Shajar Kari

شجر کاری

سونامی کا ذہن میں آتے ہی دو تصویریں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیںجن میں سے ایک تصویر میں بپھرے ہوئے سمندر کی خوفناک لہریں اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جارہی ہیں۔ یہ تصویر آج سے کئی برس پہلے انڈونیشیاء اور اس کے نواحی ممالک میں آنیوالے سمندی طوفان کی ہے جس میں سمندر کی بپھری موجیں لاکھوں انسانوں کو اپنے ساتھ بہا لے گئیں۔




دوسری تصویر اسی سونامی کی نسبت سے ایک سیاسی نعرے کی شکل میں ہمیں پاکستان میں نظر آتی ہے اور یہ نعرہ لگاتے ہوئے تحریک انصاف نے آج سے کئی برس پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے سیاسی حریفوں کو بہا لے جائے گی ۔ جس زمانے میں یہ نعرہ مقبول ہوا اس وقت تو تحریک انصاف الیکشن میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کا ’’سونامی‘‘چہار سواس طرح چھا گیا کہ ہر اچھا برا اس کے گن گانے لگا اور یوں تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ۔

حکومت کی ’’گڈ گورنس ‘‘کو پس پشت ڈالتے ہوئے اگر اس کی اچھائیوں کی بات کی جائے تو وزیراعظم عمران خان نے جس دلجمعی سے سر سبز پاکستان کے لیے دوررس اقدامات شروع کیے ہیں ،ان کے نتائج تو شاید کچھ برس کے بعد سامنے آئیں گے لیکن ان اقدامات کی فی الفوراشد ضرورت تھی۔
ایک ارب درخت لگانے کے لیے سونامی بلین ٹری کا جو منصوبہ خیبر پختونخواہ میں شروع کیا گیا تھا، اس پر بہت لے دے ہوئی اور اسے ایک دیوانے کی بڑ سے تعبیر کیا گیالیکن وہ اس پر ڈٹے رہے ہیں اور آج ملک کے طول و عرض میں یہ تحریک زور پکڑ رہی ہے کہ یوم آزادی کے موقع پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے ساتھ ساتھ ہر گھر میں ایک پودا پاکستان کے نام کا لگا کر حقیقی طورپر ارض وطن کو سر سبز و شاداب کریں۔

جنگلات کے ایک افسر سے اس ضمن میں گفتگو ہو رہی تھی تو انھوں نے بتایا کہ اگر پچیس فیصد پودے بھی اپنی جڑیں مضبوط کر جائیں تو اس کو بڑی کامیابی تصور کیا جاتا ہے اور جس طرح اربوں پودے لگائے جارہے ہیں پاکستان میں سبز انقلاب زیادہ دور کی بات نہیںہے۔

آج کے حالات و اقعات یہ گواہی دے رہے ہیں کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اگلے چند برسوں میں دنیا کے مختلف خطوں کے موسمی حالات بالکل بدل جانے کو ہیں۔ ٹھنڈے ملک گرم ملکوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اور گرم ملکوں کا موسم ٹھنڈانھیں ہو رہا بلکہ گرمیوں کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے، ان موسمیاتی تبدیلیوں پر ماہرین کی پریشانی بجا ہے اور وہ ا س کے قابل عمل حل کے لیے تحقیق بھی کر رہے ہیں تا کہ دنیا ان تبدیلیوں سے کم سے کم متاثر ہو اور انسان اپنے معمول کی زندگی گزار سکیں۔

پاکستان کے موسمی حالات بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں اور ہم بھی ان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار بن رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اُلٹا رواج چل نکلا ہے۔ ہم بدلتے موسموں سے اپنے آپ کو بچانے کے بجائے ان موسموں کا آسان شکار بننے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور درختوں کا قلع قمع کر کے اس ضمن میں پیش رفت کو تیز تر کیے ہوئے ہیں۔ موسم کی تبدیلی سے اپنے ملک کو بچانے کے لیے ہمیں طویل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن یہ بات بڑی حیران کن رہی ہے کہ ہم نے ماضی میںاس ضمن میں کوئی طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کی اور ہمارے حالات تو آج بھی یہ ہیں کہ سڑکوں کی کشادگی کے نام پر صدیوں سے خوبصورتی اور سایہ فراہم کرتے درختوں کو کاٹ نہیں بلکہ نیست و نابود کر رہے ہیں۔

لاہور کی ایک سڑک تو اپنے موسم کی وجہ سے اس قدر مشہور تھی کہ اس کا نام ہی ٹھنڈی سڑ ک پڑ گیا اور اس کو آج تک اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے ، وہ اب اتنی ٹھنڈی تو نہیں رہی کہ اس کی کشادگی میں بھی درختوں کا قتل عام کیاگیا تھا۔ لاہور جو پہلے ہی موسم کی وجہ سے گردوغبار میں اَٹا رہتا ہے بعض علاقوں میں تو بسا اوقات سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا ہے یہی درخت ہی سانس کو رواں رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔

سڑکیں ضرورکشادہ ہونی چاہئیں لیکن اگر ان ترقیاتی کاموں میں ٹھیکہ دیتے وقت یہ شرط بھی رکھ دی جائے کہ جتنے درخت کاٹے جائیں گے اس سے دوگنے درخت لگائے بھی جائیں گے تو یہ لاہور کے شہریوں کے لیے حکومت کی جانب سے ایک ایسا تحفہ ہو گا جس کو مدتوں یاد رکھا جائے گا جیسے کہ ہم آج تک لاہور کے صدیوں پہلے کے باغبانوں کو یاد رکھتے ہیں جن میں سر گنگا رام اور سر ریواز کا نام سر فہرست ہے جنھوںنے لاہور کی گرم دوپہروں میںشہر کی خوبصورتی کے لیے باقاعدہ فیتے کے ساتھ سڑکوںکی پیمائش کر کے درخت لگائے تھے جن کی ٹھنڈی چھائوں کے مزے ہم آج تک لوٹ رہے ہیں ۔

موسم کو معتدل رکھنے میں ملک کے طول و عرض میں پھیلے جنگلات کا کردار اہم ہے۔ بارشوں کے سلسلے انھی درختوں کے مرہون منت ہیں جہاں پر درختوں کی بہتاب ہو وہاں قدرتی طور پر بارشیں زیادہ برستی ہیں جن سے ہماری پانی کی ضرورتوںکو پورا کرنے میں مدد ملتی ہے ۔شجر کاری کی کیا اہمیت ہے اس کے بارے میں جاپان کے اکیرا میاواکی نامی ایک شخص نے ساٹھ سال کی تحقیق کے بعد درخت اگانے کا ایک ایسا منفرد تصور دنیا کے سامنے پیش کیا جس پر آج ہم عملدرآمد کر رہے ہیں۔

میاواکی طریقہ کار کے تحت جس علاقے میں شجر کاری کا منصوبہ بنایا جائے وہاں پر اسی علاقے میں پھلنے پھولنے والے پودوں کو فوقیت دینا لازمی ہے کہ ان کی افزائش بہت جلد ہوتی ہے اور کم جگہ پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جا سکتے ہیں۔دائروں کی شکل میں لگائے گئے پودوں کو پہلے تین سال تک پانی فراہم کرنا پڑتا ہے جب کہ بعد میں یہ پانی کی ضروریات خود زمین سے ہی پوری کر لیتے ہیں اس طریقہ کار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ درخت عام جنگل کی نسبت دس گنا تیزی سے بڑھتے ہیں۔ اسی طریقہ کارکواپناتے ہوئے پاکستان میں میواکی جنگلات لگائے جا رہے ہیں تا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے سامنے قدرتی ذریعے سے بند باندھا جا سکے ۔

Leave a Reply