Masiyat Museebat Aur Bagawat

معصیت ، مصیبت اور بغاوت

سچ پوچھیں تو معصیت ایک مصیبت ہے۔ معصیت ماننے والے کا عمل ہے، جبکہ بغاوت انکار کرنے والے کا عمل!! ماننے والے میں اور انکار کرنے والے میں بہت فرق ہے۔ ماننے والا مانتا ہے کہ ُاسے یہ عمل نہیں کرنا چاہیے، وہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کا عمل ‘ اس کے علم کے شایانِ شان نہیں۔ معصیت دراصل اس کے علم اور عمل میں فرق سے پیدا ہوتی ہے۔عاصی کا قلب تسلیم کرتا ہے کہ وہ جس نظریے کو مانتا ہے وہی حق ہے ،وہ جس نظریے پر کاربند ہے اسی کی تعلیمات برحق ہیں لیکن شومئی قسمت تعلیمات پر عمل کے دوران میں استقامت میں کہیں خلل واقع ہوجاتا ہے۔ کج روی کے بعد اس کا انداز معذرت خواہانہ ہوتا ہے، توجیہانہ نہیں، یعنی وہ اپنے عمل کی معذرت پیش کرتا ہے‘ توجیہہ نہیں۔




 

سقراط کا کہنا تھا کہ انسان کی بدعملی کی وجہ لاعلمی ہے ‘ یا بدعلمی ہے، اس کا ماننا تھا کہ اگر کسی انسان کو درست علم دے دیا جائے تو وہ گناہ کا مرتکب ہی نہیں ہو سکتا۔ سقراط کی حکمت و دانش سے اعراض و اعتراض مقصود نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ معصیت بیشتر اوقات جانتے بوجھتے سرزد ہوتی ہے۔ تاریخِ انسانی اور خود انسان کا وجود اس پر گواہ ہے کہ علم اور عمل میں فرق باقی رہ جانا عین ممکن ہے۔ جنابِ سقراط کے اس فلسفے کی وجہ غالباً یہ ہو سکتی ہے کہ وہ خود معصوم فطرت انسان تھے، انہوں نے غالباً اپنے علم کے برعکس کبھی عمل نہ کیا تھا، یہاں تک کہ زہر کا پیالہ پی لیا لیکن جیل سے چوری چھپے فرار ہونا گوارا نہ کیا کہ یہ ان کی تعلیمات کے برعکس عمل تھا۔ محفل ِ گفتگو میں سقراط پر بات کرتے ہوئے مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ ایک قلندرانہ ترنگ میں فرمایا کرتے‘ سقراط نے زہرکا پیالہ پیتے ہوئے کہاکہ دنیا میرا نام اور میراکام یاد رکھے گی اور جنہوں نے مجھے موت کی سزا سنائی ہے ان کے نام کے اسپیلنگ بھی لوگوں کو بھول جائیں گے۔


آمدم برسرِمقصد! معصیت ایک روگ ہے جسے دور کرنا ہر عاصی کی تمنا ہوتی ہے۔ معصیت کا مرتکب اپنے معاصی سے واقف ہوتا ہے اور اپنے معاصی کے مشتہر ہونے سے خوفزدہ ہوتا ہے، وہ دل ہی دل میں نادم ہوتا ہے اور دائرہ معصیت سے نکلنے کی تدبیر میں درونِ باطن کوشاں ہوتا ہے۔ معصیت اپنی اصل میں کسی حکم کی بجاآوری میں کمی، کجی اور کوتاہی کا نام ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ اس پر اس کے وجود کا جمود غالب آجاتا


ہے اور وہ جانتے بوجھتے معصیت کی دلدل میں پھسل جاتا ہے۔ انسان کا خالق انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، وہ اس کے نفس میں پیدا ہونے والے وسوسوں تک سے واقف ہے، وہ اس کی بشری کمزوریوں سے بھی بخوبی آگاہ ہے، وہ کہہ چکا ہے “ولم نجد لہ عزما” ( اور ہم نے اسے اپنے عزم میں پختہ نہیں پایا) ، وہ اپنے کلام میں بیان کر چکا ہے “خْلق الانسان ضعیفاً” ( انسان کمزور ہی پیدا کیا گیا ہے)۔ اس لیے اس نے معصیت کو مغفرت میں بدلنے کے لیے توبہ کا راستہ رکھا ہے۔ غلطی آدمؑ سے بھی سر زد ہوتی ہے اور غلطی کا ارتکاب ابلیس بھی کرتا ہے، لیکن حضرت آدمؑ اپنی غلطی پر توبہ کے سبب سرفراز کر دیتے جاتے ہیں، اُن کا ہبوط درحقیقت نسل ِ انسانی کا روحانی عروج ثابت ہوتا ہے۔ صاحبِ نہجہ البلاغہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ توبہ روح کا غسل ہے، جتنی بار بھی کیا جائے روح پہلے سے زیادہ پاکیزہ ہو جاتی ہے۔ یہاں مراد توبہ شکنی کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ تائیبین کی پذیرائی ہے۔ یادش بخیر ‘ہمارے پیر بھائی چوہدری ریاض احمد ایڈیٹر’’ سویرا‘‘ـکہ مرشد کے دیرینہ مریدوں میں سے ہیں ‘ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حاضرِ خدمت ہوا تو آپ ؐنے رحمت کے موضوع پر اپنا تازہ کلام پڑھنے کے لیے دیا، کہتے ہیں کہ میں نے بے باکی سے عرض کیا کہ حضور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آپ نے اس مضمون میں گناہ گاروں کی حوصلہ افزائی کی ہے، آپؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا‘ ریاض! یہ رحمت پر بھروسے کی بات کی گئی ہے، توبہ کرنے والوں کو رحمت کی نوید دی گئی ہے۔ مراد یہ کہ توبہ کے در پر دستک دیتے ہی معصیت مغفرت تبدیل کر دی جاتی ہے۔


سیئات کو حسنات میں بدلنے کے حوصلہ افزا عندیہ قرآن میں دیا گیا ہے۔ رحمت سے مایوس نہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں واضح فرما دیا گیا ہے ’’ولو انہم اذ الظلمو انفسہم جاؤوک فااستغفراللہ واستغفر لہم الرسول لوجد اللہ تواباً الرحیما‘‘ ( اور جب یہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تو یہ آپ کے پاس آجاتے ‘پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور رسولؐ بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، بے حد رحم فرمانے والا پاتے)۔ کلمے کی طرح یہ آیت آج بھی ویسے قابلِ عمل ہے۔ کوئی آیت قصۂ ماضی نہیں۔ ہدایت کی ضروت حال میں ہوتی ہے، قرآن لمحہ حال میں ہدایت دیتا ہے۔ قرآن حال ہے اور صاحبِ قرآنؐ ہمہ حال۔ آج بھی ہدایت اور ہادی موجود ہے، اُمتی کا تعلق آج بھی قائم ہے، اِسی سبب سے تو وہ اُمتی کہلاتا ہے۔ اُمت موجود ہے‘ تو اُمت کا نبیؐ غیر موجود کیسے ہو سکتا ہے؟


القصہ! رحمت کے حصول کیلئے مجسم رحمت کے وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ رحمتِ عالمؐ سب جہانوں اور سب زمانوں کیلئے رحمت ہیں۔ یہ واسطہ اور وسیلہ اگر تھام لیا جائے اور وہ بھی ہمیں قبول فرما لیں تو معصیت کو مغفرت میں بدلنے میں کچھ دیر نہیں لگتی۔ رحمتِ خداوندی مجرد حقیت ہے، رحمت ِ مجسم رحمۃ اللعالمینؐ کی ذاتِ بابرکات مجسم رحمت کی صورت ہے۔ گناہ جب مجسم ہیں‘ تو ہمیں رحمت بھی مجسم صورت میں چاہیے۔ مغفرت اگر مجرد ہے تو مغفرت شدہ بندہ مجسم صورت میں اپنے رب کی رحمت کا اظہار کر رہا ہے۔


معصیت کو براستہ مغفرت نجات ہے لیکن بغاوت کو معافی نہیں۔ بغاوت کھلم کھلا اعلان ہے ‘نافرمانی کا۔ بغاوت ابلیس کا ورثہ ہے۔ بغاوت کرنے والا نظام اور نظریے کو کھلا دشمن ہے۔ دشمن سے اعلانِ مبارزت کیا جاتا ہے‘ مفاہمت نہیں۔ معصیت سعادت کی طرف لوٹ سکتی ہے، بغاوت شقاوت کی طرف لوٹتی ہے۔ شقاوتِ قلبی سے پناہ مانگنی چاہیے۔ معصیت قابلِ معافی ہوتی ہے، بغاوت قابلِ تعزیر و تعذیب!!


صاحبِ کشف المحجوب حضرت علی بن عثمان الجلابی المعروف داتا گنج بخشؒ لکھتے ہیں کہ قلب کا حجاب دو طرح کا ہوتا ہے، حجابِ غینی اور حجابِ رینی۔ غینی حجاب غفلت سے ہے ، یہ عارضی ہوتا ہے، اور اکتساب و ریاضت سے اٹھ جاتا ہے، مثلاً آئینے کا زنگ آلود ہونا آئینے کا حجاب ہے، زنگ کی وجہ سے آئینہ رنگ و نور منعکس کی صلاحیت سے دُور ہو جاتاہے۔ اُسے صیقل کیا جائے تو زنگ جاتا رہے گا اور آئینہ اپنی اصل پر لوٹ آئے گا۔ اس کے برعکس ایک پتھرکی مثال حجابِ رینی کی سی ہے، پتھر کی سرشت میں تاریکی ہے، اسے جتنا بھی صیقل کرو‘ تاریک ہی رہے گا، اور روشنی کے انعکاس و انعطاف سے بیگانہ ٹھہرے گا۔

Leave a Reply