Jis Par Ehsan Karo

”……جس پر احسان کرو“

اعوان ٹاؤن لاہور سے راؤ شمس الدین خان کہ دیرینہ قاری ہیں‘ لکھتے ہیں:”صاحبِ نہج البلاغہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ایک معروف قول زبان زدِ عام ہے’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘۔اِس کی تفہیم نہ ہو سکی، ہرچند کہ زندگی بھر کا عملی تجربہ یہی ہے“ اِس کی وضاحت مطلوب ہے۔




درِ علم ؑ کہ جہاں زمانے بھر کے طالبینِ علم و حکمت اپنا کشکولِ طلب لیے آتے ہیں‘ یہاں سے جو بات بھی زمانے کو عطا ہوئی‘زمانہ گواہ ہے کہ وہی حق ہے۔ صاحبِ علمِ لدن اس باب میں ہر سائل کے مسؤل ہیں اور ہر طالب کے مطلوب! سائل اپنے مسؤل سے نہیں‘ بلکہ اپنے سوال سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کوئی کس در کا سائل ہے‘ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس کا سوال کیا ہے۔ یعنی سائل کا مقام اس کے سوال سے متعین ہوتا ہے۔ در جتنا بھی عالی ہو‘ سوال کرنے ولا اگر پست ہمت تو پستہ قد ہی رہے گا۔”سلونی سلونی“ کی ندائے دلنشین سننے کے بعد بھی کچھ بدو اپنی پگڑیوں کے بل کی تعداد پوچھتے رہ گئے، حالانکہ صلائے عام دینے والے صاحب جود و ِ سخا نے کہا تھا کہ وہ آسمانوں کے راستے زمین سے بہتر جانتا ہے۔

قولِ مذکور میں اس قدر گہرائی اور گیرائی ہے کہ ایک مضمون اس کا متحمل نہیں ہو سکتا، لیکن جہاں تک ہو سکے‘بات کرنی چاہیے۔ ایک عامی کو جب یہ قول سنایا جاتا ہے تو وہ فوراً اِس سے یہ مطلب کشید کرتا ہے یعنی اپنے مطلب تک پہنچتا ہے کہاس مطلب گویا یہ ہے کہ کسی پر احسان کرنے سے گریز کرنا چاہیے……اس روایت سے یہ مطلب درایت کرنے والے لوگ کم ہمت ہیں، وگرنہ عالی ہمت لوگوں کے لیے یہی قول احسانِ مزید کے لیے ایک مہمیز کا کام کرتا ہے

نیکیوں میں سب سے بلند تر نیکی کا نام احسان ہے…… یہ اس نیکی کا نام ہے‘جو فرض بھی نہ تھی۔ اپنی کسی ذمہ داری کو احسان کا نام دینا کم ظرفی ہے۔ فرض تو فرض ہے، اگر فرض ادا کیا‘تو کیا احسان کیا؟ ایک معروف حدیث ِ جبریل ؑ کی معرفت ایمان کا بھی بلند تر درجہ‘ درجہئ احسان بتلایا گیا ہے، یعنی احسان یہ ہے کہ تُو اپنے رب کی عبادت اس طرح کرے گو یا تُو اُس کو دیکھ رہا ہے۔ جب کوئی مخلوق کو اپنے رب کی نگاہ سے دیکھے گا تو کارِ ربوبیت میں مشغول ہو جائے گا۔ رب جب اپنے بندوں کی ربوبیت کرتا ہے تو اس میں ان کا استحقاق نہیں دیکھتا۔ وہ رب العالمین ہے، صرف رب المسلمین ومومنین نہیں …… وہ بلاتخصیص کفر و ایماں سب کی ربوبیت کرتا ہے۔ درجہئ احسان پر فائز مومن ”صبغتہ اللہ“کا عملی نمونہ بن چکا ہوتا ہے، ”تخلقوبا اخلاق اللہ“ سے متصف بندہئ مومن اپنے دستِ عنایت بلا کم و کاست سب کی طرف بڑھا دیتا ہے، خواہ کوئی ماننے والا ہو یا کوئی اس کا انکار کرنے والا۔

ہاتھ ہے اللہ کا بندہئ مومن کا ہاتھ

غالب و کار آفریں،کارکشا و کارساز

احسان کرنے والا غالب ہوتا ہے اور احسان وصول کرنے والا مغلوب۔ یہ کلیہ طے ہے کہ دینے والا ہاتھ اوپر والا ہاتھ ہوتا ہے، اور اوپر والا ہاتھ َاز روئے حدیث نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص مغلوب ہوتا ہے‘ تواس کی نظر نیچی ہوجاتی ہے، قدرتی طور پر وہ اپنی اس حالت کر رفع کرنا چاہتا ہے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی ایسے موقع کی تلاش میں ہو گا کہ اس مغلوبیت اور احسان مندی کی حالت سے باہر آجائے۔ یہاں پر ظرف کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ عالی ظرف احسان کا بدلہ اقرار اور احسان کی صورت میں دے گا اور کم ظرف انکار اور برائی کی صورت میں دینے کی کوشش کرے گا۔ دونوں صوررتیں احسان کرنے والے کے حق میں ایک شر کا پہلو رکھتی ہیں۔ اگر وہ احسان کا بدلہ احسان کی صورت میں قبول کر لیتا ہے تو وہ اپنے منصب ِ احسان سے معزول ہو جاتا ہے، دوسری صورت میں اگر وہ احسان کا انکار کرنے والے کے رویے سے حالت ِ اشتعال میں آ جاتا ہے‘ تب بھی وہ درجہئ احسان سے گر جاتا ہے۔ یعنی پہلی صورت میں وہ صلہ وصول کرنے کی وجہ سے درجہئ احسان سے معزول ہوا اور دوسری صورت میں اپنے احسان کا سلسلہ منقطع کرنے کی وجہ سے محسنین کی فہرست سے خارج ہوا۔ جتلایا ہوا احسان یوں بھی ضائع ہو جاتا ہے۔یوں تو ہر نیکی فی سبیل اللہ ہوتی لیکن احسان اس درجہ کی نیکی ہے جو خالصتاً الی اللہ ہوتی ہے…… بلکہ اپنی کیفیت میں مع اللہ ہوتی ہے۔ درحقیقت نیکی وہی قبول ہوتی ہے جو فراخ دلی سے دریا میں ڈال دی جائے …… دریا جانے اور اس دریا کی منزل‘ قلزم جانے! ہم نے اپنی نیکی کو”گڈویا“ بنا کر‘ اسے کانٹے میں پرو کر‘ اِِس سے اپنے مفاد کی مچھلی

شکار نہیں کرنی…… چاہے یومِ سبت نہ بھی ہو!!

مراد یہ کہ اپنے احسان کی حفاظت ہر صورت کرنا لازم ہے۔ جس پر آپ نے احسان کیا‘ اس نے اس احسان کے جواب میں جب اپنی فطرت کے مطابق احسان کا جواب بجائے احسان کے‘ ناشکرگزاری کے کلمات سے دیا تو اس نے دراصل اپنے رویئے سے آپ کے اندر چھپے ہوئے شر کو بیدارکرنے کی کوشش کی۔ یہی اُس کا شر ہے‘ جس سے بچنا ضروری ہے۔ اگر اس شر سے نہ بچ سکے تو سمجھیں کہ خوار ہوئے…… یعنی وقت وجود اور وسائل بھی بربادہوئے اور اُس کے صلے میں رب کی رضا بھی حاصل نہ ہوئی…… اور یوں ”نیکی برباد گناہ لازم“ ایسی ضرب المثل ہتھوڑا بن کر احساس اور وجود پر برتی رہے گی۔

یاد رکھیں‘ نیکی جب قبول ہوتی ہے تو اسے ملامت کی گلی سے گزارا جاتا ہے۔ نیکی کا تعلق اخلاص سے ہے اور اخلاص کی پرکھ ملامت کی گلی سے گزرنے کے بعد ہوتی ہے۔ ہمیں بڑی سنجیدگی سے اپنی اس نیکی پر غور کرنا چاہے جس کا صلہ ہمیں اس دنیا ہی میں ملنا شروع ہو جائے۔ لوگوں سے انعام اور شکریے کی صورت میں اگر گلے میں ہار پڑنے لگیں تو سمجھیں ہم اپنا اصل مقصد ہار چکے ہیں۔ نیکی قربِ الٰہی کا ذریعہ ہوتی ہے، اگر اس سے مخلوق سے قرب و وصال بڑھنے لگے تو یہ قابلِ غور مقام ہے۔”فروختند چہ ارزاں فروختند“ کا کلیہ سب سے پہلے نیکی پر لگتا ہے۔”ثمناً قلیلاً“ کا اطلاق بھی اپنی نیکی پر بھی نہیں ہونے دینا چاہے۔ ”واکلھم السحت“ کی تفسیر میں قولِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نظر سے گزرا کہ یہ ایسا ضمنی فائدہ ہوتاہے جو صدقہ و خیرات کرنے والا اپنے سائل سے اٹھاتا ہے۔ اس معاملے میں ہمارے اکابر کس قدر حساس تھے، امام ابوحنیفہؒ ایک جنازے میں شرکت کیلئے جارہے تھے کہ دھوپ میں کچھ دیر رکنا پڑا،آپ ؒ کے ایک مصاحب نے دیوار کے سائے کی طرف بلایا تو آپؒ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس مکان کا مالک میرا مقروض ہے، اس کے مکان کی دیوار کے سائے میں آنا کہیں اپنے قرضے کی صورت میں احسان کے صلے کی مد میں شمار نہ ہو جائے۔ اللہ اللہ! شہرِ علمؐ، درِ علم ؑ اور پھر اس دَر سے خیر اور خیرات پانے والے اصحابِ جود و سخا!! کشف المحجوب میں حضرت علی ہجویریؒ جود وسخا میں فرق بتاتے ہیں کہ صاحبِ سخا وہ ہے جو مانگنے والے کو دیتا ہے اور اس کے استحقاق کو دیکھتے ہوئے دیتا ہے، جبکہ صاحب ِ جود (جو ّاد) وہ ہے جو بن مانگے اور استحقاق دیکھے بغیر عطا کرے۔ سبحان اللہ! یہ فرق کوئی جواد صفت ہی بتا سکتا ہے۔

محاورے ہی غلط العوام نہیں ہوتے بلکہ ان کی تفہیم بھی عوام میں غلط رائج ہو جاتی ہے۔اہلِ معانی پر لازم ہے کہ وہ اصل کو نقل سے جدا کرتے رہیں۔ فرقان سے تعلق اور تمسک رکھنے والوں کیلئے لازم ہے کہ وہ حق و باطل میں فرق واضح کرتے رہیں۔”وتواصو بالحق“ حق کی وصیت کاایک مفہوم یہ بھی ہے!!

Leave a Reply