Sabar Akhr Kab Tak

صبر… آخر کب تک؟

آج کا کالم دو طالبعلموں کے خطوط کے جوابات پر مشتمل ہے۔ بہاولپور سے ایک ذہین بچی کا سوال ہے ، یہ ہمارے ایک علم دوست ‘ دوست کی بیٹی ہے‘خود بھی علم دوست ہے، حال ہی میں بابل کے دیس سے سسرال سدھاری ہے، انتہائی سمجھدار اور دانشور قسم کی بیٹی ہے، اِس کے قلم میں زور بھی ہے اور جو کچھ یہ لکھتی ہے ‘ اُس میںشعور بھی ہے۔وگرنہ ہر زور آور شعور آور نہیں ہوتا۔ اِس کا سوال نما خط ہے ’’السلام علیکم سر! گھٹن محسوس ہوتی ہے ‘سر! جیسے دل تنگ سا ہو رہا ہے، لوگوں کو معاف کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے‘ چند روز سے، پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا… کوئی راستہ سمجھا دیجئے ‘ اِس کیفیت سے نکلنے کا‘‘ دوسرا سوال آزاد کشمیر سے ایک متلاشی نوجوان سید غلام رسول کا ہے۔ کہتا ہے’’ سوال یہ ہے ک جو لوگ understanding اور caring ہوتے ہیں انکی قسمت میں صرف compromises ہی ہوتے ہیں۔ جبکہ ضدی اور بدتمیز لوگ سب سہولیات سے نواز دیئے جاتے ہیں، حتیٰ کہ محبت اور تعلق سے بھی۔ آخر ایسا کیوں ہے؟




 

اب اِن بچوں کو یہ بات کیسے سمجھائی جائے کہ جس میں جتنا شعور ہوتا ہے‘ اُس پر اتنی ہی گہری خاموشی واجب ہو جاتی ہے۔ جو لوگ شور کا حصہ ہوتے ہیں‘ انہیں شور تنگ نہیں کرتا لیکن جنہیں اِس شور کا شعور مل جاتا ہے‘ اُن کے لیے یہ شور سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ اخلاص اور محبت میں شور نہیں ہوتا ‘ بلکہ سکون دَر سکون ہوتا ہے… ایک پرسکون مقام کا مکین اگر ایک شور اور شورش زدہ علاقے میں چلا جائے تو وہ شور اُس کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ خوشبودار ماحول میں رہنے والے کیلئے منافقت اور مفاد پرستی کے بدبودار ماحول میںبسر کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں اگروہ ناک پر رومال رکھے تواِسے ناک بھوں چڑھانا سمجھ لیا جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بدبودار بات کو سرمحفل بدبودار کہنے والا اخلاق کی خوشبو سے دُور ہو جاتا ہے۔ کسی بے ادب کو سرعام بے ادب کہنے والا اَدب کے دائرے سے نکل جاتا ہے۔


اب متلاشیانِ علم کویہ کیسے بتلایا جائے کہ جس میں جتنا علم ہوتا ہے‘ اُس سے اتنے ہی حلم کی توقع کی جاتی ہے۔ علم دینے والا اگر حلم میں کمی پاتا ہے تو علم اورشعور کا نزول کم ہو جاتا ہے… یہاں تک کہ بے صبر آدمی سے علم کی عبا واپس لے لی جاتی ہے۔جو بھی علم ، مرتبے اور شعور میں بڑا ہوگا‘ اُس سے اتنی ہی بڑی قربانی طلب کی جاتی ہے۔یعنی اخلاق کے باب میں جو جتنی بڑی قربانی دے گا ‘وہ اتنا ہی بڑا ہو گا۔ آسان سا فارمولہ یہ ہے کہ جو اپنی ضد چھوڑ دے گا ‘وہ بڑا ہو جائے گا۔ یہاں بڑا وہ ہے ‘ جس کی اَنا چھوٹی ہے۔ بڑے مرتبے کی حفاظت کرنے کے لیے‘ قربانی بھی بڑی دینا ہوتی ہے۔ قربانی سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ قربانی دینا بڑے آدمیوں کا شیوہ ہے۔ بڑے آدمی قربانی دیتے رہتے ہیں… اپنی انا کی قربانی، اپنے مزاج کی قربانی … اپنی پسند اور ناپسند کی قربانی۔پسندیدہ ماحول سے دُوری برداشت کرنا اور ناپسندیدہ بات اور ماحول میں گھِر جانے کے بعد اِس میں سے بطریقِ احسنِ گزرنا… یہ سب قربانی ہی کی ذیل میں آتا ہے۔


ہمارے دین نے صبر کا حکم دیا ہے، اور بتایا ہے صبر کرنے والے کی معیت میں اللہ ہوتا ہے… ’’ ان اللہ مع الصابرین‘‘ جاننے والے بتاتے ہیں کہ صبر وہی کر سکتا ہے‘ جس کے ساتھ اُس کا رب ہوتا ہے۔ اپنے رب کی معیت سے محروم‘ صبر نہیں کر سکتا… وہ صرف برداشت کر سکتا ہے۔ برداشت کرہاً ہوتی ہے ، صبر طوعاً ہوتا ہے۔با تسلیم و رضا اطاعت ہی درحقیقت اطاعت کہلاتی ہے، جبری اطاعت شجر و حجر کر رہے ہیں۔ حضرت انسان اس لیے اشرف ہے ، باسعادت و با تکریم ہے کہ اِس کی اطاعت اختیاری ہے ‘ اضطراری نہیں۔ اِس کے پاس معصیت اور بغاوت کا اختیار اور اِرادہ موجود ہے‘ لیکن اِس کا شرف یہ ہے کہ یہ معصیت کو ترک کرتا ہوا‘ مغفرت کی طرف لوٹ آتا ہے۔یہ اپنے اختیار کو ترک کرتا ہے، تج دیتا ہے… تب اطاعت کی سعادت سے سرفراز ہوتا ہے۔

’’برداشت کرنے والا چارو ناچاربرداشت کرتا ہے… وہ لاچار ہے، بدلہ نہیں لے سکتا ،اِس لیے برداشت کرتا ہے۔ صبر کرنے والا بااختیار ہے، وہ بدلہ لے سکتا ہے، وہ بددعا دے سکتا ہے، وہ ترکی بہ ترکی جواب دے سکتا ہے‘ لیکن وہ جنگ و جدل کی بجائے صبر کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اب اِس کا مقام جدا ہے۔ صبر کرنے والے کو اپنے رب کی معیت عزیز ہوتی ہے ، اِس لیے وہ مخلوق کے ناروا سلوک کو اپنے لیے روا سمجھتا ہے۔

ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے۔ نیکی کی بھی قیمت ہوتی ہے، اورایک نیکو کار کار کو اپنی نیکی کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ اخلاق ایک بیش قیمت چیز ہے ۔ یہ سستا سودا نہیں کہ ہر کسی کے نصیب میں کر دیا جائے۔ نیکی اور اخلاق جواہر ہیں، اِن کا مول لگتا ہے۔ تعجب نہیں کہ جوہر اور جوہری کم یاب ہوتے ہیں…اور قیمتی ہوتے ہیں۔ دنیا کے بازار میں خود کو اَرزاںفروخت کر نا ہو تو کسی محنت، تکلیف اور تکلف کی ضرورت نہیں۔اپنی طاقت اور بساط کے مطابق ہرکسی کو ہر چیز مل جاتی ہے۔ یعنی جس میں جتنی طاقت ہوتی ہے ‘وہ اتنی سہولت حاصل کر لیتا ہے۔ صبر اور اخلاق کی کہانی اپنی طاقت کو سرنگوں کرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ مادّی طاقت جب اخلاقی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتی ہے‘ تو انسان مرتبۂ انسانیت سے سرفراز ہوتا ہے۔


اپنی طاقت کا منفی استعمال کرنے والے ، اس کی عریاںنمائش کرنے والے ‘ اِس معاشرے میں خوف پیدا کرتے ہیں۔ جب خوف کا کوڑاگھمایا جاتا

ہے تو راستے باآسانی صاف ہو جاتے ہیں۔ طاقت کے خوف سے مخلوق کو ڈرا دھمکا کر اپنے لیے راستہ لینا دراصل ایک شارٹ کٹ لینا ہے… اور کوئی شارٹ کٹ بلند منزلوں کی طرف نہیں لے کر جاتا۔ مہذب اور بااخلاق بچے اکثر یہ دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ بداخلاق اور ضدی بچوں کے سامنے اُن کے بڑے بہت جلد ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔یہاں بھی خوف کا میکینزم استعمال ہوتا ہے، والدین اپنے بچوں کی بداخلاقی کے ڈر سے دبک جاتے ہیں اور اُن کے لیے آسانیوں کی تجوری کھول دیتے ہیں، اُن کے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ پیغمبر ِ اخلاقؐ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ سب سے بُرا شخص وہ ہے ‘جس کے شر کی وجہ سے لوگ اُس کی عزت کریں۔ ثابت یہ ہوا کہ اپنی nuisancse value کی وجہ سے اپنا راستہ سیدھا کرنے والے ہر گز سیدھے راستے پر نہیں۔


اگر خیر کے راستے پر چلنے والا اس لیے پریشان ہے کہ شرپسند زیادہ فائدہ اُٹھا گئے تو اسے خیر کے راستے کی قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں، وہ گویا خیر ایسے بیش قیمت اثاثے کی قیمت ادا نہیں کرنا چاہتا۔ قرآن کریم کی ایک آیت کا مفہوم ہے’’ تمہی میں سے وہ لوگ ہیں جو دنیا کے طلب گار ہیں اور تمہی میں سے ہیں ‘ جو آخرت کی طلب رکھتے ہیں، دنیا کے طلب گاروں کو ہم ان کا مقرر شدہ حصہ ضرور دیتے ہیں لیکن آخرت میں اُن کا کوئی حصہ نہیں‘‘

اخلاق کی عمارت صبرکی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اخلاق کے لیے صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور صبر کے لیے اخلاص کی۔ کوئی ریاکار صبر کے آسن نہیں بیٹھ سکتا۔ وہ بہت جلد اخلاق کے حصار کو توڑ کر نکل بھاگے گا۔ صبر صرف اور صرف فی سبیل اللہ ہوتا ہے، اِس کا حاصل اور ماحاصل بھی قربِ الٰہی ہے۔ صبر کی کوکھ سے دانائی پھوٹی ہے۔ ایک صابر انسان‘ ایک دانا انسان ہوتا ہے۔ صبر لالچ کی نفی ہے۔ صبر اِس نیت سے نہیں کرنا چاہیے کہ اِس کا پھل میٹھا نکلے گا اور ہم مزے مزے سے کھائیں گے۔ صبر کا پھل میٹھا نہ بھی ہو‘ تو اِس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ پورے کا پورا شجر ہی طیب ہے۔ شجرۂ طیبہ سے پیوستہ رہنے والے ہی صبر کی بہار اور بوباس سے واقف ہیں۔ جلد باز دنیا جلدی سے حاصل ہونے والے مفادات کی گولیوں ٹافیوں سے بہل جاتی ہے۔


صبر کرنے والا بنیادی طور معاف کرنے والا ہوتا ہے۔ صبر کرنے والے کا بنیادی جوہر ہی معاف کرنے کی صلاحیت سے عبارت ہے۔ اگر معاف کرنا مشکل ہو رہا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ رہا ہے۔ جو شخص معاف نہیں کرتا ‘اسے پھر معافی مانگنا پڑ جاتی ہے۔ معاف کرنا زیادہ بڑا مقام ہے۔ صبر کے دائرے سے نکلنے والا قریب قریب دائرہ اخلاق سے خارج ہو جاتا ہے۔ جب برداشت کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے تو ہمیں دَوا اور قانون کی فرسٹ ایڈ کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں امتحان میں کامیابی مشکوک ہو گی، کیونکہ ہم کمرۂ اِمتحان سے قبل اَز وقت خود ہی واک آوٹ کر گئے۔میڈیکل بنیادوں پر رخصت تو مل جاتی ہے‘ عزیمت نہیں!!


صبر… آخر کب تک؟؟ …جب تک ہمیں دانائی کی ضرورت ہے، جب تک ہمیں معیت ِ الٰہی کی ضرورت ہے… اور جب تک ہمیں پیغمبر اخلاقؐ کے تبسم کی خیرات کی ضرورت ہے!!

Leave a Reply