Tareekh Kay Jharokon Say

تاریخ کے جھروکوں سے

آج 14اگست ہے یعنی پاکستان کی یوم آزادی کا دن ‘ قوموں کی تاریخ میں اس قسم کے دن خاص الخاص ہوتے ہیں ‘ سو ہم بھی ہر سال یوم آزادی مناتے ہوئے ایک عادت کے طور پر اسے مناتے ہیں ‘ کیونکہ نئی نسل کو آزادی کے طویل سفر اور مسلمانان ہند کی جدوجہد کے حوالے سے وہ کچھ بھی نہیں بتایا گیا جس سے ان کو یہ معلوم ہو سکے کہ ہمارے بزرگوں نے واقعی کتنی قربانیاں دیں’ مصیبتیں جھیلیں اور بدیسی حکمرانوں کے ساتھ مل کر صدیوں سے ہمارے ساتھ رہنے والی غیر مسلم اقوام نے مسلمانان ہند کے خلاف کیا کیا سازشیں کیں۔ ‘ ہماری عمر کے افراد نے چونکہ 40ء کی دہائی میں آنکھ کھولی تھی اس لئے بچپن اور لڑکپن کے دور کے بعض واقعات اب بھی حافظے میں محفوظ ہیں ‘ مگر جن لوگوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ جدوجہد آزادی کی حقیقی تاریخ کو اس کے درست تناظر میں آنے والی نسلوں تک پہنچاتے ‘ انہوں نے بوجوہ اس میں غفلت برتی اور مبینہ طور پر حقائق کو سامنے نہیں آنے دیا ‘ اس ضمن میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ بانی پاکستان بابائے قوم کی ایک تقریر کو نشر ہونے سے پہلے ایڈٹ کیا ‘ جس کی وجہ سے ہم آج تک یہ یقین ہی نہیں کر پائے کہ پاکستان میں نظام حکومت ‘ اور پاکستانی باشندوں کے لئے زندگی گزارنے کا وہ کونسا کلیہ تھا جس پر اگر قائد اعظم کے اصولوں کی روشنی میں عمل کرتے تو شاید آج یہ حالت نہ ہوتی جس کا ہمیں سامنا ہے ‘ ہر چند کہ ہمارے دشمنوں نے بھی اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے ہمارے لئے مشکلات کھڑی کیں اور بعض عالمی طاقتوں کا منفی کردار بھی اب تو تقریباً بالکل سامنے ہے ‘ جبکہ بوریا بستر سمیٹ کر جانے والے انگریز حکمرانوں نے جان بوجھ کر بعض ایسے فیصلے کئے جن کا مقصد ہمیں تقسیم کے بعد آپس ہی میں الجھا کر ترقی سے محروم کرنا تھا ‘ اس حوالے سے کشمیر کے مسئلے کو بطور خاص لاینحل رکھ کر اور پنجاب کی غلط تقسیم سے بھارت کو یہ موقع فراہم کرنا کہ وہ اپنی فوجیں سری نگر میں اتار کر اس پر ناجائز قبضہ جما لے اور تب سے اب تک نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں ہوئیں’ دونوں ملک بڑی طاقتوں کے دست نگر بنتی چلی گئیں ‘ بلکہ پاکستان کودو لخت کرنے کی سازش کو بھی کامیاب کرکے بھارت کو بالآخر کشمیر کا بھارتی مقبوضہ علاقہ ہڑپ کرنے کا موقع فراہم کیاگیا ‘ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہم ساری عمر کشمیر کی آزادی کے ترانے ہی لکھتے رہے اور اقوام عالم سے یہ فریاد کرتے رہے ۔چونکہ خود ہمارا تعلق نشریات کے شعبے یعنی ریڈیو پاکستان کے ساتھ رہا ہے اور ریڈیو میں بطور ایک آرٹسٹ اور بعد میں پروڈیوسر کے طورپر ملازمت سے لیکر بطور سٹیشن ڈائریکٹر ریٹائرمنٹ تک لگ بھگ 37برس کا ساتھ رہا ہے اس لئے اس ضمن میں تاریخ کے کچھ حوالے سامنے لانا چاہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر سوشل میڈیا پراس سلسلے میں صرف لاہور سٹیشن کا تبصرہ کیا جاتا ہے اور وہ بھی پوری طرح درست نہیں ہوتا۔ جبکہ اس ضمن میں ریڈیو پاکستان پشاور کو بہت حد تک نظرانداز کیا جاتا ہے ‘ آزادی سے پہلے آل انڈیا ریڈیو کے نام سے نشریات ہوتی تھیں۔ ‘ یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ دہلی میں یکم جنوری 1936ء میں ٹرانسمیٹر نصب ہونے سے پہلے ہی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے سرصاحبزادہ عبدالقیوم خان لندن گئے تھے جہاں ریڈیو کے موجد مارکونی سے ملے تو انہیں صوبہ سرحد کے حالات سے باخبر کیا اور مارکونی نے صوبے میں زرعی ترقی کے لئے ریڈیو نشریات پھیلانے کے لئے سرصاحبزادہ سے ایک ٹرانسمیٹر بطور عطیہ دینے کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے ٹرانسمیٹر بھجوا بھی دیا اور 1935ء میں اس ریڈیو ٹرانسمیٹر کو صوبائی سیکرٹریٹ کے اندر نصب کرکے ”دیہات سدھار” پروگرام کے تحت نشریات شروع کی گئیں’ اگرچہ برصغیر میں نشریات 1928ء میں انڈین برٹش براڈ کاسٹنگ کمپنی کے نام سے شروع کی جا چکی تھیں اور دو سال بعد یکم اپریل 1930ء میں حکومت نے اپنی تحویل میں لیکر انڈین اسٹیٹ براڈکاسٹنگ کا نام دیا تھا ‘ البتہ نشریات”آل انڈیا ریڈیو” کے نام سے ہوتی تھیں ۔ پروفیسر خاطر غزنوی نے اپنے ایک تحقیقی مضمون میں جو ریڈیو پاکستان کے رسالے آہنگ کے شمارہ (جولائی1994ئ) شائع ہوا ‘ پشاور میں نشریات کے آغاز اور قیام پاکستان کے فوراً بعد ہونے والی سرگرمیوں پر یوں روشنی ڈالی ہے ‘ ان کے مطابق اس وقت صوبہ سرحد کے گورنر سر رالف گرفتھ تھے جن کی بیگم کے نام پر لیڈی گرفتھ سکول بھی ہے ‘ گورنر نے ٹرانسمیٹر کی تنصیب کا کام ڈائریکٹر ایگریکلچر لیفٹیننٹ کرنل ایڈورڈ ولیم چارلس نول کے سپرد کیا ‘ کرنل نول اس سے پہلے اسسٹنٹ کمشنر مانسہرہ ‘ پھر ڈپٹی کمشنر ہزارہ رہے تھے ‘ جبکہ اس سے پہلے عراق اور ایران میں خدمات بجا لاتے رہے تھے ‘ اور ہندوستان تبدیلی کے بعد مختلف عہدوں پر کام کا وسیع تجربہ رکھتے تھے ۔ٹرانسمیٹر کی تنصیب کے بعد سررالف گرفتھ نے 6مارچ 1935ء کو اس ٹرانسمیٹر کا افتتاح کیا اور پشتو میں تقریر کی ‘ اس دوران اسلم خٹک مرحوم(ممتاز سیاسی رہنمائ) کو سٹیشن انچارج بنایا گیا جبکہ ایک ماہر موسیقی سجاد سرور نیازی(مشہور گلوکارائوں ناہید نیازی اور نجمہ نیازی کے والد) کو ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ ان کے بعد افتخار الدین اس عہدے پر تعینات کئے گئے جبکہ سجاد سرور نیازی کو دوبارہ بلوا کر سٹیشن ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ پشاور ریڈیو کے لئے اس کی اپنی عمارت تعمیر کی گئی اور 1942ء میں ریس کورس گارڈن کے بالمقابل ٹینس لان میں ایک عمارت تعمیر کی گئی۔ اس نئے سٹیشن کا افتتاح فرزند پشاور اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل سید احمد شاہ(پطرس بخاری) نے کیا ‘ تحریک آزادی کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا تو اس موقع پر خصوصی نشریات کا اہتمام کیا گیا تھا اور لاہور ریڈیو پر رات بارہ بج کر ایک منٹ پر مصطفیٰ علی ہمدانی(سید فارغ بخاری کے ہم زلف اور رضا ہمدانی کے برادر نسبتی جبکہ صفدر ہمدانی کے والد محترم) نے اور پشاور ریڈیو پر آفتاب احمد خان نے قیام پاکستان کی خوشخبری سناتے ہوئے یہ اعلان کیا۔ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے ‘ قوم کو پاکستان مبارک ہو ‘ اس موقع پر پشاور سے قاری علی تجمل نے تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل کی اور اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا لکھا ہوا ترانہ ‘ پاکستان بنانے والے ‘ پاکستان مبارک ہو ‘ نشر کیا گیا اس حوالے سے بھی بعض غلط معلومات کو اتنی مہارت سے عوام تک پہنچایا گیا کہ ان پر لوگ یقین کرنے لگے ‘حالانکہ یہ سب کہانیاں ہیں۔




Leave a Reply