An Dekhe Khawab

اَن دیکھے خواب

مشیر خزانہ کہتے ہیں کہ عوام کو ابھی مزید مہنگائی برداشت کرنی پڑے گی، پٹرول کی قیمتیں تو پہلے ہی اپنی انتہاؤں کو چھورہی ہیں لیکن ابھی بجلی کی قیمتوں میں پانچ روپے فی یونٹ اضافے کی خوشخبری بھی جلد ملنے والی ہے۔




ادھر وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ عالمی سطح پر مہنگائی کے باوجود پاکستان میں مہنگائی کو بہتر طریقے سے کنٹرول کیا گیا ہے یعنی اتنی مہنگائی نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیے۔وزیر اعظم نے چند روز پہلے عوام کے لیے مہنگائی ریلیف پیکیج کا بھی اعلان کیا ہے جس سے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تقریباً ڈھائی کروڑ لوگ مستفید ہوں گے ۔

چینی کی قیمتوں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پرجو کھلواڑ ہو رہا ہے وہ اس کے علاوہ ہے اور حکومتی تاویلیں ہیں کہ شوگر ملیں اپوزیشن کی ہیں جو مصنوعی ذخیرہ اندوزی سے چینی مہنگے داموں فروخت کر رہی ہیں ۔ چلویہ بات مان لیتے ہیں کہ زیادہ تر شوگر ملیں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی ہیں لیکن حکومت تو تحریک انصاف کی ہے جو احتساب کے معاملے میں بڑے بڑے دعوے کرتی ہے۔
وہ ان شوگر مل مالکان کو احتساب کے شکنجے میں لا سکتی ہے لیکن ابھی تک اس معاملے میں حکومت کی جانب سے کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی اور اب وزرا حضرات عوامی سطح پر چینی کے بائیکاٹ کی باتیں کررہے ہیں اور نصیحت کی جارہی ہے کہ چینی کے بغیر بھی زندگی گزر سکتی ہے اور شاید بہتر گزر سکتی ہے کیونکہ سفید چینی اپنے اندر بے شمار خرابیاں سموئے ہوئے ہے۔

عوام تو عوام ہوتے ہیں لیکن ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں میں خواص کی بھی اپنی ایک الگ منٹیلٹی ہوتی ہے اور ہمارے ان خواص کو ملک کی معاشی صورتحال کا پتہ ہوتاہے ، وہ حتیٰ الامکان اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ملک کے معاشی حالات جیسے بھی رہیں،ان کی ذاتی معیشت ترقی کرتی رہنی چاہیے، اس لیے وہ اپنی معیشت کو درست رکھنے کے لیے ملک کی معیشت کو داؤ پرلگانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔

مثلاً جب بھی ضرورت پڑتی ہے عوام کی روز مرہ ضرورت کی کسی چیز پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے، کوئی یوٹیلٹی بل اچانک بڑھ جاتا ہے ، لیکن امراء کو کوئی فرق نہیں پڑتا جب کہ سرکار کے ملازم بلکہ عوام پر لگائے گئے انھی ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے پیسے کو اپنی تنخواہوں، الاونئس اور دیگر مراعات میں استعمال کرکے شاہانہ لائف اسٹائل برقرار رکھتے ہیں اور ان کے گلشن کا کاروبار چلتا ہی نہیں دوڑتا ہے۔ ان کی سج دھج وہی رہتی ہے جو ہمیشہ سے تھی لیکن اب یہ سج دھج ملک کی توفیق اور استطاعت سے باہر ہوتی ہے۔

چاروں صوبوں بشمول آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام دعا مانگ رہے ہیں ے کہ کوئی عالم غیب سے آئے اور اس لوٹ مار کو بند کر دے۔ موجودہ حکومت کے حالیہ ڈھائی تین سال میں یہی سنتے آرہے ہیں کہ اپوزیشن کے سیاستدانوں نے لوٹ مار کی ہے اور یہ لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنے کی خوش کن خبریں سنائی جاتی رہیں لیکن معاملہ مقدمات تک محدود ہے جب کہ جن کاروباری لوگوں سے نیب نے وصولی کہ ہے، وہ چند ارب روپے تک ہی محدود رہ گئی، اس موقعے پر پنجابی کی ایک مشہور مثل یاد آتی ہے کہ ’’چوراں دے کپڑے ڈانگاں دے گز‘‘ (چور ڈانگ کے زور پر کپڑے لوٹ کر لے آتے تھے اور اس لوٹ مار کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے اپنی ہی ڈانگوںکے گز بنالیتے ہیں)۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس ملک کے حکمران بیرونی ممالک سے وصول کردہ تحفوں کی تفصیلات بتانے کو قومی راز اورقومی سلامتی گردانتے ہوں، ان کے ساتھی ڈانگوں کے گز استعمال کریں تو کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ جب کوئی ہاتھ روکنے والا ہی نہیں ہے تو کیوں نہ بڑا ہاتھ مارا جائے اور جہاں تک ضمیر وغیر ہ کا تعلق ہے تو یہ مر چکا ہے اور حب الوطنی صرف الفاظ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہر لیڈر اور ہر حکمران ایک سے بڑھ کر ایک ’’محب وطن‘‘ ہے، یہ سب محب وطن ہیں تو عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ پھر وہ کون لوگ ہیں جو کرپٹ ہیں ۔

پاکستان میں اس طرح کے حالات کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہیں، ہر دور میں معیشت کا حال دگر گوں ہی رہا ہے ۔ میرے مرحوم والد انھی حالات کو دیکھ کر علامہ اقبال کا ایک شعر اکثر سنایا کرتے تھے ۔

گماں مبر کہ بہ پایاں رسید کار مغاں

ہزار بادہ ناخوردہ دررگ تاک است

یہ گماں مت کرو کہ مے خانے کے پیر مغاں کا کام ختم ہو چکا ہے، ابھی تو انگور کی شاخ کی رگوں میں ہزاروں جام باقی ہیں جو پئے جانے کے منتظر ہیں۔ پاکستان بھی انگور کی وہ شاخ ہے جس کی رگوں میں سے نہ جانے کتنے جام چھلکنے کو بے تاب ہیں اور ہماری اشرافیہ ان جاموں کو ستر برسوں سے پئے جارہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا کوئی فضل اور کرم ہے کہ یہ ملک کسی نہ کسی طرح چل رہا ہے، ہر آنے والا حکمران اپنا چورن بیچ کر چلا جاتا ہے،کوئی قرض اتارنے اور ملک سنوارنے کی بات کرتا ہے تو کوئی نیا پاکستان اور ریاست مدینہ کے خوب دکھاتا ہے۔ ایک ہم عوام ہیں جو خواب دیکھے جارہے ہیں اور اَن دیکھے خوابوں کو اپنی تقدیر کا جام سمجھ کر پئے جارہے ہیں۔

Leave a Reply