Noshta Dewar Aur Putli Tamasha

نوشتہ دیوار اور پتلی تماشا

اشاروں کنایوں میں ہم نے اپنے گیارہ اگست والے کالم ہی میں عرض کر دیا تھا مگر یہ کم بخت اقتدار چیز ہی ایسی ہے کہ جو اس کی بھول بھلیوں میں ا یک بار داخل ہو جائے پھر اس کی آنکھوں پر خود غرضی اور خود پسندی کی ایسی پٹی چڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ نوشتہ دیوار دیکھنے میں بھی ناکام رہتا ہے ‘ اگرچہ دنیا اس کے انجام سے باخبر ہوتی ہے ‘ اور بالآخر وہی ہوتا ہے جو کہ مقدر میں ہوتا ہے ‘ سقوط کابل کے لمحے بھی ایک بار پھر دنیا بھر نے دیکھے ‘ اشرف غنی کو بھی بے نیل و مرام اقتدار کے سنگھاسن سے اترنا پڑا ‘ ان پر فارسی ہی کی یہ کہاوت پوری طرح صادق آتی ہے کہ ہر چہ دانا کند ‘ کندناداں ۔ علامہ اقبال نے بھی تو کہا تھا نا کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ‘ سو ہم اس صورتحال کو یوں بھی تولے سکتے ہیں کہ کابل کو محفوظ اور مامون(اگرچہ پوری طرح نہیں)رکھنے کے لئے افغانستان کے دیگر صوبوں کے بے گناہوں نے اپنے خون کی قربانی دی اور ایک جانب اگر وہ اپنوں کے ہاتھوں موت کا جام پینے پر مجبور ہوئے تو دوسری جانب غیر ملکی ڈرون اور بمبار طیاروں نے بلا تفریق ”نیک وبد”انہیں زندگی سے محروم کیا’ اور وہ جو تاریک راوں میں مارے جاتے ہیں انہیں بعد میں کون یاد کرتا ہے ‘ بس ایک یادگار تعمیر کرکے اسے یادگار شہداء کا نام دے دیا جاتا ہے ‘ مگر یہاں تو ایسا ہونا بھی ناممکن لگتا ہے کیونکہ دونوں طرف سے مرنے والوں کو اپنے اپنے طور پر شہید کا درجہ دینے سے ”غیر شہید” تو غالباً وہی بے گناہ لوگ ہی ٹھہرائے جا سکتے ہیں جو”ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس” کی طرح کچلے گئے ‘ یعنی عام لوگ ‘ ہاں انہی عام لوگوں میں شاید وہ بے چارہ (غالباً خوشیانام تھا) مزاحیہ فنکار بھی کسی شمار قطار میں نہیں ہو گا’ جسے چند روز پہلے گھر سے اٹھا کر زندگی سے آزادی کا پروانہ تھما دیا گیا اور جس کے ساتھ اس سلوک کی ذمہ داری کسی نے نہیں لی ‘ البتہ بعد میں طالبان نے انکوائری کا عندیہ دیا مگر ہوا کچھ نہیں ‘ کہ وہ بے چارہ تو ”زندگی” کے تلخ شب و روز میں گزر بسر کے لئے اپنے مزاحیہ جملوں ‘ چٹکلوں اور لطیفوں سے عام لوگوں کو محفوظ کرکے حالات کے جبر کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی بن کر رزق تلاش کیا کرتا تھا ‘ اس کی موت کی وجہ بہت حد تک ممکن ہے طالبان کے خلاف کہیں ادا کئے ہوئے چند مزاحیہ اور طنزیہ جملے ہوں ‘ جو بعض حلقوں میں ناگوار گزرے ہوں ‘ مگر ایک کٹھ پتلی کے چند جملے برداشت نہ کرنے والوں سے آنے والے دنوں میں باندھی جانے والی توقعات کس حد تک پوری ہونے کے امکانات ہیں ‘ حالانکہ طالبان نے”سقوط کابل” کے بعد عام معافی کا اعلان بھی کر دیا ہے اگرچہ فی الوقت تو کابل کے مکینوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرکے طالبان نے عوام میں اطمینان کی لہر ضرور دوڑا دی ہے تاہم آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ کیونکہ یہ وہ قوم ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال کا ایک مصرعہ بہت مشہور ہے اور جس میں انہوں نے تین قوموں کی خصلت کو واضح کرتے ہوئے ان سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے ‘ اور بد قسمتی سے ہمیں تینوں ہی سے واسطہ رہا ہے ‘ اس کا واضح ثبوت گزشتہ تقریباً چالیس سال کے دوران ہم بھگت چکے ہیں بلکہ بھگت رہے ہیں ‘ کہ وہ جو اردو کا ایک محاورہ ہے کہ جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنا ‘ اس کی وضاحت کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ پہلے طالبان کو ”اپنے بچے” قرار دینے کے بعد جس طرح ہم سے آنکھیں پھیر کر یہ لوگ”طوطا چشمی” کی تفسیر بنے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ‘ اور پھر اشرف غنی کو ایک کٹھ پتلی بنا کر کابل پر”مسلط” کیا گیا اس حوالے سے تو گزشتہ روز دنیا نیوز سے انٹرویو میں میجر(ر) محمد عامر کے انکشاف کے بعد تو کوئی شک و شبہ ہی نہیں رہ جاتا کہ کیسے اشرف غنی کے لئے ووٹوں سے بھرے بکسے بھجوائے گئے ‘ یہ انٹرویو بھی اور اس کے مندر جات بھی بعض وی لاگرز کے پروگراموں میں وائرل ہیں ‘ تاہم اس سے یہ بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ اشرف غنی جیسی کٹھ پتلیاں کب تک قوموں پر مسلط کی جا سکتی ہیں اور آخر ایک نہ ایک روز ان کا انجام دنیا دیکھ ہی لیتی ہے ‘ جبکہ اشرف غنی نے بھی ہمارے ساتھ کئے ہوئے وعدے نبھانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ‘ انہوں نے مبینہ طور پر اقتدار میں لائے جانے کے لئے یہ وعدہ کیا تھا کہ افغانستان کے وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کے جو وفود باہر جا کر معاملات طے کرینگے ان کے ساتھ مشیروں کے طور پر پاکستان کے متعلقہ حکام جائیں گے مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد نہ صرف اپنے وعدے کا پاس نہیں کیا بلکہ بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ‘ جبکہ ہم نے بھی اس نصیحت پر غور نہیں کیا کہ ایک سوراخ سے ڈسے جانے کے بعد دوبارہ وہاں”ہاتھ” نہیں ڈالنا یعنی طالبان کے رویئے اور اشرف غنی کے کردار میں کیا فرق تھا؟ اس پر ہم نے سوچا ہی نہیں رہ گئے دوسرے یعنی عبد اللہ عبد اللہ ‘ امر اللہ صالح وغیرہ تو ان سے کسی خیر کی توقع کیسے کی جا سکتی تھی کہ وہ تو کابل میں بھارت کے دوستوں اور پاکستان کے دشمنوں کا کردار ایک عرصے سے ادا کر رہے تھے بہر حال اب کابل کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی حالت بالکل اس شعر کی مانند ہے کہ
تنہا کھڑا ہوں میں بھی سر کر بلائے عصر
اور سوچتا ہوں میرے طرفدار کیا ہوئے؟
مقام شکر ہے کہ اب کی بار طالبان کو بھی احساس ہے کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں ‘ یعنی سابقہ دور میں انہوں نے کابل پر قبضہ جما کر ڈاکٹر نجیب کے ساتھ جو”ناروا سلوک” کرکے دنیا کی آنکھوں میں اپے لئے ناپسندیدگی پیدا کی تھی ‘ اب اشرف غنی اور دوسرے حکمرانوں کا وہ حشر نہیں کیا گیا ‘ بلکہ انہیں آسانی سے فرار ہونے کا موقع دیا ‘ کابل کی”تربیت یافتہ” فوج جس طرح ریت کی دیوار بن کر ڈھیر ہو گئی اس کے بعد دوستم جیسے وار لارڈز کو کم از کم اپنے سینے پر سجے شمار تمغے کسی کباڑی کی دکان پر برائے فروخت کی تختی لگا کر کوڑیوں کے دام بیچ دینے چاہئیں ۔ پتہ نہیں اتنے”تمغوں” کے وزن کے ساتھ وہ کیسے بھاگے ہوں گے ‘ تفوبر تو اے چرخ گردوں تفو ۔ بقول احمد فراز
میں کہہ رہا تھا رفیقوں سے جی کڑارکھو
چلا جو درد کا ایک اور تیر ‘ میں بھی نہ تھا




Leave a Reply