Paigambar e Ikhlaq SAWW

پیغمبر ِ اخلاقﷺ

حدیثِ قدسی ہے”لو لاک لما خلقت الافلاک“ (اگر آپؐ نہ ہوتے تو کون و مکاں تخلیق ہی نہ کیے جاتے)۔ حدیثِ نبویؐ شاہد ہے”اوّل ما خلق اللہ نوری“(اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو تخلیق کیا)۔ آ پؐ نبی ئ اْمّی ہیں‘ یعنی اْمّ الموجودات ہیں، منبع کائنات ہیں، روحِ کائنات ہیں۔ آدمؑ سے عیسیٰ ؑ تک سب انبیا نبی ئ آخر الزماں ؐ ہی کی خبر دیتے رہے اور اپنی تابع اْمتوں کو رسولِ کریم خاتم النبیینؐ کی متابعت کے لیے تیار کرتے رہے۔ آپؐ ایسا احسن الخلق نہ پیدا ہوا‘ نہ پیدا ہوگا۔ احسن الخالقین نے آپؐ کو احسن ِ تقویم پیدا فرمایا۔ سبحان ذات نے آپؐ کو پاک پیدا کیا۔گویا بے عیب ذات نے آپؐ کو بے عیب پیدا کیا۔ توحید اور شرک میں تمیز آپؐ کے دم سے ممکن ہوئی۔ایمان اور کفر میں فرق آپؐ کی ذاتِ والاصفات پر ایمان کے سبب قائم ہوا۔محض لاالٰہ الااللہ پڑھنے سے انسان پاک نہیں ہوتا، جب تک ”محمدرسول اللہ“کا قول و اقرارشامل ِ حال نہ ہو‘کلمہئ طیبہ مکمل نہ ہوگا۔ کلمہئ طیبہ ہی انسان کو پاک کرتا ہے، ہر قسم کی نجاست سے۔ کفر اور شرک کی نجاست سے نجات دینے والا یہی کلمہئ طیبہ ہے۔




آپؐ احسن الخلق بھی ہیں اور احسن الخْلق بھی! خَلق اور خْلق دونوں میں کامل و اکمل ذات رہبر کْل انسانیت ہے۔ اللہ اللہ! اللہ خود گواہ ہے”انک لعلیٰ خْلقٍ عظیم“ (بے شک آپؐ اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہیں)۔آدمیت کو انسانیت کے شہر میں بسانے کا اہتمام اُن اخلاقِ حسنہ کے اسباق کے سبب ممکن ہوا‘ جن کا نمونہ عملی طور پر رسولِ کریمؐنے پیش کیا۔ رب العالمین کا ارشاد ہے”وما ارسلنٰک الا رحمۃ اللعالمین“ (اور بے شک ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔وہ تمام اخلاقِ نبویؐ جن کی تعلیم کا اہتمام عملی طور حیاتِ طیبہ میں کیا گیا‘ وہ آپ ؐ کی رحمت کا حصہ ہیں۔ یعنی اخلاق رحمت کا جزو ہے۔ پیغامِ رحمت پہنچانے کا ذریعہ اخلاقِ حسنہ پہنچانا ہے۔ اخلاق ِ حسنہ کا تحفہ لے کر ہم جہاں جہاں جائیں گے‘ پیغامِ رحمت اللعالمین ؐازخود اُس جہان تک پہنچ جائے گا۔ دین کے پیغام کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ سیرت کی تبلیغ ہے۔ سیرت سراپا اخلاق ہے۔ اخلاق کا سبق دینے کے لیے سب سے پہلے ہمیں خود اخلاق پر کاربند ہونا لازم ہے۔ غصے میں بولتا ہوا شخص‘ خاموشی اور تحمل کا سبق نہیں دے سکتا۔ غفلت میں سونے والا بیداری کی اہمیت بیان نہیں کرسکتا۔

رسولِ کریمؐ کے اخلاقِ کریمانہ تاریخِ انسانیت کا جھومر ہیں۔ پڑوسی کے حقوق سے لے کر مہمان کی تکریم تک اخلاقِ نبویؐ میں خوب خوب

بیان کر دی گئی۔ فرمایا”وہ شخص مومن نہیں‘ جس کے شر سے اُس کا پڑوسی محفوظ نہیں“۔ مہمان کی تکریم کے باب میں فرمایا”جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے‘ لازم ہے کہ وہ مہمان کی تکریم کرے“۔ مہمان کا دروازے پر استقبال اور پھر اسے دروازے تک الوداع کرنے کی تاکید کی گئی۔ آپؐ کے اخلاق کا یہ عالم کہ کھانے کھلانے کے بعد بھی آپؐ نے کسی کو اپنے دسترخوان سے اٹھنے کو نہیں کہا…… یہاں تک کہ اللہ کووحی نازل کرنا پڑی کہ جب تم کھانا کھا چکو تو نبیؐ کے دسترخوان سے برخاست ہو جایا کرو، وہ خود تم سے حیا کے سبب اٹھنے کو نہیں کہتے۔ سبحان اللہ ماجملک مااحسنک۔ باہمی معاملات میں وعدے کی پاسداری اور امانت داری ایمان داری کا حصہ ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐنے ایسا خطبہ کم دیا ہوگا جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ جس آدمی میں امانت نہیں اس کا ایمان بھی کچھ نہیں اور جس میں وعدے کی پاسداری نہیں اس کا دین بھی کچھ نہیں۔

رْو ئے زمین پر کسی تہذیب میں کوئی ایسی اخلاقیات نہیں جس کا سبق اخلاقِ محمدیؐ میں موجود نہ ہو۔ فرمایا گیا ”جو شخص حق پر ہوتے ہوئے اپنا حق چھوڑ دے‘ یعنی جھگڑا نہ کرے‘ میں قیامت کے دن اس کے حق کا ضامن ہوں“۔ سبحان اللہ! اخلاقِ محمدیؐ ہی زمانے میں امن کی ضمانت ہے۔ عام روز مرہ اخلاقی اقدار کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی اخلاقِ محمدیؐ میں سب کے لیے راہنمائی موجود ہے۔ آپؐ نے سلام کو عام کرنے کی تاکید کی، فرمایا کہ سلام کرنے سے دل میں کدورت نہیں رہتی۔ جو شخص پہلے سلام کرتا ہے‘ اس کا اجر زیادہ بتایا گیا ہے۔ سلام میں پہل کرنے والا گویا اعلان کرتا ہے کہ اس کا دل نفرت اور تکبر سے پاک ہے۔ احادیث میں اپنے مومن بھائی کو مسکرا کر ملنے کو صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ مسکراہٹ کے پھول کھِلنے سے معاشرے میں اِخلاق کی خوشبو اَزخود پھیل جاتی ہے۔

پیغمبر ِ اخلاقؐ نے فرمایا کہ مومن اپنے بہترین اخلاق کی وجہ سے (دن کو)روزہ رکھنے والے اوررات بھرعبادت کرنے والے کے مقام کوپالیتاہے۔ حضور نبی کریمؐسے ایک شخص نے تین مرتبہ یہی ایک سوال کیا کہ دین کیا ہے؟ آنحضرتؐنے تینوں مرتبہ ایک ہی جواب دیا”اخلاق“۔اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ آپؐ فرمایا کرتے”تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں جو اپنے اخلاق میں دوسروں سے اچھے ہیں“۔حضرت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے فرمایا”قیامت کے دن میزان میں کوئی چیز بھی اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی“۔

فتح مکہ کے موقع پر ایک فاتح کے طرف سے جس خُلقِ عظیم کا مظاہرہ کیا گیا‘ تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ پیکرِخُلق ِ عظیم ؐ نے اپنے جانی دشمنوں کو جس فراخ دلی سے معاف فرما دیا‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کفار کے سپہ سالار کی معافی اور اسلام نہ صرف قبول کر لیا گیا، بلکہ عزت افزائی کے طور پر اس کے گھر کو دارالامان بھی قرار دے دیا گیا۔ تالیفِ قلب کی ایسی مثال ڈھونڈنے سے نہ ملے گی۔ اپنے محبوب چچا کے قاتلوں‘ ہندہ اور حبشی کو معاف کرنا آپؐ کے خلقِ عظیم کی بہترین مثال ہے۔

پیغمبر ِ اخلاقؐنے اخلاق کا پیمانہ ایسا مقرر کر دیا کہ بقول مرشدی واصف علی واصف ”ترے مسافروں کا سفر گھر میں کٹ گیا“۔ فرمایا کہ تم میں سے بہتر اخلاق والے وہ ہیں‘جو اپنے اہل و عیال کے لیے اخلاق میں بہتر ہیں۔ زیردستوں پر کریمی کا سبق یاد کرتے ہوئے اصحاب ِ ذی وقار نے دریافت کیا‘ یا رسول ؐ اللہ! ہم اپنے غلاموں کو آخر کتنی بار معاف کریں؟۔ آپؐ نے فرمایا”ایک دن میں ستّر بار“

پیغمبر ِ اخلاقؐ دینِ فطرت لے کر آئے۔ انسان کے لیے اخلاق فطری ہے اور بداخلاقی غیر فطری۔ اخلاق محبت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ دین ِ فطرت میں کوئی چیز غیر فطری نہیں ہو سکتی۔ محبت اور محبت کا اظہار ایک فطری جذبہ ہے،اسے روکا نہیں جا سکتا۔ مدینہ منورہ میں بنو نجار کی بچیوں کا رسولِ پاک ؐ کی آمد پر”طلع البدر علینا“ کے دف کے ساتھ استقبال کرنا فطری جذبہئ محبت کا ایک فطری اظہار ہے۔ کائنات کے اس خاک و گل کے قریے میں آمد ِ رسولِ کریمؐ کو مرحبا کہنے کے لیے ہر سال ربیع الاول کی ساعتوں میں خوشی منانا، گلیاں سجانا، درود سلام کی محفلیں برپا کرنا، سیرت کانفرنسوں کا انعقاد کرنا، سیرت کی کتب پر انعامات کا اعلان کرنا…… یہ ساری سرگرمیاں عین فطری ہیں ……ان پر سرد گرم ہونے کی ضرورت نہیں!!

سیرت کا تذکرہ‘ سیرت پر چلنے کا عزم بھی ہے۔ یہ درست کہ محبت کا دعویٰ عمل کے بغیر موزوں نہیں لیکن محبت اور محبت کا تذکرہ ازخودمائل بہ عمل ہوتا ہے۔ بہترین اور دیرپا عمل محبت ہی کے زیر اثر ہوتا ہے۔ محبت اور نیت دونوں کا تعلق دل کی دنیا ہے۔ جب تک دل کی دنیا آباد نہ ہو‘ عمل کی دنیا آباد نہیں ہوتی۔ذکرِ حبیبؐ فکرِ حبیبؐ تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ محبت‘ محبت کے ذکر سے بھی ہو سکتی ہے۔تذکرہئ اخلاق‘انسانی فطرت میں خوابیدہ اخلاق کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہے!!

Leave a Reply