Tashweesh Ka Fashion

تشویش کا فیشن

کیا بنے گا؟ کیا ہوگا؟ اس کا کیا فیوچر ہے ؟ فیچر اسکوپ کیاہوگا؟ اس قبیل کے جملہ جملے ایک بے جا تشویش اور انجانے خوف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بے جا تشویش ایک فیشن کی طرح شہرت پا گیاہے۔ ہم اپنی نوجوان نسل کواس کے حال پراعتماد دینے کے بجائے اسے مستقبل کے ایک انجانے خوف میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ہم تعلیم کے نام پراپنے بچوں کو تربیت سے محروم کر رہے ہیں۔ کائونسلنگ اور موٹیویشن کے عنوان سے ہم انہیں حال سے بیگانہ کیے جاتے ہیں، اور مستقبل کا ایک اَن دیکھا خوف اُن کے ذہنوں میں مسلط کیے جاتے ہیں۔ بچوں کو اُن کے گریڈ کم ہونے کے خوف میں مبتلا کر دیا گیا ہے… تعلیم ذہنوں کو آسودگی دینے کے بجائے فرسٹریشن دے رہی ہے۔ اسکول اکیڈمی کالج سب خوف کا خوف چورن بیچ رہے ہیں۔ بس نمبر گیم ہی گویا کامیابی کا معیار ٹھہرا ہے۔ بچوں کے ذہنوں خوف انڈیلا جا رہا ہے… اگر نمبر کم آئے‘ تو کیا ہوگا؟ کیا بنے گا؟ فیوچر ڈارک ہو جائے گا ؟ تمہارا کیا بنے گا؟؟ ایک اَن دیکھے سنہری مستقبل کی خاطر ہم اپنی دیکھے بھالے حال کی روپہلی کرنوں سے خود کو محروم کرلیتے ہیں۔ یاد رہے کہ مسرت کا سرچشمہ حال کی سرزمین میں پھوٹتا ہے۔ مستقبل کے اُفق پر نظر آنے والی قوسِ قزح صرف دیکھنے میں بھلی ہوتی ہے، یہ ہمارے ساتھ ہمارے گھر نہیں جائے گی۔ وقت کی دھوپ جب کڑی ہو گی‘ تو یہ ہوا ہو جائے گی۔ اسی طرح ’پدرم سلطان بود‘ کا راگ الاپتے ہوئے ہم اپنے ماضی میں کھوئے رہتے ہیں۔ ہمارے اسلاف کے کارہائے نمایاں ‘ اْن کا حال تھا… جبکہ ہمارا ماضی ہے۔ ماضی سبق اخذ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ تاریخ لکھنے اور پھر پڑھنے میں ایک گمبھیر معاملہ یہ درپیش ہوا کرتا ہے کہ کوئی تاریخ مکمل تاریخ نہیں ہوتی۔ واقعات کی ترتیب کو ہر مؤرخ اپنے اندازِ فکر سے لکھتا ہے اور یہ ترتیب ِ زمانی ہی سبب اور نتیجے کا نصاب مرتب کر دیتی ہے… ممکن ہے‘ ہمارے اسلاف کا نصابِ زیست کچھ اور ہو، ممکن ہے‘ ہمارے ہیرو کی ترجیحات مختلف ہوں، وہ سبب اور نتیجے کی سائنس سے ہٹ کر کام کر رہا ہو۔ساتھیو! سپاہیو! حال میں رہنا سیکھو! حال درست ہو گیا تو مستقبل اَزخود درست ہو جائے گا۔اسی حال نے مستقبل بننا ہے۔ ہمارے ماضی کے سپہ سالاروں نے جو معرکے بھی سر کیے تھے ‘ وہ ان کے اپنے حال کے زمانے کے معرکے تھے۔ ماضی سے روشنی لیتے ہیں‘ لیکن چلتے حال میں ہیں… پھونک پھونک کر۔ ماضی میں واقعات نہیں بلکہ کردار دیکھتے ہیں۔ کردار نہیں مرتے ، کردار کی خوشبو کسی زمانے میں قید نہیں رہ سکتی، وہ ہر حال میں سرایت کر جاتی ہے۔ اسی خوشبو کو شاملِ حال کرنا ہے۔ ماضی سے ہمت لیتے ہیں، حال میں کام کرتے ہیں‘ استقامت و پامردی … اور مستقبل میں باوقار انداز سے قدم رکھتے ہیں۔




م

Leave a Reply