Doctor baiti Kay Naam

ڈاکٹر بیٹی کے نام

گزشتہ تحریر میمونہ بیٹی کے لیے چند نصیحتوں پر مبنی تھی۔ نوجوان ڈاکٹروں میں اس کالم کو بے حدپذیرائی ملی، یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ اکثر ڈاکٹرصاحبان نے کہا کہ یہ ہمارے دل کی آواز ہے، ایک ڈاکٹر کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یقین مانیے! میں اپنی قوم کے روحانی اور اخلاقی مستقبل کے متعلق ایک مرتبہ پھر انتہائی پُراُمید ہو گیا ہوں۔ معلوم ہوا کہ ہماری نوجوان نسل میں خدمت اور ایثار کا جذبہ فراواں ہے، یہ مٹی واقعی بڑی زرخیز ہے۔ یہاں لوگ مادّیت کے چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں، اپنی زندگی دین، انسانیت اور اخلاقیات کے مسلمہ اصولوں کے مطابق بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ہر سلیم الفطرت شخص دوسروں کے لیے منفعت بخش ہونا چاہتا ہے، اپنی باطنی بیماریوں سے نجات چاہتا ہے … بس اسے مناسب ماحول اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، اس کے سامنے ایک واضح لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ نصیحت نامہ مریضوں کے حوالے سے تھا، ضرورت محسوس ہوئی کہ نوجوان ڈاکٹروں کے لیے چند سطوراپنے ماتحت عملے، ہم پیشہ کولیگ اور سینئر ز کے ساتھ کام کرنے کے بنیادی آداب کے حوالے سے بھی تحریر کر دی جائیں۔




میمونہ بیٹی! آج کے بعد تم عملی زندگی میں قدم رکھ رہی ہو۔ عملی زندگی میں تمہیں بہت سے ایسے لوگوں سے واسطہ پڑے گا جو تمہارے مزاج کے بالکل برعکس مزاج رکھتے ہوں گے۔ اپنے مزاج کے برعکس لوگوں کو ناپسند نہ کرو، بلکہ یوں سمجھو کہ یہ زندگی کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ ہے۔ اپنے ہم مزاج لوگوں کے ساتھ تو ایسے ہی جھٹ پٹ سے تمہاری دوستی ہو جائے گی‘ اِس میں تمہارا کیا کمال؟ کمال تو یہ ہے کہ جن کے ساتھ دوستی نہ ہو سکے ‘ اُن کے ساتھ ایک اچھا وقت گزارا جائے۔ اپنے ماحول میں تمہیں ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کا ہنر آنا چاہیے۔ لوگوں پر اپنی پسند تھوپنے سے پرہیز کرو، اِ س سے اِنسان دوسروں کی نظر میں ناپسندیدہ ہو جاتا ہے۔انسانی فطرت ہے کہ ہر شخص اپنی پسند کی بات سننا چاہتا ہے۔پس! لوگوں سے اُن کی پسند کی بات کرو، گاہے گاہے اُن کی پسند کو سراہا کرو، اِس چھوٹے سے عمل سے تمہارے تعلقات میں وسعت آئے گی اور تمہارا ورکنگ ماحول خوش گوار ہو جائے گا۔ یاد رکھو! عملی زندگی میں کسی سے جھگڑا نہیں کرنا۔ مجھے یاد ہے ‘ جب میں ہاؤس جاب کر رہا تھا تو انہی دنوں مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ میوہسپتال کے اے وی ایچ وارڈمیں زیرِ علاج تھے، میں پیڈز وارڈ سے اپنی ڈیوٹی ختم کرکے آپؒ کے پاس آجاتا۔ سردیوں کے دن تھے، آپؒ کی وہیل چیئر باہر دالان میں لائی گئی تھی ، ساؤتھ میڈیکل وارڈ اور البرٹ وکٹر وارڈ کے درمیان ایک چھوٹا ا لان تھا۔ میں بینچ پر آپؒ کی کرسی کے قریب بیٹھا تھا، میں نے موقع پا کر عرض کیا‘ سر! ایک مسئلہ ہے‘ جب سے جاب شروع کی ‘ میراجھگڑا ہو جاتا ہے۔ آپؒ نے ہولے سے جواب دیا ـ ‘ اچھے لوگوں کا جھگڑا نہیں ہوتا۔

یاد رکھو! یہ تمہاری کلاس نہیں ‘ یہ ہسپتال ہے، یہاں ڈاکٹروں کی گروپ بندی سے مریضوں کو نقصان پہنچے گا۔ اپنے حق کے لیے بھی جھگڑا نہ کرو۔ اگر تم نے جھگڑا کر کے ، اپنے اِرد گرد کے لوگوں کو ناراض کر کے کسی طور اپنا حق حاصل بھی کر لیا، تو کیا حاصل ؟ اپنے ہم نشینوں سے مقابلہ نہ کرو۔ اپنے بارے میں کسی کی بات ، کسی کا تبصرہ اگر ناپسند ہو تو فوراً ردّ عمل ظاہر نہ کرو، بلکہ مسکرا کر نظر انداز کر دو۔ یادرکھو! اس دنیا میں ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تمہارے بارے میں اپنی مرضی کی رائے رکھے۔ تم سب لوگوں کو مجبور نہیں کر سکو گی کہ وہ تمہارے بارے میں صرف اچھی رائے ہی رکھیں۔ یاد رکھنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اگر تم کسی کے خلاف اپنے دل میں میل نہیں رکھو گی تو کوئی بھی تمہارے خلاف زیادہ دیر تک اپنے دل میں گرہ نہیں باندھ سکے گا۔

اپنے پیرامیڈیکل اسٹاف سے بہت عزت سے پیش آنا۔ مریضوں کی دیکھ بھال ایک ٹیم ورک ہے۔ تم اکیلی کچھ نہیں کر سکتی۔ مریضوں کے سامنے اپنے جونئیر سٹاف کی ڈانٹ ڈپٹ کبھی نہ کرو، ایسا کرنے سے مریضوں کا ہسپتال کے عملے پر اعتماد کم ہو جائے گا، اور تمہارے سٹاف کے اندر خود اعتمادی ختم ہو جائے گی۔ اپنے کسی جونیئر کے رویے یا اس کے کام میں کوئی غلطی دیکھو تو بعد میں اُسے دوسروں سے الگ کر کے نشاندہی کردو، اور اسے نرم خوئی سے سمجھا دو۔ اپنے انتظامی اختیارات میں طاقت کی بجائے محبت کو اپنا ایڈمنسٹریٹو ٹول بناؤ۔ اگر کوئی بے جامحبت سے بگڑتا ہے‘ تو بگڑ جائے‘ بجا ہے … تم اپنی محبت کی ڈوز کم نہ کرو۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ماتحت لوگ زیادہ پیار سے بگڑ جاتے ہیں… یہ لوگ دراصل اپنے لیے پیار کی زیادہ ڈوز مانگ رہے ہوتے ہیں… یعنی پیار سے بگڑنے والوں کا حل یہ ہے کہ اُن کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ پیار سے پیش آؤ۔ یاد رکھو! عزت ِ نفس ہر ذی نفس کو عزیز ہوتی ہے۔ کسی کی توہین ہرگز نہ کرنا۔ کبھی طنز اور طعنے سے کام نہ لینا۔ طنز اور طعنہ زنی دونوں ہی توہین کرنے کے طریقے ہیں۔ یہ بات سمجھنے میں شاید تمہیں بہت دِقّت پیش آئے کہ تمہارے وارڈ میں کام کرنے والے ایک خاکروب کی عزت ِ نفس بھی اتنی ہی قیمتی ہے‘ جتنی تمہارے پروفیسر کی۔ ہمارے مرشد حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں’’کسی غریب کی عزتِ نفس کو کبھی غریب نہ سمجھو‘‘

اپنے ماتحتوں کو اپنا چھوٹا بھائی بہن سمجھ کر شفقت کرو، اُن کی غلطیاں معاف کرو، بلکہ بار بار معاف کرو۔ اپنے ہم مرتبہ یعنی برابر کے لوگوں کو اپنا بڑا بھائی بہن سمجھ کر اُن کی عزت کرو۔ اِس شعبے میں اپنے بڑوں کو اساتذہ کا درجہ دو، اپنے سینئر کا احترام ہر صورت میں قائم رکھو۔ تمہارے سینئر خواہ مزاج کے جتنے بھی تند و تیز ہوں‘اپنے اندر اُن کا تلخ مزاج برداشت کرنے کی عادت ڈالو ، اپنے دل میں اُن کا احترام کبھی کم نہ ہونے دو ، یعنی دل میں یہی خیال رکھو کہ میں نے اِن سے سیکھنا ہے ‘ مجھ پر اِن کا احترام لازم ہے۔ اپنے سینئرز کی ڈانٹ اور غصے پر جواب میں کبھی طیش میں نہ آؤ۔ اُن کی مجبوری سمجھو۔ ہو سکتا ہے‘ کام کے پریشر نے اُن کے اعصاب پر اثر ڈالا ہو، ہو سکتا ہے کچھ لوگوں نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہو اور وہ سب سے شاکی ہو گئے ہوں،یہ بھی ہو سکتا ہے‘ اُن کے اپنے سینئرز کے مزاج کی گرمی نے اُن میں بھی غصہ پیدا کردیا ہو۔ ہر شخص درویش نہیں ہوتا‘ کہ ایک درخت کی طرح خود گرمی برداشت کرے اور اپنے زیرِ سایہ لوگوں کیلئے چھاؤں بن جائے ۔ ہر شخص قائم الحال نہیں ہوتا کہ عشرت اور عسرت دونوں حالتوں میں یکساں دریا دلی دکھائے۔ ہرشخص ایک ولی اللہ کی طرح جواد صفت نہیں ہوتا کہ سائل کی استعداد اور استحقاق دیکھے بغیر سخاوت کرتا رہے۔ ہم ایسے تھڑدلے تو فراخی میں فراخ دل ہو جاتے ہیں اور تنگ دستی میں تنگ دل ہوجاتے ہیں۔

اپنے ماتحت عملے کا خاص خیال رکھو، اِن کی ضروریات کا خیال رکھو۔ اِن میں سے اکثر مسکین ہوتے ہیں، بہانے بہانے سے اِن کی مالی مدد کر دیا کرو۔ اِن کے ساتھ فاصلہ کم کرو، اتنا کم کہ یہ لوگ تمہیں اپنے ذاتی مسائل بتانے میں کوئی جھجھک محسوس نہ کریں۔ خاص طور پر اپنی نرسوں کا ضرور خیال رکھو۔ اِن میں سے زیادہ تر سفید پوش گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور اپنے خاندان کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ یاد رکھو! کوئی ماتحت مسٹر پرفیکٹ نہیں ہوتا، کسی میں کوئی خوبی اور کسی میں کوئی خامی پائی جاتی ہے۔ اِن کی خوبیوں سے فائدہ اٹھاؤ اور اِن کی خامیوں کو نظر انداز کر دو۔

میرا شمار اُن والدین میں سے نہیں ‘ جن کے لیے بچے کی تعلیمی ڈگری اور منصب ایک اسٹیٹس سمبل ہوتا ہے۔ میں تمہیں کبھی یہ نہیں کہوں گا کہ تم لازمی طور پر اسپیشلائیزیشن کرو، اور اسپیشلائیزیشن کے لیے امریکہ یا برطانیہ کا انتخاب کرو۔ میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہوگا کہ امریکہ کے یوایس ایم ایل ای اور برطانیہ کے پلیپ امتحان کے لیے خود کومزید کسی امتحان میں نہ ڈالو۔ اسپیشلائزیشن کی اگرضرورت محسوس کرو‘ تو یہیں پاکستان سے کرلو۔ اگر ریسرچ کا شوق ہے‘ تو پھر ضرور اسپیشلائیزیشن کی طرف جاؤ لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ اسپیشلسٹ کا کام ریسرچ کرنا ہے ‘ پیسے کمانا نہیں۔ یاد رکھو! تم جتنی بڑی اسپیشلسٹ بنتی چلی جاؤ گی ‘ عام غریب عوام سے تمہارا رابطہ کم ہو تاجائے گا‘ کیونکہ اسپیشلسٹ کے پاس ریفرڈ مریض ہوتے ہیں اور عام طور پر اَمیر مریض ہوتے ہیں۔ عام غریب آدمی کسی اسپیشلسٹ کے شو روم کا دروازہ کب کھٹکھٹا سکتا ہے؟ اِس غریب ملک نے اپنے خزانے سے تم پر لاکھوں روپے خرچ کیے اور تمہیں ایم بی بی ایس کی ڈگری دی، یہاں کے غریب عوام نے سرکاری ہسپتالوں میں اپنے جسم اور وقت کو تمہاری دسترس میں دیا ‘تاکہ تم سیکھ سکو۔ اب اِس ملک اور اِس ملک میں رہنے والے عوام کا تم پر حق ہے کہ تم اِن کی خدمت کرو۔ اگر دل کی دنیا شاد اور آباد د رکھناچاہتی ہو تو غریبوں اور مسکینوں کے درمیان رہنے کی عادت ڈالو۔ یہاں سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے کے فوراً بعد باہر کے لیے اُڑان بھرنا میرے نزدیک سراسر خود غرضی ہے۔ میں تمہیں خود غرضی سے بچنے کی تعلیم دے رہا ہوں۔ یاد رکھو! ہمارا شیوہ اخلاص ہے… اور اخلاص اپنے مزاج اور مفاد کی نفی کا نام ہے۔

Leave a Reply