Corona Say Bachao Magar Kesy?

کروناسے بچائو مگر کیسے…؟

احتیاط، عقل، شعور، احساس اور دوسروں کا دکھ ودردیہ اچھی خصلتیں اوراعلیٰ نعمتیں ہیں لیکن معذرت کے ساتھ ہمارے جیسے ایک دونہیں ہزاروں اورلاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اورشریف انسان آج بھی ان خصلتوں سے مکمل عاری اورنعمتوں سے یکسرمحروم یاپھردوربہت دورہیں۔کہنے کوتوہم اپنے ماتھے اورپیشانی پر،،مہذب شہری،، کا بورڈ یا نمبرپلیٹ سجائے پھررہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم سے زیادہ بدتہذیب اوربدتمیزشہری اس روئے زمین پرشائد کوئی اور نہ ہوں۔ماناکہ احتیاط،عقل،شعوراوراحساس کے موضوع پرگھنٹوں گھنٹوں تک لیکچرہم دیتے ہیں۔ماناکہ مہذب اورذمہ دارشہری کے بارے میں گلی محلوں ،چوکوں اورچوراہوں پرآگاہی مہم بھی ہم چلاتے ہیں ۔ماناکہ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں،کوتاہیوں اورلاپرواہیوں کو منٹوں نہیں سیکنڈوں میں نوٹ بھی ہم کرتے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہمیں مانناپڑے گاکہ پھراسی احتیاط،عقل،شعوراوراحساس کی رلتی،تڑپتی،چیختی اورچلاتی میتوں کوغسل بھی ہم ہی دے رہے ہوتے ہیں۔یہ بھی ہمیں مانناپڑے گاکہ جس مہذب اورذمہ دارشہری کے بارے میں ہم گلی محلوں ،چوکوں اورچوراہوں پرآگاہی مہم چلاتے ہیں پھرانہی گلوں محلوں اورچوکوں وچوراہوں پرتمام تراخلاقیات اورقوانین کوپائوں تلے روندکرمہذب اورذمہ دارشہری کے منہ پرکالک بھی ہم خودملتے ہیں۔یہ بھی ہمیں تسلیم کرناہوگاکہ جن آنکھوں،دل ودماغ سے ہم دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں، کوتاہیوں اورلاپرواہیوں کونوٹ کرتے ہیں پھر اپنا نمبراوروقت آنے پرانہی آنکھوں،دل ودماغ سے ہمیں اپنی بڑی بڑی غلطیاں، ناقابل معافی کوتاہیاں اورلاپرواہیاں بھی نظرنہیں آتیں۔ کسی نے ہماری شرافت،شعور،تہذیب اوراحساس کودیکھناہوتووہ ہماری پائوں تلے روندے جانے والے ٹریفک کے ٹوٹے سگنلز، بینک،سٹور،سکول ،کالجزاورہسپتالوں میں بکھرنے والی نمبرزکی لائنیں اوربرداشت کے مواقع پرریزہ ریزہ ہونے والے صبرکے پیمانے کودیکھ لیں۔چھاننی اٹھ کے کوزے کوکہے آپ میں دوسوراخ ہے کے مصداق تن،من اودھن ہمارا دھندلا دھندلا ہو گا لیکن داغ، دھبے، کیچڑ اور سوراخ ہمیں دوسروں کے دامن میں نظر آئیں گے۔ہم تووہ بدقسمت اورڈھیٹ قسم کے لوگ ہیں کی جنہیں جس کام سے منع کردویہ اسی کام کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔یقین نہ آئے توآزماکردیکھ لیں۔ بورڈ، دیوار یا دروازے پر بڑے بڑے اور موٹے موٹے الفاظ میں لکھا ہو گا، آگے جانامنع ہے، یہ بورڈپروہ الفاظ آرام وسکون کے ساتھ پڑھنے کے بعدآگے جانے، بڑھنے اورجھانکنے کی کوشش ضرورکریں گے کہ دیکھیں آگے کیاہے۔آپ ویسے کسی پتھرپرلکھیں ،،ہاتھ لگانامنع ہے،،پھردیکھیں اس پتھرکوہاتھ لگانے یاچھونے والوں کی کتنی قطاریں لگتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کروناکی دولہروں سے ہم احتیاط، شعور، احساس اورذمہ دارشہری بننے کی وجہ سے باحفاظت نکل گئے لیکن حقیقت میںایساباالکل بھی نہیں۔ کیونکہ کروناکی پہلی دولہروں کے دوران جس طرح کی احتیاط، شعور،احساس اورذمہ داری کامظاہرہ ہم نے کیاوہ پوری دنیاکے سامنے ہے۔کروناکی پہلی لہرکے دوران جب لوگ صرف منہ نہیں بلکہ پورے پورے جسم چھپا کر کرونا سے بچائوکی تدبیریں اختیارکررہے تھے ہم اس وقت بھی منہ کھولے گلی، محلوں، بازاروں، مارکیٹوں، چوکوں اورچوراہوں پرکروناکامذاق اڑا رہے تھے۔پچھلے سال عیدخریداری اورپھرچاندرات کوہم نے بازاروں اورشاپنگ سنٹروں میں کرونا کا جو حشر نشر کیا۔ واللہ اس منظرکویادکرکے آج بھی خوف ساآنے لگتاہے۔کروناسے بچائوکیلئے کسی قدم اٹھانے کاتوہمیں نہیں پتہ البتہ کروناکوبارباردعوت دینے اورلانے کے لئے جتنی محنت اورکوششیں ہم نے کیں اللہ کااگرکوئی خاص فضل اورکرم نہ ہوتاتوواللہ اس کروناسے ہمیں کوئی نہ بچاپاتا۔ یہ تواللہ کاکوئی خاص رحم اورکرم تھاکہ اپنی طرف سے ہر حد عبور، لکیرکراس اوراحساس وذمہ داری کاجنازہ نکالنے کے بعدبھی اس رحیم وکریم رب نے پھربھی ہمیں اس آفت،مصیبت اورآزمائش سے بچائے رکھا۔کروناکی پچھلی دولہروں کے دوران بھی کروناایس اوپیزپرصرف مساجداورتعلیمی اداروں میں عملدرآمدہوا۔اب حالیہ تیسری اورخطرناک لہرپربھی لگتایہی ہے کہ اب کی باربھی ایس اوپیزایس اوپیزکاڈھنڈوراصرف تعلیمی اداروں اورمساجدتک محدودرہے گا۔ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں کہ ہماری آنکھیں تب کھلتی ہیں جب پانی سرسے گزرچکاہوتاہے۔اب پوری دنیاسے کروناکی تیسری لہربہت خطرناک کی صدائیں بلندہورہی ہیں لیکن ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔چنددن پہلے ایک جنازے میں شرکت کیلئے آبائی ضلع بٹگرام کی طرف جاناہوا۔ماناکہ بٹگرام اس وقت متاثرہ شہروں کی فہرست میں شامل نہیں لیکن کروناکے نشانے پر تو ہے۔ بڑوں سے لیکربچوں تک سب کویہ علم ہے کہ کروناخطرناک بہت خطرناک ہے اس کے باوجودگاڑی کے بندشیشوں سے بٹگرام شہرکے جوحالات ہم نے دیکھے وہ افسوسناک بہت ہی افسوسناک تھے۔پورے شہرمیں ہمیں اکادکالوگ ہی ایسے نظر آئے جنہوں نے ماسک لگائے ہوئے تھے باقی اکثریت کھلے منہ جگہ جگہ گھومتی اورپھرتی نظرآئی۔یہی حالات تقریباًہمارے باقی شہروں کے بھی ہیں۔کروناکی لات جب تک کسی کونہیں پڑتی اس وقت تک کوئی ماسک کومنہ اورایس اوپیزکوہاتھ لگانامناسب نہیں سمجھتا۔اس وقت پوری دنیاکروناکی لپیٹ ،خوف اورگھبراہٹ میں ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ جنہیں اپنی ضد،بے شعوری،لاپرواہی،ہٹ دھرمی اورجاہلیت سے فرصت نہیں۔کسی نے واقعی سچ کہا۔ہم ڈنڈے کے لوگ ہیں۔ڈنڈے کھانے والے بھلاشرافت کی زبان کیاسمجھیں۔؟بحیثیت مسلمان ہم نہ پہلے کبھی اپنے رحیم وکریم رب سے ناامیدرہے اورنہ اب ہمیں اپنے غفوروشفیق رب سے ذرہ بھی کوئی ناامیدی ہے۔یہ توہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔پہلے ہمارے رب نے کروناسے ہماری حفاظت فرمائی اب کی باربھی وہی رحیم وکریم رب ہمیں اس وباء،مصیبت،آفت اورآزمائش سے بچائیں گے۔ہماراگلہ صرف ان لوگوں اورقوتوں سے ہے جنہیں مساجداورتعلیمی اداروں میں کرونا ایس اوپیزکی فکرتوہے لیکن بازاروں،مارکیٹوں،شاپنگ سنٹروں،چوکوں اور چوراہوں پرانہیں کروناایس اوپیزکے روزانہ نکلنے والے جنازے نظرنہیں آرہے۔ کرونااگرخطرناک ہے تواس کاخطرہ صرف سکول، کالجز، یونیورسٹیز اور مساجدومدارس میں نہیں بلکہ بازاروں، مارکیٹوں، شراب خانوں، مے خانوں، نائٹ کلبوں، چوکوں اورچوراہوں پربھی ہے۔ جتنی فکر مساجد، مدارس، سکول، کالجز اور یونیورسٹیزمیں کروناایس اوپیز پر عملدرآمد کا ہے۔ اتناخیال پھربازاروں،شراب خانوں،چوکوں اور چوراہوں پر کرونا ایس او پیز پر عملدرآمد کا بھی ہونا چاہئیے۔ ہمیں مساجداورمدارس میں کروناایس او پیزپرکوئی اعتراض نہیں ۔ہم توجس دین اورمذہب کے نام لیواہیں اس میں توایک جان کوفرض اورقرض دونوں پرفوقیت حاصل ہے۔جودین اسلام ایک جان بچانے کوپوری انسانیت بچانے کامتراف قرار دیتاہے اس اسلام کے نام لیوا بھلا انسانی جانوںکے بچائوکیلئے کروناایس اوپیزکی کیسے مخالفت کر سکتے ہیں۔ ہمیں انسانی جانیں پہلے بھی پیاری تھیں اورآج بھی پیاری ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ سکول، کالجز، یونیورسٹیاں ہوں یا پھر بازار، مارکیٹ، چوک اور چوراہے ۔۔ہرجگہ ان جانوں کی حفاظت ہو۔قیمتی جانوں کی حفاظت کے لئے ہمیں اپنے یہ اصول، طور طریقے اور خودساختہ قوانین تبدیل کرنے ہوں گے۔جب تک ہم کروناسے بچائو کیلئے اپنوں اوربیگانوںسب کوایک رسی سے باندھتے اور ہانکتے نہیں تب تک کروناکیخلاف ہماری ان کوششوں اورقربانیوں کاکوئی فائدہ نہیں۔کیونکہ کروناکسی ایک جگہ سے نہیں پھیلتابلکہ یہ غریب کی جھونپڑی کے ساتھ امیرکے محل اورتاج محل سے بھی پھیلتا ہے۔ اس لئے کروناایس اوپیز کا اطلاق عام وخاص، امیروغریب، رعایا و حکمران سب پریکساں ہونا چاہئیے تاکہ کروناکی تازہ لہراور وباء سے اس ملک اورقوم کابچائو ممکن ہوسکے ورنہ محض مساجداورتعلیمی اداروں کو بند کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔




Leave a Reply