Kiya Karon Mai Kay Yehe Kam Kuch Ata Hai Hai Mujhe

کیا کروں میں کہ یہی کام کچھ آتا ہے مجھے

وحشت کلکتوی نے لگ بھگ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے ایک بات کی تھی ‘جسے آج کے خیبر پختونخوا کے(بے چارے) فنکاروں پر اگر منطبق کیا جائے تو ان فنکاروں کی حالت زار کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے ‘ وہ شعر کچھ یوں تھا کہ
عاشقی شیوہ لڑکپن سے ہے اپنا ناصح
کیا کروں میں کہ یہی کام کچھ آتا ہے مجھے
ہمارے درو کے ایک اور شاعر مرحوم غلام محمد قاصر نے اسی مضموں کو ذرا اور انداز سے برتا ہے کہ
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
تاہم جن بے چارے فنکاروں کا رونا رویا جانا مقصود ہے ‘ ان پر حضرت وحشت کلکتوی کا شعر زیادہ فٹ بیٹھتا ہے ۔ اور وہ یوں کہ وہ کسی بھی طور ناکام نہیں ہیں بلکہ انہیں بوجوہ ناکامی کی جانب دھکیلا جارہا ہے ‘ کہ پہلے تو سرکاری ٹیلی ویژن پر پشاور سے اردو ڈرامے ریکارڈ کرنے کی”پابندی” لگا کر ان کی بے روزگاری کو تقریباً نصف کیا گیا ‘ اور یہاں سے قومی نشریاتی رابطے پر اردو سریل یا سیریز پر قدغن لگا دی گئی ‘ تاہم مقامی زبانوں یعنی پشتو اور ہندکو کے ڈرامے اور مزاحیہ پروگرام کسی نہ کسی حد تک چلتے رہے ‘ اس دوران اباسین چینل کے نام مقامی زبانوں کے پروگرام نشر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ‘ اے این پی کے دور میں صوبائی سطح پر اپنا ٹی وی چینل لانچ کرنے کی درخواست بھی دی گئی مگر اسے مسترد کیا گیا ‘ جواگر آن ایئر ہو جاتا توہنرمندوں ‘ پروڈیوسروں ‘ تکنیک کاروں اور پھر مقامی فنکاروں کو روزگار کے بہتر مواقع نصیب ہو جاتے مگر ایسا نہ ہو سکنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے اچھے دن نصیب ہونے کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے ‘ بہرحال مقامی زبانوں کے ڈرامے اور دیگر پروگراموں کی وجہ سے کچھ نہ کچھ آمدن ملنے سے فنکاروں کے گھروں کے چولہے جلتے رہے ‘ حالانکہ اس سے بھی پہلے ایم ایم اے کے دور میں صوبے بھر میں خصوصاً نغمہ و ساز سے وابستہ فنکاروں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا چکا تھا اور سٹیج پروگراموں پر بھی قدغنیں لگا دی گئی تھیں ‘ جس کی وجہ سے بعض نامی گرامی فنکار خود ساختہ ملک بدری پر بھی مجبورہوئے تھے ‘ ادھر وفاق کی پالیسیوں میں تبدیلی آجانے سے پی ٹی وی کو خدا جانے کس بزرجمہر کی دی ہوئی گائیڈ لائن کے تحت اردو ڈراموں کی ریکارڈنگ سے روک دیا گیا اور پرائیویٹ اداروں سے مہنگے داموں ڈرامے خرید کر نشر کرنے کا پابند کیا گیا ‘ جس سے تقریباً پورے پاکستان کے ڈرامہ فنکاروں پر پی ٹی وی کے دروازے بند کر دیئے گئے جس کا سب سے زیادہ نقصان صرف پشاور کے فنکاروں کو پہنچا کیونکہ کراچی میں پرائیویٹ پروڈکشن روز بہ روز روبہ ترقی ہونے کی وجہ سے وہاں تو ڈرامہ نجی ٹی وی چینلز پر بھی پنپتا رہا اور اب بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ‘ لاہور میں مختلف ٹی وی چینلز نے مزاحیہ فنکاروں کو لیکر شوز شروع کر رکھے ہیں جن سے وہاں کے فنکار اچھی خاصی کمائی کر لیتے ہیں جبکہ پشاور کے فنکار بے چارے کسمپرسی کی کیفیت سے دو چار ہیں ‘ سٹیج ڈراموں اور دیگر پروگراموں پر پابندی اوپر سے پی ٹی وی پر پشتو اور ہندکو پروگراموں کی”بندش” نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا ‘ اس دوران صوبائی حکومت نے وقتی طور پران بے روزگار فنکاروں کی داد رسی کے لئے امدادی پروگرام کے تحت ان میں ماہانہ بنیادوں پر رقوم تقسیم کی ‘ مگر اس منصوبے میں بھی خود اہل فن نے کیڑے نکالنا شروع کئے اور کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیا گے کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے اتنا شور مچایا کہ معاملہ عدالت اور نیب تک پہنچ گیا ‘ ظاہر ہے سرکاری ادارے کے ذمہ داروں نے آئندہ توبہ کر لی کہ اچھائی کرنے کے اگر یہ نتائج نکلنے ہیں تو محاورے کے مطابق چوہا لنڈورا ہی بھلا ‘ اس صورتحال پر رضی اختر شوق نے کیا خوب کہا ہے کہ
کوئی اس شہر میں آسیب صدا دیتا ہے
جو دیا لے کے نکلتا ہوں بجھا دیتا ہے
اگرچہ موجودہ صوبائی حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر حالیہ بجٹ میں فنکاروں کے لئے ایک انڈومنٹ فنڈ قائم کرنے کی بازگشت سنائی دی ہے تاہم اس کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہو گا تفصیل ابھی سامنے نہیں آئی ‘ مگر اس سے بھی کتنے لوگ اور کس حد تک مستفید کئے جا سکیں گے؟ رہی بات فنکاروں کی تو گزشتہ روز ان کے ایک نمائندہ وفد نے جنرل منیجر پی ٹی وی سے ملاقات کرکے اس بات پر شدید احتجاج کیا کہ اب جبکہ پی ٹی وی نے پشاور سینٹر کو ڈراموں وغیرہ کی ریکارڈنگ کی اجازت دیدی ہے مگر ان فنکاروں کے بقول ان پروگراموں میں مقامی فنکاروں کے بجائے غیر مقامی فنکاروں کو مواقع دیئے جارہے ہیں اور مقامی فنکار ایک بار پھر محرومی کا شکار ہیں ‘ جو یقیناً مقامی ہنر مندوں کی حوصلہ شکنی ہے ‘ تاہم خوشی کی بات ہے کہ جنرل منیجر نے فنکاروں کے نمائدہ وفد کو یقین دلایا کہ ان ڈراموں وغیرہ میں مقامی فنکاروں کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا ۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ خاموش رہنے کے بجائے مقامی فنکار اپنے جائز حق کے لئے بولنے پر مجبور ہو ہی گئے یعنی بقول باقی صدیقی
باقی جو چپ رہوگے تواٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا ہی رسم جہاں بولتے رہو
ویسے بھی بقول فیض احمد فیض بول کہ لب آاد ہیں ترے ‘ اور یہ بولنا بروقت بھی ہے اور جائز بھی کہ
موذن مرحبا بروقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے
پشاور کے فنکاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ نہ تو یہاں کراچی اور لاہور کی طرح ایسے سرمایہ کار آگے آتے ہیں جو ڈرامہ پروڈکشن میں ان کی مدد کرکے یہاں ڈرامے وغیرہ تخلیق کریں ‘ نہ پرائیویٹ چینلز والے ان سے ڈرامے خرید کر ان کی حوصلہ افزئی پر تیار ہیں ‘ لے دے کر ایک پشتو چینل ہے جس کا ہیڈ کوارٹرراولپنڈی اسلام آباد میں ہے ‘ وہ بھی کڑی شرائط ‘ نہایت کم قیمت اور ادائیگی میں مبینہ طور پر ۖتاخیری حربوں کے ذریعے ان فنکاروں کی درست داد رسی نہیں کرتا ‘ تو پھر یہ بے چارے جائیں تو جائیں کہاں؟ بقول ڈاکٹر نذیر تبسم
استعارہ ہیں کسی شہر خموشاں کا نذیر
یہ مرا شہر پشاور ‘ مرے مرتے ہوئے لوگ




Leave a Reply