Bairozgari Aur Talba Elamonki Mushkilat

بیروزگاری اورطالب علموںکی مشکلات

تواتر سے ملنے والے پیغامات میں نوجوانوں کی طرف سے بیروزگاری اور تعلیمی قابلیت کے مطابق روزگار نہ ملنے کی شکایت ہے بہت سے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ایم ایس اور پی ایچ ڈی تک کرنے کے بعد بیروزگاری کا شکار ہیں گریجویشن اور ماسٹر کرنے کے بعد تو نوجوانوں کی بیروزگاری عام بات ہے میں اس امر سے اتفاق کرتی ہوں کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہے لیکن کچھ مسائل خود نوجوانوں کی ترجیحات کے بھی ہیں ان کو روزگار نہیں اچھا روزگار ملازمت نہیں اچھی ملازمت پست گریڈ نہیں اعلیٰ گریڈ کم تنخواہ نہیں اچھی تنخواہ اور اس جیسی دیگر ترجیحات کا بھی ہے ۔ بہت سے نوجوان جو اپنی تعلیم پر نہیں قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہیں چپ چاپ کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کرتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے پاس انجینئرنگ ڈگری ہے وہ سوات سے کراچی جا کر تربوز کا جوس کیسے بچیں وہ محنت میں عار محسوس نہیں کرتے ان کی ڈگری ان کی تعلیم ان کو رزق حلال سے نہیں روکتی تسلیم یہ کہ سارے تعلیم یافتہ تو ٹھیلا نہیں لگا سکتے وہ بھی اگر ٹھیلہ لگانے لگیں تو تعلیم سے محروم لوگ کیا کریں میں سمجھتی ہوں کہ دنیا کا کوئی بھی کام اور محنت سے رزق کمانا برا نہیں ہوتا مشکل اور مشقت آور ضرور ہوتا ہے لیکن بندہ سوچ لے کہ روٹی کسی طور کمالے مچھندر تو پھر کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا ہی بہتر ہوتا ہے مونچھ نیچی ہو جائے داڑھی سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگیں مرد وہ ہے جو مشکلات سہتا ہے ‘ بیروزگاری کی ایک وجہ پہلا قدم اٹھانے سے گریز ہے نوجوان سوچتے اور کڑھتے جاتے میں اور وقت گزرتا جاتا ہے حرکت میں برکت والا فارمولہ فارغ التحصیل ہونے کے دوسرے دن سے اپنانا نہیںچاہتے اور منتظر فردا رہتے ہیں یوں وقت گزرتا جاتا ہے اور مشکلات بڑھتی ہیں روزگار ایک تلاطم خیز سمندر کے مثل ہے جس نے جتنی جلدی چھلانگ لگا کر عملی دنیا میں قدم رکھنے کی ہمت کی اسے ہاتھ پیر مارتے مارتے کچھ مل ہی جائے گا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیجئے کہیں چھوٹا موٹا کام ڈھونڈ لیں جدوجہد کریں ہمت مرداں مدد خدا۔
میر اسلم خان نے مختلف علاقوں اور طبقات سے تعلق رکھنے والے چار قسم کے نوجوانوں کو سرکاری ملازمت کے لئے عمر کی حد میں رعایت دینے کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے گزشتہ سال دو سال میں کورونا کی وبا اور اس سے پیدا شدہ حالات کے تناظر میں صوبہ بھر کے سرکاری ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کو عمر میں بالعموم رعایت دینے کا مطالبہ کیا ہے بیروزگار نوجوانوں کی عمروں کا مسئلہ بھی شادی کی عمر کی طرح عمر رواں ہے جو برف کی طرح پگھلتی جاتی ہے اور زائد العمر ہونے پر نوجوان ملازمت کے لئے اہل نہیں رہتے اس کی اگر کالت کی جائے تو نوجوانوں کی جوبڑی تعداد ہر سال فارغ التحصیل ہو کر امیدواروں کی فہرست میں آجاتی ہے ان کا کیا ہو گا اور اگر مخالفت کی جائے تو جو نوجوان زائد العمر ہونے تک ملازمت حاصل نہ کر سکے ہوں ان کی بس ایک آس ہی کی بات ہے ورنہ ملازمت بہر حال مشکل ہی رہے گی ۔ پبلک سروس کمیشن اور دیگر اداروں میں انٹرویو کے نمبروں سے اگر تقرری کی گنجائش ہو تو زائد العمر ہونے والے نوجوان کی تقرری کی سفارش کی اکثر سعی ہوتی ہے جس کا مقصد اسے مستقل طور پر نااہلی سے بچانا ہوتا ہے مگر جہاں گنجائش ہو ورنہ ان کی اپنی قسمت بہرحال اس مطالبے پر غور ہونا چاہئے ممکن ہے اس وجہ سے اگر کوئی اہل امیدوارمحروم ہو رہا ہو تو اسے ایک موقع اور مل سکے ۔ پہلے کم از کم پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے والوں کو روزگار کے حصول میں اتنے مسائل کا سامنا نہ ہوتا تھا گزشتہ کالم میں ایم بی بی ایس کے ایک طالب علم سے فارغ التحصیل ہونے یعنی ڈاکٹر بننے کے بعد مزید ایک طویل اور پرخرچیلے طریقہ کار سے گزرنے کے عمل کو عبث قرار دے کر اس پر احتجاج کیا تھا اس بار فزیوتھراپی کے طالب علموں کی شکایت آئی ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے دو سال پہلے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ فزیوتھراپسٹ کو ایچ ای سی کے قوانین کے مطابق صوبہ کے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ہائوس جاب فراہم کیا جائے گا لیکن ابھی تک حکومت نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا جبکہ دیگر صوبوں میں فزیوتھراپسٹ طلبہ کو کورس مکمل کرنے کے بعدطلبہ کو پریکٹیکل کام سیکھنے کے لئے ایک سال ہاس جاب فراہم کیا جاتا ہے صرف پختونخوا کے گریجویٹس کو اپنے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا ہے جسکی وجہ سے بیروزگاری دن بدن بڑھ رہی ہے۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق ڈی پی ٹی یعنی ڈاکٹر آف فزیو تھراپی کے پانچ سالہ پروفیشنل و کلینیکل ڈگری کے گریجویٹس کے لئے ڈگری کے اختتام پر ایک سالہ ہاوس جاب لازمی ہے۔یہ پروگرام میں داخلہ دینے والے ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گریجویٹس کے لئے ہائوس جاب کا بندوبست کرے ۔لیکن ابھی تک نہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامیہ اور نہ ہی صوبائی حکومت اس سلسلے میں انتظامات کر رہی ہے۔ان حالات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پرائیویٹ ہسپتالوں نے فیس لیکر انٹرن شپ دینے لگے ہیں طلبہ کا مطالبہ ہے کہ جس طرح پاکستان کے تمام صوبوں میں طلبہ کو ہائوس جاب فراہم کیا جاتا ہے اسی طرح خیبرپختونخوا حکومت بھی ڈی پی ٹی گریجویٹس کیلئے ہائوس جاب کی فراہمی یقینی بنائے۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر وائٹس ایپ میسج ‘ وائٹس ایپ اور ٹیکسٹ میسج کرسکتے ہیں۔




Leave a Reply