔

فضائل تقابل کے لیے تو بیان نہیں کیے جاتے، بلکہ اپنے جذبۂ شوق کو فروزاں کرنے کیلئے قرطاس ِ دل پر رقم کیے جاتے ہیں۔ بلند کردارہستیوں کے فضائل بیان کریں تو اپنے کردار میں تبدیلی کی تحریک اور جستجو جنم لیتی ہے۔ یہ شہادتوں کا تقابل، ایام منانے کا تقابل اور پھرفضائل کا تقابل… چہ معنی دارد؟ یوم کے مقابل یوم کی صدا ،اور پھر تقابل کی فضا…درحقیقت شہدائے کربلا اور نواسۂ رسولؐ کی بے مثل قربانیوں کو دھندلانے کی ایک کوشش ہے۔ہر جگہ اور واقعے کا موقع محل ہوتا ہے۔ عین محرم الحرام کے مہینے میں شہادتِ جنابِ عمر و عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کاشہادتِ امام حسینؑ سے تقابل کرنے والے آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ شہادت کے مقابلے میں شہادت کا بیان‘ دراصل شہادت ِ عظمیٰ کابیانیہ چھپانے کی تدبیر ہے۔ آج اپنے قلم کی روانی سے تشنگانِ کربلا کی پیاس اورپانی کے استعاروں کو روندنے والے کل بروزِ حشر ’’العطش العطش‘‘ پکاریں گے۔ تاریخ کا بازو مروڑنے والے ، خاندانِ رسولؐ پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں کا دفاع کرنے والے آخر شافع محشرؐ کے حضور کس منہ سے شفاعت کے طلب گار ہوں گے، وہ اْس جنت کی آرزو کیونکر کر سکیں گے جس کے سردار حسنین کریمین ہیں؟

ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے، سوشل میڈیا کا ایک مثبت پہلو اور پیغام یہ ہے کہ اب کتمانِ حقیقت ناممکن ہو جائے گا۔ اَب تاریخ پر جبر کے پہرے کمزور پڑ گئے ہیں۔ لوگوں کو اپنے انپے مدارس تک محدود رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ ایک سلیم الطبع ذہن کی رسائی مختلف مکاتبِ فکر کی آرا تک بلا روک ٹوک پہنچنے کے سبب اس کے لیے درست سمت کاانتخاب آسان ہو گیا ہے۔ اگر جھوٹ پھیلانا آسان ہو گیا ہے تو جھوٹ چھپانا مشکل بھی ہو گیا ہے۔کچھ بعید نہیں کہ تاریخ کے حوالے سے ایک مشترک اعلامیہ جاری کرنا سب کی مجبوری بن جائے۔

ہم عجب لوگ ہیں‘ محبت کو قانون بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور قانون میں محبت کا جواز ڈھونڈتے ہیں۔ ہم نسبت ڈھونڈنے کی بجائے کتابوں سے حوالے ڈھونڈتے ہیں اور آخرِ کار کتابوں کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ ہم عقیدوں کی روشنی میں تاریخ پڑھتے ہیں اور تاریخ کی کتابوں سے اپنے لیے عقیدہ مرتب کرنے کی کوشش کرتے ہیں…اس عمل میں عقیدہ اور تاریخ دونوں سے بددیانتی کے مرتکب قرار پاتے ہیں۔ بے لاگ تاریخ کے قریب جائیں تو عقیدہ بچانا مشکل ہو جاتا ہے اور عقیدے اور عقیدت سے وفا کریں تو تاریخ کے کچھ صفحات سے نظریں چرا کر گزرنا پڑتا ہے۔ ہم پر مصلحت کا سکوت طاری ہے۔ ہم ظالم اور مظلوم کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں، یوں نادانستگی میں ظالم کی تائید کے مرتکب ٹھہر تے ہیں۔ ہم اپنے حصے کی گواہی حال میں نہیں دے پاتے‘ اس لیے ماضی سے ہماری وابستگی بھی مشکوک ٹھہرتی ہے۔ یو ں بھی قاتل اور مقتول سے بیک وقت ہمدردی ہماری گواہی کو مشکوک کر دیتی ہے۔ ہم ابھی تک’’اْولی الامر‘‘ کی تعبیر نہیں کر سکے۔ مزاجِ ملوکیت نے ا پنے اقتدارکے’’شرعی‘‘ جواز میں بہت سے قاضی شریح پیدا کیے ، دین کی اصطلاحات کو خوب استعمال کیا اور عوام الناس کی عقیدتوں کا استحصال کیا۔ شاہان وقت نے جبر کے کوڑے سے تاریخ بدلنے اور پھر تواریخ میں اَدل بدل کرنے کی تدبیر کی، جائے فضیلت پر پائے سیاست سے پہنچنے کی کوشش کی ، لیکن افسوس! تاریخ کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ تاریخ میں تحریف کسی کی تعریف نہیں بن سکتی ہے۔تاریخ چھپانے سے ظالم کا ظلم نہیں چھپتا۔ اگر تاریخ میں چودہ سو برس کے فاصلے پر رہ کر بھی ہم حق کی گواہی دینے کے با ب میں ابھی تک شش و پنچ کے دوراہے پر کھڑے ہیں تو تصور کیجیے‘ اْس دَور میں پیدا ہو تے تو کس طرف کھڑے ہوتے؟؟

Leave a Reply