Eshaq Ka Janaza Hai Zara DHoom Say Nikla

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکل

صاحبِ نہج البلاغہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے منسوب ایک قولِ بلاغت ہے، مفہوم جس کا یوں ہے کہ دنیا تمہیں برا سمجھے جبکہ باطن میں تم اچھے ہو‘ یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ دنیا تمہیں اچھا سمجھے جبکہ باطن میں تم برے ہو۔ فقر میں یہ قول بابِ ملامت کی توجیہہ ہے۔




سچی بات یہ ہے کہ ایک مردِ درویش ہمارے پڑوس سے رخصت ہوگیا اوراس کی زندگی میں ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ہم اس کے اندازِ تکلم پر ہی کلام کرتے رہے۔ شاید ہمارا حال بھی ان ظاہر پرست لوگوں کی طرح ہے جو ہر فقیر درویش قلندر خدامست کی اس دنیا سے رخصتی کے موقع پر بااندازِ حسرت یہ کہتے نظر آتے ہیں کاش ہمیں پہلے معلوم ہوتا تو ان سے شرفِ ملاقات ہی کر لیتے۔ ان کے جنازے کا حجم اور ہجوم ان کی عاقبت میں پذیرائی کا اندازہ بھی دیتا ہے اورمخلوقِ خدا کے دلوں میں اُن کی وسعت ِ حکمرانی کا بھی۔ پس مرگ مقبولیت صداقت کی بے بدل دلیل بھی ہوا کرتی ہے۔ خادمِ حسین… حسین کا خادم‘ اتنا بڑا خادمِ دین تھا‘ بہت کم لوگوں کو اُن کی زندگی میں اندازہو سکا۔ اس قدر پراژدھام جنازہ دراصل ایک عوامی ریفرنڈم بھی ہے… یہ ایک ریفرنڈم ہے کہ اس ملک کے عوام حرمت ِ رسولؐ اور ختمِ نبوتؐ کے معاملے میں کس قدر حساس ہیں۔ یہ اندرونی اور بیرونی عناصر کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ مملکتِ خدا داد پاکستان کے عوام ناموسِ رسالتؐ اور ختم نبوتؐ کے حساس معاملے پر کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اب دنیا ڈھونڈے ‘ وھیل پر بیٹھا ہواجسمانی معذوربابے کو جس نے فکری معذوروں کو بابِ عشق کا سبک خرام راستہ دکھا دیا۔ اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے والا ، نہ جھکنے والا، نہ بِکنے والا، کسی مصلحت اور سیاست سے بے نیاز وہ اپنی دھن میں ایک ہی نعرے پر پہرہ دیتا رہا۔ وہ نعرہ جو دین کی اساس ہے۔ ہم محمدیؐ ہیں اور عشقِ محمدﷺ ہمارا دین ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا دین عشقِ ذاتِ محمدﷺ سے شروع ہوتا ہے اور اسی ذاتِ والا صفات پہ وارفتگی پر ختم ہو جاتا ہے۔ “لاالہ الااللہ” پر کسی کو کسی سے کوئی تعرض نہیں، اصل دین تو “محمد رسول اللہ” سے شروع ہوتا ہے۔’’ محمد ابنِ عبداللہ‘‘ تک ہر سلیم الفطرت آپؐ کی ذاتِ والا صفات کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔ “محمد رسول اللہ” کا عنوان دراصل خالق اور مخلوق کے درمیان واحد

واسطہ اور وسیلہ ہونے کا اعلان ہے۔ شارع کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے اصول و کلیات کی حجتِ قطعی “محمد رسول اللہ” ہیں۔

اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے علامہ خادم حسین اپنے نام کے ساتھ رضوی لکھتے تھے …”ر” پر زبر کے ساتھ۔ مختلف مسالک دراصل مختلف مکاتبِ فکر ہیں۔ یہ دین کو سمجھنے کے مختلف شعوری درجے ہیں۔ مکاتبِ فکر میں اختلاف اگر افتراق میں تبدیل نہ ہو جائے تو یہ فکری اختلاف درحقیقت باعث ِ رحمت ہے، وگرنہ سراسر زحمت! اختلاف برداشت کے ساتھ رحمت ہوتا ہے، عدم برداشت اسے زحمت میں بدل دیتی ہے۔ اختلافِ فکر ایک فطری عمل ہے اور فکر کی نمو کے لیے ضروری بھی ہے۔ فکری اختلاف ایک فطری اختلاف ہے۔ فکری اختلاف فہم کے نئے زاویے کھولتی ہے۔ درحقیقت نزولی حقیقت جب صعودی عقول کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لامحالہ اس میں اختلاف پیدا ہوتا ہے، اس سے نمٹنے کا ایک طریق تو یہ ہے کہ نکتہ نزول کی طرف رجوع کیا جائے۔ باطن کی حقیقت سمجھنے کا بہترین، سبک اور خطا سے پاک راستہ باطن ہی ہوتا ہے۔ ظاہر میں موجود آلاتِ سمع و بصر سے باطن سمجھنے کی کوشش بس ایک فکری کوشش ہے اور فکری کوشش ایک بشری عمل ہے، اور بشرکسی حال میں خطا کے خطرسے پاک نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف اور صرف معصومیت و عصمت کا جہان ہے ‘جہاں فطرت کا انعکاس بلاکم و کاست ہوگا۔

تمہید ہمیشہ طولانی کر دیتا ہوں، آج کا کالم دراصل ایک حاضری ہے، قلمی حاضری۔ ایک مردِ درویش اور سچے عاشقِ رسولؐ کی نمازِ جنازہ میں حاضر نہ ہو سکا، بوجوہ ناسازی طبع… اس لیے ضروری سمجھا کہ اپنی قلمی حاضری لگوا لی جائے تاکہ عاقبت کے لیے زادِ راہ ہو۔ اگرچہ تعداد صداقت کا معیار نہیں لیکن کلمہ گو اگر ایک بڑی تعداد میں نکل کر کسی کلمہ گو کے حق میں کلمہ خیر کہہ دیں، تو یہ زبانِ خلق نہیں بلکہ نقارہ خدا ہے۔ خادم حسین رضویؒ کے اندازِ تکلم اور طریقہ کار سے لاکھ اختلاف ہو لیکن ان کے جنازے میں لاکھوں کی تعداد میں خلقِ خدا کا اُمڈ آنا ایک سندِ قبولیت ہے۔ سنا ہے‘ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ دیکھا گیا ہے۔ انداز سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اُن کی کاز اِس کاز سے کمٹ منٹ سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اس شخص نے ناموسِ رسالتؐ پر اس وقت پہرہ دیا جب لوگ شش و پنچ میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں‘ وہ شدت پسند تھے ، وہ شدت پسند صرف محبت میں تھے۔ محبت میں شدت کا نام عشق ہے اورعشقِ نبیؐ ہی دین کا معیار ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک نعتیہ شعر ہے

دین کیا ہے عشقِ احمدؐ کے سوا

دین کا بس اک یہی معیار ہے

خادم حسین رضویؒ اس معیار پر پورے اترے۔ عشقِ رسولؐ کا تقاضا حرمتِ رسولؐ اور ختمِ نبوتؐ پر غیر متزلزل ایمان اور غیر مشروط پہرہ دینا ہے، اور یہ فقیر تمام عمر اس مشن پر ڈٹا رہا۔

ملامت کی گلی سے گزرنا اخلاص کا امتحان ہوتا ہے۔ علامہ خادم حسین رضویؒ اخلاص کے اس امتحان پر بھی پورے اترے۔ ایک اعلیٰ پائے کے عالمِ دین ، عربی گرامر اور علم الحدیث کے بہترین ماہر اس شخص نے محض ایک عالمِ دین ہونے کا پروٹوکول بھی کبھی وصول نہ کیا۔ انداز عوامی تھا‘ اس لیے عوام الناس اُن کے علمی قد کاٹھ سے آگاہ نہ ہو سکے۔ میری نظر میں وہ ایک ملامتی فقیر تھا، جس کا بھید اُس کے جانے کے بعد کھلا۔ صاحبِ کشف المحجوب حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ حضرت ذوالنون مصریؒ کی بابت لکھتے ہیں کہ اہلِ مصر آپ ؒکے حال اور جمال سے بے خبر تھے، جس رات آپؒ کا وصال ہوا اسی رات شہر میں ستر اولیا نے خواب میں سرکارِ دوعالمؐ کی زیارت کی۔ عوام الناس کو جناب ذوالنون مصریؒ کی قدر ومنزلت سے آگاہ کرنے کے لیے حق تعالیٰ نے پرندوں کا ایک جھنڈ بھیج دیاجوآپؒ کے جنازے پر، پر سے پر ملا کر سایہ کر رہے تھے۔ اگر بادلوں کا سایہ ہوتا تو لوگ اسے قدرتی واقعہ سمجھ لیتے۔

اس عاشقِ رسولؐ نے صرف محبت کا دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ اس دعوے کو ثابت بھی کر کے دکھا دیا۔ لاکھوں مریدین و معتقدین کی موجودگی میں ڈیڑھ مرلے کے گھر میں قیام کرنے والا اور سوکھی روٹی پر اچار کی پھانک رکھ کر کھانے والا یہ درویش عشق و محبت کا ایک نیا معیار قائم کر گیا۔ اس وقت میں اُن کے اندازِ تکلم پر کلام نہیں کروں گا، ہمارے بابا جی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ جب کسی کو قبول کر لیا جاتا ہے تو اس کو تمام

Leave a Reply