Barat Aur Shab e Barat

!!برأۃ… اور شبِ ِ برأت

گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا پرودگارِ عالم کی اُن نعمتوں کا‘ جن کی بے قدری کے ہم اِس قدر فراخ دلی سے مرتکب ہوتے ہیں کہ بس‘ خدا کی پناہ!! قرآن کریم میں کریم رب کا ارشاد ہے کہ اللہ کی نعمتیں اِس قدر ہیں کہ اگر تم اِن کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے… اور یہ کہ ِان نعمتوں کی بابت سوال کیا جائے گا… اور یہ کہ اگر تم شکر کرو گے تو مزید عطا کریں گے اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو عذاب کو شدید پاؤ گے۔ غور طلب بات ہے کہ کفرانِ نعمت کے لیے بھی کفر ہی کا لفظ لایا گیا ہے اور اِس کفر کی پاداش میں عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ بے شک اہلِ فکر کے لیے ان تمام مذکورہ آیات میں نشانیاں ہیں۔ مرشدی واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ عاقبت اس وقت کو کہتے ہیں‘ جب محسن اپنی نوازشات کا حساب مانگ لے۔




جن نعمتوں کی بے قدری کے ہم لگاتار مرتکب ہوتے ہیں اور ہر سال ہوتے ہیں ‘اُن نعمتوں میں چندمقدس ایام بھی شامل ہیں۔ ایام ہوں یا مقامات‘ اپنی نسبتوں سے فضیلت کے حامل ہوتے ہیں۔ نسبتیں شخصیات کی نسبت سے طے پاتی ہیں۔ خانہ کعبہ میں نصب حجر ِ اسود‘ حضرت آدمؑ کی نسبت سے، صفا ومروہ‘ حضرت ہاجرہ ؑکی نسبت سے اور زم زم جنابِ اسمٰعیل ؑ کی نسبت سے شعائر کہلائے۔ غور طلب بات ہے‘ دعائے خلیل ؑ اور مدعائے پیغمبرانِ جلیل ‘رسولِ محترمؐ کی نسبت سے کیا کیا ایام اور مقامات محترم نہ ہوئے ہوں گے، اور شعائر کے درجۂ احترام میں داخل نہ ہوئے ہوں گے۔ رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے۔ اِسی مہینے کے نصف میں ایک شب ہے جسے لیلۃ المبارکہ (مبارک رات)، لیلۃ الصّک(دستاویز والی رات)، لیلۃ البرأۃ (بری کر دینے والی رات) اور لیلۃ الرحمۃ ( رحمت والی رات) کہا گیا ہے۔ ہمارے ہاں مستعمل ’’شب ِ براۃ‘‘ دراصل احادیث میں مروی’’عنقاء من النار‘‘( نارِ جہنم سے گردنوں کی آزادی) کا عوام الناس میں رائج لفظی ترجمہ ہے۔ اب گرامرکی گردانوں میں گرفتار کچھ لوگ بضد ہیں کہ وہ اِس شب اپنی گردنوں کو نہیں چھڑانے کے ، بلکہ یہ بحث چھیڑیں گے کہ ’’شب‘‘ فارسی کا لفظ ہے اور’’براۃ‘‘ عربی کا… اس لیے یہ ترکیب عجمی ہے اور خود ساختہ ہے۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کسی بھی خدا ساختہ چیز کو خود ساختہ خیال کرنے سے۔ فارس اور فارسی سے الرجک اذہان و قلوب کے نزدیک ہر وہ چیز جس پر فارسی لفظ کا سایہ یا شائبہ پڑ جائے وہ مشتبہ ہوجاتی ہے اور قرین ِ شرک و بدعت ٹھہرتی ہے۔ اب کیا کریں؟ ہمارے وطن کا قومی ترانہ بھی فارسی میں لکھا گیا ہے، اقبالؒ کا اصل تعارف فارسی کلام ہے، رومیؒ کی مثنوی سے لے کر سعدی شیرازیؒ کی گلستان وبوستان‘ سب کا سب فارسی… اُردو سے فارسی نکال دیں تو اسے ہندی سماچاربنا لیں۔’’خدا‘‘ کے لفظ میں بھی شرک محسوس کرنے والے احتیاط پسند معلوم نہیں’’سایہ خدائے ذوالجلال‘‘ کس کڑوے گھونٹ کے ساتھ پڑھتے ہوں گے۔ ہاں! بعضوں کے نزدیک تو وطن کے پرچم کو سلامی اور قومی ترا نے کا احترام بھی فروعاتِ بدعات و شرک میں سے ہیں‘ بھلے اِس وطن کا قیام و دوام ہی کلمہ توحید پر ہو۔ مجھ غریب کو حیرت ہوتی ہے‘کلمے ایسی نعمت ِ عظمیٰ کی اِس قدر بے قدری اور ناشکری گزاری … ہم کس قدر تنگ دل ہے اپنے تصورِ توحید سے غیر متفق لوگوں کو فراخ دلی سے خارج از دین ِ توحیدکر دیتے ہیں۔ اب کیا کریں؟ برصغیر میں پیغامِ توحید کے مبلغین جزیرۃالعرب سے افغانستان کے راستے یہاں پہنچے ‘ یا پھر ایران کے راستے سے آئے…اس زمانے میں زمینی راستہ یہی تھا، ڈائیریکٹ فضائی سروس تھی ہی نہیں!!

واپس اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ نصف شعبان کی شبِ مذکورہ کو لیلۃ الصّک ( دستاویز والی رات) بھی کہتے ہیں،وجۂ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ متعد د اَحادیث کے مطابق انسان سے متعلق ہر چیز کا فیصلہ اُس رات لکھ دیا جاتا ہے اور یہ دستاویز اگلے برس تک عمل درآمد کے لیے فرشتوں کے حوالے کردی جاتی ہے۔ گویا آسمانی فیصلوں کے باب میں اسے عام فہم الفاظ آڈٹ اینڈ ایئرلی پلاننگ yearly planning کی طرز کی سرگرمی سمجھا جائے۔ اسی شب جنت البقیع میں سرکارِ دوعالمؐ کا تشریف لے جانا اور وہاں اِس دنیا سے چلے جانے والوں کے لیے استغفار اور دعائیں کرنا بھی تواتر سے منقول ہے۔ شب نصف شعبان (شب براۃ) خصوصی نوافل اور عبادات کی تعلیم فرمائی گئی، بہت سی مسنون دعائیں اس شب کی نسبت سے روایت کی گئی ہیں۔ ایک دُعا دِل کو بہت بھلی لگتی ہے‘ ذرا اِس دُعا کے الفاظ پر غور کریں اور لطف لیں:’’یا سریع

الرضا اغفر لمن لا یملک الا الدعا‘‘… اے جلد راضی ہو جانے والے! اُسے معاف کر دے‘ جس کے پاس سوائے دعا کے اور کچھ نہیں۔ کیا خوب دعا تعلیم فرمائی گئی۔ یہ الفاظ سراسر الہامی ہیں۔ یہ دعا وہی ہستی تعلیم کر سکتی ہے‘ جو معاف کر دینے والے رب کے مزاج سے آشنا ہے، جس کی شفاعت قبول کی جائے گی اور جس کے ہاتھ میں روزِ حشر لوائے حمد ہو گا، اُسی ہستی کو معلوم ہے کہ شفاعت کا اِذن کب ملنا ہے اور کب اُس نے اپنے اُمّتیوں کے لیے شفاعت کے لیے سر بسجود ہونااور دعائے شفاعت قبول ہونے کے بعد اس نے کب سر سجدہ سے اُٹھانا ہے… کروڑوں دُرود و سلام ‘اُس شفیع المذنبین ذات پر اور سجدۂ نیاز ‘اُس بے نیاز ذات پر جو علیم بالذات الصدور بھی ہے اور ستار العیوب بھی… جو اپنے بندوں کا عذر قبول کرنے میں جلدی کرتا ہے… اور بار بار کرتا ہے!!

اس طرح ایک اور مسنون دعا ہے۔ یوں تو سب مسنون دعائیں مبارک اور مقبول ہیں‘باطنی تطہیر کے حوالے سے یہ دعا لاجواب ہے۔ مسنون دعاؤں کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مسنون الفاظ میں دعا مانگنے سے سنت پر عمل کرنا ‘ اَز خود ایک کارِ ثواب ہے۔ مزید یہ کہ انسانی شعور کیلئے اس مضمون کی دعا کے لیے اِن سے بہتر الفاظ کا انتخاب ممکن ہی نہیں ہوتا۔ دعا ہے ’’اللھم الرزقنی قلباً تقیاً من الشرِّ نقیاً ولا جافاً ولا شقیاً‘‘… اے اللہ! مجھے ایسے قلب کا رزق عطا فرما جو پاک ہو اور ہر شر سے صاف ہو، اور جفا کرنے والا نہ ہو اور نہ ہی شقی ہو۔ سبحان اللہ! کس قدر خوب صورت دُعا ہے۔ جسے ایسا دل عطا ہو جائے اُس کی زندگی اور مابعد کی خوبصورتی کے بارے میں کیا کہنا۔ سبحان اللہ العظیم!! کس قدر بلیغ دعا ہے۔ میری دانست میں ہمیں یہ دُعا زبانی یاد کر لینی چاہیے اور ایسا دِل پانے کے لیے دِل سے یہی دعا کرنی چاہیے۔

خدائے وحدہ‘ لاشریک کی لاشمار نعمتوں کی ناقدرشناس قوم بجائے شب براۃ میں دیے گئے موقع سے فائدہ اُٹھانے کے اور سجدۂ شکر بجا لانے کے‘ اِن ایام و تواریخ کو مشتبہ اور متنازعہ بنانے میں سرگرمِ’’عمل‘‘ ہے۔ عبادات و مناجات کے حوالے سے کسی بھی شب کی فضیلت کے اقرار اور انکار کے درمیان معلق کم فہم‘ اِس شب وہ مغفرت کیسے طلب کر سکیں گے جو بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ (یعنی اَن گنت) تقسیم ہو رہی ہے۔ دوسری طرف یار لوگ اِس شب کے آغاز ہی میں موم بتیاں جلا کر اورپٹاخے چلا کر ایک دوسرے کو واٹس ایپی مبارک بادیں ارسال کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ مبارکباد کا مستحق تو وہ ہوگا جس کی عبادت و ندامت اِس شب قبول ہو گئی۔ ہم عبادت نہیں کر سکے، چلیں‘ اِس پر ندامت کے آنسو ہی بہا کر دیکھ لیں!!ہو سکتا ہے ‘ اسی سے عقدۂ سعادت کھل جائے!!
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ جس نے یہ پانچ راتیں زندہ کر لیں ( یعنی عبادت کے لیے اِن راتوںکو وقف کر لیا) اُس کے لیے جنت واجب ہو گئی، اِن راتوں میں لیلۃ الترویہ ( آٹھ، نو اور دس ذی الحج کی راتیں) ، شب عید الفطر اور نصف شعبان کی شب شامل ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے خدائے روؤف الرحیم و تواب الرحیم نے اپنے بندوں کی مغفرت اور بخشش کے لیے کچھ بونس اسکیمیں شروع کر رکھی ہیں، کبھی ذوالحجۃ ، محرم الحرام ، کبھی ماہِ رجب، کبھی نصف شعبان اور پھر… بھر پور رمضان!! الغرض آواز دینے والا آواز دے رہا ہے… ہے کوئی مغفرت کا طالب ‘ جسے بخش دیا جائے۔ ہم اِدھر اپنی زمین ِ وجود پر اِک سجدہ کریں …سجدۂ سہو ہی سہی‘ اُدھر آسمانِ خیال سے صدا آئے گی

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل نہیں ہے

Leave a Reply