Vison Kay Farmode

وزیروں کے فرمودے

وفاقی وزیر نے اپوزیشن کو انتباہ کیا ہے کہ وہ دھرنے یا لانگ مارچ کا خیال دل سے نکال دے۔ وہ اسلام آباد آئے تو ایسی کٹ (مار) پڑے گی کہ نسلیں یاد کریں گی۔ اسی طرح جیسے عوام کو تین سالہ کٹ لگائی ہے؟ اور ان کی بھی نسلیں یاد رکھیں گی یا پھر اسی طرح جیسے لبیک والوں کو کٹ لگائی تھی اور کٹ کی یادگار کے طور پر ایک معاہدہ بھی کرلیا تھا؟ یا اور بھی کوئی طریقہ ہے؟ وزیر نے مزید فرمایا کہ میڈیا میں اپوزیشن کے سہولت کار بھی سدھر جائیں۔ ان سدھر جائیں کے الفاظ کے بعد ورنہ کا لاحقہ لگانا وزیر موصوف بھول گئے یا انہوں نے سمجھا کہ میڈیا کو بھی جو تین سال تک کٹ لگائی ہے، وہی کافی ہے۔ اس لیے ورنہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ ایک اور وفاقی وزیر نے جو پی آئی اے کو فتح کر چکے ہیں اوراس کا سدا بہار تمغہ اپنے سینے پر آویزاں کروا چکے ہیں۔ فرمایا کہ نوازشریف وطن واپس آئے تو تابوت میں بند ہو کر ہی آ سکیں گے ۔ اب تک تو یہی سنا تھا کہ کس نے کب مرنا ہے۔ یہ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن وفاقی وزیر صاحب کے اعلان سے پتہ چلا کہ وہ بھی صاحب کشف ہیں اور انہیں بھی کشف ہوا ہے۔ دیکھئے یہ کشف کب پورا ہوتا ہے یا پردہ غیب سے کچھ اور ظاہر ہوتا ہے۔ ابھی چند ہی روز پہلے سنا تھا کہ گیارہ نمبر کی گیارہ تاریخ کو گیارہ بجے یعنی ٹرپل الیون کے وقت مشترکہ اجلاس بلایا جائے تو فتح کامل کا نقارہ بج جائے گا ۔چنانچہ اعلان کر دیا گیا لیکن پھر چند ہی گھنٹے بعد پتہ چلا کہ ستر پنچھی غائب ہیں۔وزیر موصوف صاحب اس کشف کی ناکامی کے اسباب کا جائزہ پیش فرمانے کی زحمت گواراہ کریں گے؟ ٭٭٭٭ اپنی جماعت کی کور کمیٹی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ارکان کو ہدایت کی کہ وہ مت گھبرائیں‘ ارکان کے چہروں پر گھبراہٹ دیکھ کر ہی یہ ممانعت فرمائی ہوگی۔ ارکان کے چہروں پر گھبراہٹ کیوں تھی؟ یہ راز اندرونی کہانی بیان کرنے والوں نے بیان نہیں فرمایا۔ ویسے گھبرانے کا بوجھ تو وزیراعظم نے تین سال سے عوام کے کندھوں پر ڈال رکھا ہے‘ ارکان صاحب‘ آپ کیوں گھبرا گئے۔ آپ تو عوام نہیں تھے۔ وزیراعظم نے ارکان سے شکوہ کیا کہ وہ باہر نکل کر عوام کو کیوں نہیں بتاتے کہ حکومت ان کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کچھ کر رہی ہے۔ اس شکوے میں حکم بھی پنہاں تھا کہ جائو‘ باہر نکلو اور عوام کو بتائو۔ ٭٭٭٭٭ سنا ہے کہ ارکان ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اور پس منظر میں مناڈے کی آواز گونجنے لگی‘ ذرا سی ترمیم کے ساتھ۔ لا کے دامن میں داغ‘ باہر جائیں کیسے جا کر پبلک کو مکھڑا دکھائیں کیسے۔ ویسے وزیراعظم صاحب کو یہ بتانے کی ضرورت ہے ۔عوام کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ حکومت نے ان کے لیے کیا کیا۔ بلکہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کے ساتھ کیا کچھ کیا‘ ان کے ساتھ کیا نہیں کیا۔ اور صحیح تو یہ ہے کہ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں، جس تن لا گے وہ تن جانے کے مصداق عوام کو اچھی طرح پتہ ہے کہ حکومت نے ان تین برسوں میں ان کے ساتھ کیا کچھ کیا۔ کیسے کیسے کیا اور کب کب کیا اور اب تو وہ مضیٰ ما مضیٰ کے انتظار میں ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک اور نامی گرامی وزیر ہیں جو ہر تیسرے مہینے قوم سے وعدہ کرتے ہیں کہ آج سے سچ بتاوں گا۔ آج سے طے کر لیا ہے کہ کل سے سچ بولوں گا۔ انہوں نے فرمایا کہ اگلے تین ماہ بہت اہم ہیں البتہ ان تین مہینوں میں ہوگا کچھ نہیں۔ تین ماہ پھر بہت اہم کیسے ہوئے، جب ان میں کچھ ہونا ہی نہیں؟ بڑا معقول سوال ہے۔ یا پھر شاید بلکہ شاید یقینی بات یہ لگتی ہے کہ اگلے تین مہینوں میں جو کچھ ہونے والا ہے۔ وزیر مذکور کے خیال میں وہ اہم نہیں اور وہ کچھ بھی نہیں کے زمرے میں آتا ہے۔ یعنی جو کچھ ہونے والا ہے‘ اس کے بعد وہ کہیں گے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں‘ کچھ خاص نہیں ہوا‘ ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے‘ بہتر برسوں سے معمولکی بات ہے۔ اور اس معمول کی بات کے بعد وزیر صاحب حسب معمول سابق جماں جنج نال ہو جائیں گے۔ واللہ اعلم یا پھر اصحاب روحانیات کچھ بتا سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مزید براں کی ذیل میں ایک اور ہونہار وزیر بھی آتے ہیں۔ حماد اظہر ان کا نام ہے اور ہفتہ واری بنیادوں پر عوام کو یہ اطلاع دینا ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ خوشحالی ہر جگہ دھمال ڈال رہی ہے۔ معیشت درست کر دی گئی ہے‘ ملک ترقی کے راستے میں چل پڑا ہے اور کوئی بحران نہیں ہے جسے ان کے خان نے حل نہ کر دیا ہو۔ دو روز گزرے‘ انہوں نے عوام کو یہ سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے کہ آئندہ صارفین کو تین وقت گیس ملا کرے گی۔ باقی اوقات گیس بند رہے گی۔ ایک ناشتے کے وقت‘ ایک دوپہر کے وقت اور تیسری بار رات کے کھانے پر۔ ان میں سے دو نہیں تو ایک سہولت فالتو ہے یعنی غیر ضروری ہے۔ اس لیے کہ صارفین کی بڑی اکثریت اب تین وقت کھانا بنانے کے قابل نہیں رہی۔ محض دو وقت انہیں گیس کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک تعداد وہ ہے جو صرف ایک وقت کھانا بنانے کے قابل رہ گئی ہے۔ وزیر خوشحالی سے گزارش ہے کہ ایک فالتو وقت کی فالتو سہولت واپس لے لیں۔ دو بار کی سہولت دن میں کافی ہے‘ فضول خرچی سے بچیں۔




Leave a Reply