Khuda Ko iya Jawab DO Gay

خدا کو کیا جواب دو گے۔۔؟

کہتے ہیں ایک چرسی کسی بابے کے مزار پر گیا۔ چادر چڑھانے اور مزار پر حاضری لگاتے ہوئے دعا مانگنے لگا۔۔ کہ بابا جی چادرچڑھانے کے بعد اب میرا پرائز بانڈ نکلناچاہئے۔ جیسے ہی وہ دعا مانگ کر مزار سے باہر آیا تو کسی نے جیب سے اس کا پرائز بانڈ نکال لیا۔ چرسی نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے جب پرائز پانڈ نہ پایا تو وہیں سے الٹے پاؤں مزار پر گیا اور کہنے لگا۔۔ بابا جی پہلے پوری گل سمجھ لیا کرو تے پھیر ایکشن لیا کرو۔۔ یہی کچھ آج ہمارے ساتھ یہ ہمارے والے بابا جی بھی کر رہے ہیں۔۔ گل سمجھنے سے پہلے ایسا ایکشن لیتے ہیں کہ پھر ہماری جیبوں میں کچھ نہیں بچتا۔۔ آٹا۔۔ چینی۔۔ پٹرول اور ادویات کے بحرانوں پر تاریخی ایکشن تو سب کو یاد ہے کہ باباجی کی طرف سے ایکشن لینے کے بعد آٹا۔۔ چینی ۔۔ پٹرول اور ادویات کے سلسلے میں پھر اس ملک اور عوام کے ساتھ کیا ہوا۔۔؟ آٹے کا تھیلا چھ سو سے پندرہ سو اور چینی کی فی کلو قیمت کا 55 روپے سے 110 روپے تک پہنچنا بابا جی کے اسی ایکشن لینے کا نتیجہ ہی تو تھا۔۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں ۔۔ نااہلی اور کمزور انتظامی گرفت کی وجہ سے ملک میں نا صرف چینی کا بحران پیدا ہوا بلکہ چینی کی فی کلو قیمت بھی 55 سے 110روپے تک پہنچی۔۔ 55 سے 110 روپے تک کے سفر میں عوام کو راتوں رات کتنا چونا لگایا گیا۔۔؟ عوام دشمنوں نے محض چند مہینوں میں کتنے کروڑ اور کتنے ارب کمائے۔۔؟ اس حقیقت سے پوری قوم اچھی طرح واقف ہے۔۔ اسی طرح آٹا اور ادویات کی قیمتوں میں من مانے اضافوں کے ذریعے بھی روایتی چوروں۔۔ لٹیروں اور ڈاکوئوں نے قوم کو کنگال کر کے چھوڑا۔۔ لیکن آپ وزیراعظم صاحب کی سادگی اور نادانی کو دیکھیں۔۔ بجائے آٹا۔۔ چینی اور پٹرول بحرانوں کے ذریعے عوام کا خون چوسنے والے لٹیروں کو نشان عبرت بنانے کے وہ مافیا کے ان کارندوں کو چینی کی فی کلو قیمت 55 سے 110روپے تک پہنچانے پر ایسے مبارکباد دے رہے ہیں کہ جیسے ان نکمے۔۔ نااہل اور نالائق وزیروں اور مشیروں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو۔۔ کارنامہ تو انہوں نے واقعی سرانجام دیا۔۔ کیونکہ اتنے قلیل عرصے میں مافیا کی تجوریاں بھرنا کوئی آسان کام تو نہیں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ یہ وہ کارنامہ نہیں جس کے لئے وزیراعظم صاحب اور ان کی پارٹی نے اس ملک کے غریب عوام سے ووٹ لئے تھے۔۔ تحریک انصاف نے عوام سے ووٹ چوروں۔۔ ڈاکوئوں اور لٹیروں کے کارناموں و سیاہ




کرتوتوں پر مبارک بادیں دینے کے لئے نہیں لئے تھے بلکہ انہیں توعوام نے ووٹ چوروں۔۔ ڈاکوئوں اور لٹیروں کو نشان عبرت بنانے کے لئے دیئے تھے۔۔55 روپے کلو بکنے والی چینی اگر اسی نوے روپے مارکیٹ میں بکنے لگی ہے تو اس میں مبارکباد دینے کی کیا بات ہے۔۔؟ وزیراعظم صاحب اپنی ٹیم کو مبارکباد تب دیتے اگر 55روپے کی یہ چینی پچاس روپے پر اس ملک میں فروخت ہوتی۔۔ قوم کے دشمنوں نے چینی کی فی کلو قیمت میں پچاس پچپن روپے اضافے کے ذریعے عوام کو جتنا لوٹنا تھا وہ انہوں نے لوٹ لیا۔۔ انہوں نے جو تجوریاں بھرنا تھیں وہ بھر لیں۔۔ اب اگر وہ پچاس پچپن روپے کی چینی اسی سے نوے میں بیچے تب بھی ان کا کونسا نقصان ہے۔۔؟ یہی حال آٹا۔۔ گھی۔۔ دال ۔۔ سبزی۔۔ پٹرول۔۔ گیس اور بجلی سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کا بھی ہے۔۔ مافیا اور ان کے کارندے اس ملک میں کل بھی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے تھے اور ہاتھی جیسے منہ کھول کر ان کا خون چوستے تھے اور یہ آج بھی یہی سب کچھ کر رہے ہیں مگر افسوس وزیراعظم سے ایک وزیر اور مشیر تک کسی کو اس کی کوئی پروا نہیں۔۔ بلکہ یہ الٹا عوام کے خون چوسنے کی مقدار ذرہ کم ہونے یا کم کرنے پر مافیا اور ان کے کارندوں کو مبارکبادیں دینا شروع کر دیتے ہیں۔۔ ایک وقت کی روٹی کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے والے غریبوں کا خون چوسنے اور نچوڑنے والوں کو مہذب معاشروں میں ہار نہیں پہنائے جاتے نہ ہی ایسے قوم دشمنوں اوردولت کے پجاریوں کو مبارکبادیں دی جاتی ہیں ۔۔ ایسوں کو چوکوں اور چوراہوں میں الٹا لٹکا کر ان کا گوشت پھر کتوں کے آگے پھینکا جاتا ہے۔۔ یوں تو حد سے تجاوز اور حدود کراس کرنے والا ہر شخص قابل گرفت اور ڈنڈے کا مستحق و لائق ہے لیکن غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننے والا کوئی بھی بدبخت اس ڈنڈے کا پھر سب سے زیادہ مستحق اور حقدار ہوتا ہے۔۔ یہ ڈنڈا تو بنا ہی ایسے قوم دشمنوں کے لئے ہے تاکہ کوئی بدمعاش اور بدقماش کسی غریب سے روٹی کا نوالہ چھیننے کی جرأت بھی نہ کر سکے۔۔ اس بھولی بھالی قوم نے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے بہت سی توقعات اور امیدیں وابستہ کی تھیں لیکن محض دو ڈھائی سال میں محترم وزیراعظم صاحب اور ان کی حکومت نے چوروں۔۔ ڈاکوئوں اور لٹیروں کی پشت اور دم پر ہاتھ پھیر کر جس طرح غریبوں کو غریب سے غریب تر کر دیا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔۔ مہنگائی۔۔ غربت۔۔ بیروزگاری اور لوٹ مار کا بازار تو نوازشریف اور آصف زرداری جنہیں وزیراعظم سمیت پوری کابینہ اور وزیر مشیر دن رات چور و ڈاکو کہتے ہوئے نہیں تھکتے۔ ان کے ادوار اور اقتدار میں بھی اس قدر گرم کبھی نہیں تھا جتنا آج ہے۔۔ غریبوں کو مدھم سہی۔۔ پر یہ امید ضرور تھی کہ وہ عمران خان کی حکومت میں سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ لیکن اس ملک میں تو جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے غریبوں نے سانس لینا بھی چھوڑ دیا ہے۔۔ کپتان کی اس تاریخی حکمرانی میں غریبوں کے حالات تو نہیں بدلے مگر چوروں۔۔ ڈاکوئوں اور لٹیروں کے شب و روز ضرور بدل گئے ہیں۔۔ جو چور اور ڈاکو کل تک غریبوں کی جیب سے سو مارتے تھے وہ آج ہزار بٹور رہے ہیں اور جو ہزار ہڑپ کر رہے تھے وہ دس ہزار کا چونا لگانے کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں۔۔ ملک میں ہر طرف لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہے۔۔ آٹا اور چینی سے لیکر ماچس کی چھوٹی سی ڈبی اور ایک سوئی تک کسی چیز کی اپنی مخصوص کوئی قیمت نہیں۔۔ جو بندہ کسی مجبور۔۔ حقیر۔۔ فقیر اور غریب کو جتنا بڑا اور خطرناک ٹیکہ لگا سکتا ہے اسے کھلی چھوٹ ہے۔۔ عمران خان کی اس عوامی حکومت نے ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ غریبوں کو ستر سال سے لوٹنے والا ہر شخص آج اپنی ذات میں چور۔۔ ڈاکو اور لٹیرا سب کچھ بنا پھر رہا ہے مگر اسے روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں۔۔ مافیا کو کپتان نے خودکھلی چھوٹ دے کر غریب عوام کے ناتواں کندھوں پر سوار کر دیا ہے اب صرف دنیا کو دکھانے اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے مافیا مافیا کی گردان کر کے مگرمچھ کے آنسو بہائے جا رہے ہیں۔۔ مافیا اگر ملک اور قوم کو لوٹ رہی ہے تو پھر آپ اور آپ کی یہ تاریخی حکومت کس مرض کی دوا ہیں۔۔؟ جہاں مافیا کے ہاتھوں غریبوں کی کمائی لٹ جائے۔۔ جہاں مافیا کے کارندے غریبوں اور فقیروں کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھیننے سے گریز نہ کریں وہاں کے حکمرانوں کو پھر گلے میں ہار نہیں ہاتھوں میں چوڑیاں پہنانی چاہئیں۔۔ اس ملک کے عوام نے مافیا کو نہیں وزیراعظم عمران خان کو ووٹ دے کر اسے اپنا حکمران بنایا تھا۔۔ عوام کا حکمران مافیا نہیں عمران خان ہیں۔۔ مہنگائی ہو۔۔ غربت ہو۔۔ بیروزگاری ہو یا بھوک و افلاس۔۔ اس ملک میں پھر بھی غریبوں کے یہ شب و روز کسی نہ کسی طرح آخر گزر ہی جائیں گے۔۔ لیکن۔۔ وزیراعظم عمران خان کو ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ قیامت کے دن ان غریبوں کی اس حالت کے بارے میں کسی مافیا شافیا سے نہیں بلکہ اسی ایماندار کپتان سے پوچھ ہو گی۔۔ ہمارے یہ کپتان ذرہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں۔۔ یہ خدا کو اس دن پھر کیا جواب دیں گے۔۔؟

Leave a Reply