Kiya Urdu Zaban Zinda Reh Sake Gi (Akhri Qisat)

کیا اردو زبان زندہ رہ سکے گی! (آخری قسط)

آج ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اسے بڑے منظم طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے،اس لیے کہ ہندوتوا کے علمبردار جانتے ہیں کہ اردو نے مسلمانوں کو ان کے گرانقدر دینی، تاریخی اور ادبی ورثے سے جوڑ رکھا ہے، مسلمانوں کا ان کے ورثے سے رشتہ توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ اردو زبان ہی کو ختم کر دیا جائے۔




چنانچہ وہاں مودی حکومت کی سرپرستی میں اردو زبان کوہندی سے بدلنے کی مذموم سازش پر عمل ہو رہا ہے مگر پاکستان میں اربابِ بست و کشاد کا اردو کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں ہے اور وہ اس کا اصل مقام دینے سے چشم پوشی کیوں کررہے ہیں؟

کچھ دوست علاقائی زبانوں کی بات کرتے ہیں، اکثر یتی صوبے کی زبان پنجابی ہے کیا باقی صوبے پنجابی کو قومی زبان مان لیتے؟ہرگز نہیں۔ ملک کے تمام حصوں کے لیے قابلِ قبول زبان صرف اور صرف اردو ہے۔ اسلام کے بعد اردو ہی تمام صوبوں کی زنجیر ہے لہٰذا بانی پاکستان نے اردو کو قومی زبان قرار دینے کا جو فیصلہ کیا تھا، وہ درست تھامگر قائدؒ کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اردو کو قومی زبان کے طور پر نافذ کرنے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا۔
بہرحال اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت، میڈیا اور عوام کا باشعور طبقہ قومی زبان کی اہمیت کا ادراک کریں اور اسے زندہ رکھنے اور اس کا اصل مقام دلانے کی مخلصانہ کوشش کریں۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت بے حس بھی ہے اور اس کی ترجیحات بھی مختلف ہیں اور آجکل تو وہ صرف اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، اس لیے اس سے توقعات وابستہ کرنا بے سود ہے۔ لیکن میڈیا اور قوم کے بااثر طبقوں اور اداروں کو اردو کے تحفظ کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں چند قابلِ عمل تجاویز پیش کررہا ہوں:۔

٭سب سے اہم اور موثرکردار میڈیا ادا کرسکتا ہے۔ پی ٹی وی اور پرائیوٹ چینلز پر اردوپڑھنے اور لکھنے کے بارے میں زبردست مہم چلائی جائے اور ہر شعبے کی معروف اور آئیڈیل شخصیات کے مختصر پیغام نشر کیے جائیں مثلاً ’’اردو ہماری قومی وحدت کی علامت ہے، اپنے بچوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا سکھائیے‘‘۔ ’’ہماری قومی زبان ہمارا فخر ہے، نئی نسل کو اردوپڑھنے اور لکھنے کی جانب راغب کیجیے‘‘۔ والدین کو Sensitise کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا ضرور سکھائیں۔ اس کے علاوہ اردو کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے مذاکرے اور دیگر شوز منعقّد کیے جائیں۔

٭والدین اپنے بچّوں میں ’’تعلیم و تربیّت‘‘ اور ’’نونہال‘‘ جیسے رسالے پڑھنے کا شوق پیدا کریں۔ اس کے بعد انھیں دلچسپ کہانیوں کی کتابیں اور پھر ٹین ایجر بچوں کو تاریخی ناول اور مشاہیر کی آپ بیتیاں خرید کر یا لائبریری سے لا کر دیں اور انھیں پڑھنے کی جانب راغب کریں۔ والدین ان کتابوں کے بارے میں بچوں کے ساتھdiscussionبھی کریںاور کوئی بھی کتاب ختم کرنے پر بچے کو نقد انعام بھی دیں۔

٭اساتذہ اس سلسلے میں بڑااہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پرائمری سے لے کر ہائر سیکنڈری یا انٹرمیڈیٹ تک کے طلباء کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جائے، ان میں بیت بازی اور مضمون نویسی کے مقابلے اور اردو کے مختلف موضوعات پر تقریری مقابلے اور مباحثے منعقد کیے جائیں اور نمایاں پوزیشنیں حاصل کرنے والوں کو نقد انعامات دیے جائیں، اس سے طلباء میں مختلف موضوعات پر اردو کی کتابیں اورمضامین پڑھنے کا شوق پیدا ہوگا۔ اساتذہ میٹرک کے طلباء کو مہینے میں ایک اور انٹرمیڈیٹ کے طلباء کو دوہفتوں میں ایک کتاب پڑھنے کا ہوم ورک دیں اور ان سے کتاب پر تبصرہ بھی لکھوائیں اور اس پر کلاس میںبحث کی جائے۔ تمام طلباء باری باری اسٹیج پر آکر اپنی کتاب پر تبصرہ کریں، اس سے ان میں کتب بینی کا ذوق پروان چڑھے گا ۔

٭تمام انگلش میڈیم اسکولو ں پر لازم ہو کہ وہ اردو سرکاری اسکولوں کے نصاب کے مطابق پڑھائیں۔ او لیول اور اے لیول کرانے والے انگریزی اسکولوں کو پابند کیا جائے کہ وہ او لیول میں اردو کا مضمون میٹرک کے نصاب والا اور اے لیول میں انٹرمیڈیٹ کے نصاب کے مطابق اردو کا مضمون پڑھائیں۔

٭حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بلاتاخیر اردو کو دفتری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرے۔ چیف جسٹس آف پاکستان ماتحت عدالتوں کو ہدایت جاری کریں کہ یکم جنوری 2022سے تمام فیصلے اردو میں تحریر کیے جائیں گے۔

٭نئی نسل کو اردو کی جانب راغب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اردو کو حصولِ روزگار کی زبان بنایا جائے۔ میں پھر اپنا مطالبہ دھراؤنگا کہ سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات میں اردو کا لازمی پرچہ ، پاکستان افیئرز اور اسلامیات کے لازمی پرچے صرف اردو میں حل کرنے کی پابندی ہو۔سول اور عسکری تربیتی اداروں میں لیکچرز اردو میں ہونے چاہئیں۔ سینئر ملٹری افسران بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں ۔

٭غیر سرکاری تنظیمیں ہر ضلع اور ہر تحصیل کی سطح پر اردو کتابوں کے میلے منعقد کریں اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ ادبی مجالس اور مشاعرے منعقد ہوں، اس سلسلے میں مقامی انتظامیہ اور صنعت و تجارت سے وابستہ افراد کا تعاون حاصل کیا جائے اور اردو میں اچھی نثر یا معیاری نظم یا غزل تخلیق کرنے والوں کو فراخدلی سے انعامات دیے جائیں۔

٭ہمارے برقی میڈیا کے نزدیک رول ماڈل یا تو کوئی اداکار یا کامیڈین ہے یا کوئی ڈانسر ۔ کیا ہم نے نئی نسل کو صرف اداکار اور رقاص بنانا ہے؟ ٹی وی پر اعلیٰ پائے کے استادوں، سائینسدانوں، انجینئروں، شاعروں، ادیبوں اور تخلیق کاروں کو رول ماڈل کے طور پر پروجیکٹ کیا جائے۔

٭ملک کے معروف اور محب وطن شاعر جناب انور مسعود صاحب نے میرا پچھلا کالم پڑھ کر فون کیا اور فرمانے لگے،’’ اپنی قومی زبان کے نفاذ اور ترویج کے سلسلے میں زبردست مہم چلنی چاہیے جس میں اردو سے محبت کرنے والے ہر شخص کو بھرپور حصہ لینا چاہیے۔‘‘ پھر کہنے لگے کہ ’’کتنے دکھ کی بات ہے کہ سرکاری ملازم دو دن کی چھٹی لینے کی درخواست بھی اپنی قومی زبان میں نہیں لکھ سکتے۔ دُرفٹے منہ ہے ایسے احساسِ کمتری پر‘‘۔

آخر میں سینٹرل ایشیا کے علاقے داغستان کے مشہور عوامی شاعر رسول حمزاتوف کی تحریر کردہ ایک کہانی سُنیے، وہ لکھتے ہیں،’’پیرس میں میری ملاقات ایک مصور سے ہوئی جو داغستانی تھا ۔ کمیونسٹ انقلاب کے کچھ ہی دنوں بعد وہ تعلیم کی غرض سے اٹلی چلا گیا ، وہیں اُس نے ایک اطالوی خاتون سے شادی کر لی اور ہمیشہ کے لیے وہیں بس گیا۔ اُس نے دور دراز ملکوں میں دل بہلانے کی کوشش تو کی مگر جہاں بھی گیا وطن کی یاد اور اپنے وطن سے جدائی کا احساس سایہ کی طرح اس کے ساتھ رہا ۔

اس کی ایک تصویر میں پہاڑ کی چوٹیاں گہر میں ڈوبی ہوئی تھیں ’گہر پہاڑ کے آنسو ہیں‘‘۔مصور نے وضاحت کی،’’گہر جب ڈھلوان پر چھا جاتی ہے تو شبنم کا روپ لے کر صاف شفاف قطروں کی صورت میں ڈھلکتی نیچے گہرائیوں میں جاگرتی ہے‘‘۔ پھر کہنے لگا،یہ گہر میں ہوں‘‘۔ میں نے پوچھا، ’’آپ اپنے وطن کیوں نہیں لَوٹ جاتے‘‘؟ کہنے لگا،’’اب بہت دیر ہوچکی ہے، اب اپنی بوڑھی ہڈیاں لے کر اپنے وطن کیا منہ دکھانے جاؤںگا۔‘‘

پیرس سے واپسی پر میں نے مصور کے عزیزوں کو تلاش کیا۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس کی ماں ابھی تک زندہ ہے۔ اس کے عزیزوں میں یہ جان کر مسرت کی لہر دوڑ گئی کہ ان کا کھویا ہوا بیٹاابھی زندہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی ماں سب سے زیادہ خوش تھی، ماں نے بیٹے کی شکل و صورت کے بارے میں کئی باتیں پوچھیں اور جواب سنکر بہت خوش ہوئی کہ مصور اسی کا بیٹا ہے اور اب وہ اپنے کھوئے ہوئے بیٹے سے مل سکے گی۔ پھر اچانک اس کی ماں نے مجھ سے سوال کیا ’’اُس نے تم سے بات چیت تو اپنی داغستانی زبان میں ہی کی ہوگی نا؟‘‘ نہیں ’’ہم نے ترجمان کے ذریعے بات چیت کی۔

میں روسی بول رہا تھا اور آپکا بیٹا فرانسیسی‘‘ میں نے جواب دیا۔یہ سنکر ماں نے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال لیا، جسطرح ہمارے پہاڑوں میںبیٹے کی موت کی خبر سنکر مائیں کیا کرتی ہیں۔ ایک طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا ’’رسول تم سے غلطی ہوئی…جس سے تم ملے ہو وہ میرا بیٹا نہیں ہوسکتا، کیونکہ میرا بیٹا اس زبان کو کبھی نہیں بھلا سکتا جو میں نے… ایک داغستانی ماں نے اسے سکھائی تھی۔‘‘

Leave a Reply