Tasurat o Haqaiq Ki Dunya

تاثرات و حقائق کی دنیا

زندگی میں ہر آدمی ہر مسئلے پر تاثرات اور حقائق کے مابین فرق کی بنیاد پر تذبذب کا شکار رہتاہے ۔ ایک بچہ بھی اس تذبذب میں اپنے بڑوں کی مانند مبتلا رہتاہے ،یہ مسئلہ بھی آدمی کی زندگی کے ساتھ روز ازل سے وابستہ رہا ہے۔ زمانہ جاہلیت میںبچی اس باپ کی گود میںاسی طرح ہنستی کھیلتی رہتی تھی جواُسے زندہ گاڑنے کیلئے آبادی سے دُور لے جارہاہو تاتھا ۔ آج بھی بھوکے بچے اسی طرح ماں کے اردگرد منڈلاتے نظر آتے ہیں جو اپنی غربت اور لاچاری چھپانے کے لئے وقتی طور پر چولہے پر خالی ہانڈی چڑھاکے رکھتی ہے ۔آج بھی بیٹیا ںاس باپ کے ساتھ خوشی خوشی اس کا ہاتھ پکڑے نہر کے پُل کی طرف جاتی ہیں جہاں ان کے باپ نے خودکشی سے پہلے انھیں نہر میں پھینکنا ہوتاہے۔ اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں عشق ومحبت کے ہاتھوں ایک دوسرے کے ساتھ ازدواجی رشتے میں بندھ جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد محسوس کرنے لگ جاتے ہیں کہ حقیقت وہ نہیں ہے جس کا تاثر قائم کیا گیا تھا۔ تاثرات اور حقائق کے درمیان فرق سے لاعملی صرف بچو ں اور نوجوان جوڑوں تک ہی محدود نہیںہے ،یہ لاعلمی بڑے بوڑھوں سبھی تک پھیلی ہوئی ہے انسان ہمیشہ سے سم ورواج ،شادی بیاہ او رسوگ وغم کے بکھیڑوں میںپھیلا ہوا ہے۔ تاثرات اور حقائق کے درمیان فرق سے لاعلمی یا چشم پوشی کا مسئلہ سیاست ،عدالت ،تعلیم وتربیت ،صحت اور کھیل کود سے لے کر صحافت اور محراب ومنبر تک اس طرح پھیلا ہواہے کہ لگتاہے جیسے ہر شخص اسکے شکنجے میں پھنسا ہوا نظر آتاہے ۔ ایسا اسلئے ہے کہ آدمی ہر بات اور ہرچیز کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتا ہے اس کا موضوعی انداز مشاہدہ اسے معروضی حقائق کو صحیح طورپر دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر رکھتاہے۔ موضوعی انداز ذاتی پسند ناپسند ، فائدے اور نقصان خوشی اور غم اور جیت اور ہار کے زایوں سے باہر نکل ہی نہیں سکتا۔ آدمی کے ان ذاتی زایوں کے پیچھے حقیقت حال چھپی رہتی ہے۔آدمی اسی کوحقیقت سمجھ بیٹھتا ہے جس کا وہ تاثر قائم کرتاہے، لوگوں کی واضح اکثریت ہر معاملے میں اپنے قائم کردہ تاثرات کی قید سے نہیں نکل سکتی۔ اس کیفیت کو قرآن نے زبان رکھنے والے گونگے ،کانوں کے ہوتے ہوئے بہرے اور بڑی بڑی آنکھوں والے ہونے کے باوجود اندھوںسے تعبیر کیا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ برے کو ہر چیز میں برائی نظر آتی ہے اور اچھے کو ہر بات میںاچھائی یہ مسئلہ صرف ہماری قوم یا ملک تک ہی محدود نہیں ہے دنیا بھرکو مہذب اور متمدن بنانے والی قومیں اور ملک ہم سے زیادہ تاثرات اور حقائق کے درمیان فرق کے ادراک سے قاصر رہتے ہیں۔ دنیا کے سارے بڑے بڑے ادارے جو اتارچڑھائو میںفیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیںوہ بھی اپنی یکطرفہ اخلاقیات ہی کو نافذ کرنے کی چاہ میںمگن رہتے ہوئے ضر ورتمنداور ترقی پذیر ممالک کے مسائل میں بغیر کسی احساس ندامت کے بے پناہ اضافہ کرنے میںمصروف رہتے ہیں۔کیا اقوام متحدہ کو اس فرق کا ادراک ہے؟ کیا ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور فیٹف ہر ملک کے اچھے اور برے کردار سے واقف ہونے کے باوجود اپنی موضوعی سوچ کے تحت ہی ساری شرائط پوری کرنے والے پاکستان جیسے ملکوں کو اپنی گرفت سے باہر نکلنے دیتے ؟ کیا اقوام متحدہ کو کشمیر اور فلسطین پر ڈھائے جانے والے ستر سالوں پر محیط ظلم نظر آتے ہیں؟ کیا مہذب اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کو افغانستا ن پر بھوک اور پیاس کے منڈلاتے خطرات نظر آرہے ہیں؟ کیا ان کے لئے کوئی موثر آواز اٹھتی ہے؟ کیا افغانستان کے بھوکے ننگے لوگوں کی چیخ وپکار اُن بین الاقوامی طاقتوروں کو سنائی دیتی ہے؟ صرف لوگ ہی اندھے ،گونگے اور بہرے نہیں ہوتے قومیں ملک اور ادارے بھی اندھے ،گونگے اور بہرے ہوتے ہیں۔ لوگ ایسے کیوں ہوتے ہیں ؟ لوگوں کو کون ایسا کردیتا ہے ؟ حقائق کیوں چھپائے جاتے ہیں اور کون لوگ حقائق چھپاتے ہیں؟ تاثرات کون قائم کرتاہے ؟ لوگ اپنے مفادات کے لئے حقائق چھپاتے ہیں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے حقائق چھپائے جاتے ہیں بہت ساری چیزوں اور باتوں کی وجہ سے حقائق کو چھپایا جاتاہے ظاہر ہے حقائق کے چھپ جانے سے ایک برعکس تاثر قائم ہوتاہے وہ تاثر قائم ہوتاہے جس سے مفادات کا تحفظ ہوسکے گلوخلاصی ہوجائے سزائوں سے بچا جاسکے بھرم قائم رہے اور شرمندگی کوسوں دُور ہوجائے۔ جو باتیں لوگوں کو اندھا ،گونگا اور بہرہ کرتی ہیں ان میں ،نفرتیں ،محبتیں ،وفاداریاں اور دشمنیاں اقتدار کی ہوس ،شہرت نام ونمود کی تمنا ،زن زر اور زمین کا حصول اور ان سب سے بڑھ کر اپنے انہی احساسات اور خواہشات کے تحت مخالفوں کو ذلیل ورسوا کرنا شامل ہیں۔ جب فساد پھیل جاتاہے تو فساد پھیلانے والوں کی عید ہوجاتی ہے کسی کی بھوک کسی کی عیاشی بن جاتی ہے، کسی کا خون کسی کی زندگی کی ضمانت بن جاتا ہے ،کسی کا سچ کسی کے جھوٹ کی جیت بن جاتاہے ، کسی کی شکست کسی کی فتح میںتبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ سب کا م وہی لوگ کرتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ اُن کی پہچان مخفی رہے ان کا اصلی چہرہ چھپا رہے ۔ فسق وفجور پر مبنی ان کا بھرم قائم رہے ۔کتنے بدقسمت اور بدبخت ہوتے ہیں وہ لوگ جو ایک بہروپئیے کی حیثیت سے زندہ رہتے ہیں اور اپنی اسی پہچان کیساتھ قبروں میںچلے جاتے ہیں ناخدا ہی ملا نا وصال صنم نہ ادھر کے رہے نا اُدھر کے رہے کیا آدمی اندھا بہرا اور گونگا جان بوجھ کر بنتاہے؟ اس سوال کا جواب غالب کے اس شعر میں تسلی بخش حد تک دیا جاچکاہے جانتا ہو ثواب طاعت وزہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی اس طبیعت کااصل نام خوف ،بھرم ، خود پسندی ، خوش فہمی ، نفرت ، بغض ، عنا د وحسد، دغا اور فریب ، تکبر اور نخوت ،ظلم اورجھوٹ ہے ۔ یہ سب چیزیں یا طبیعت پر حاوی رہتی ہیں یا پھر طبیعت اُن پر بھروسہ کئے بغیر رہ نہیں سکتی ۔ طبیعت ان سب اجزا کامجمو عہ ہوتی ہے ۔ان میں سے کوئی ایک جز کسی ناکسی وقت کسی نا کسی کیفیت میں طبیعت کے دیگر تمام اجزا پر حاوی رہتاہے ۔ اسی حالت میں آدمی کی انکھیں بصا رت سے محروم ہوجاتی ہیں ، کان سماعت سے قاصر ہوجاتے ہیں اور زبان بولنے سے عاری ہوجاتی ہے ۔ آدمی کی طبیعت حقائق پر حاوی ہوکر اُن کی اس طرح تصویر کشی کرتی ہے کہ حقائق اور اُن کے تاثرات کا باہمی تعلق نیست ونابود ہوکر رہ جاتاہے ۔ تاریخ انسانی حقائق پر تہہ در تہہ ڈالے گئے پردوں پر مشتمل ہے تاریخ کے سارے واقعات ناصرف اُس وقت کے لوگ بلکہ ان کے بعد آنے والے سارے لوگ بھی ان واقعات کو اپنی اپنی طبیعتوں کے مطابق پڑھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں ہم زندگی سے عاری مردہ تاریخ کا مطالعہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں ۔ کیوں؟ اسلئے کہ آج بھی ہم اپنی اپنی طبیعت کے مطابق واقعات کو دیکھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں پاکستان کے موجودہ حالات واقعات کا مشاہدہ تاثرات اور حقائق کی دو مختلف دنیائوں کو بیک وقت اپنی اپنی جگہ سمجھنے میںمدگار ثابت ہوسکتاہے۔ یہی تاریخ کا وطیرہ بھی رہاہے ۔




Leave a Reply