Pare Likhe Bewaquf

پڑھے لکھے بیوقوف

بظاہر عقلمند کو بیوقوف سمجھنا ایک نامعقول بات معلوم ہوتی ہے۔بیوقوف،احمق اور نادان کو کہتے ہیں اس لحاظ سے بیوقوفی کا مطلب نادانی ،حماقت ،بے عقلی اور جہالت ہوتے ہیں۔ فیروزالغات کے مطابق عقل ایک مونث لفظ ہے جس کا مطلب دانائی ، فہم ،شعور ،سمجھ اور ادراک بتایا گیاہے۔ ان دوالفاظ کے تعریف اور معنی کے مطابق یہ دومتضاد الفاظ ہیںجو آدمی کے اندر دو مختلف بلکہ ایک دوسرے کے مد مقابل صفات کوظاہر کرتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جیسے جھوٹ اور سچ یکجا نہیںہوسکتے، اسی طرح عقلمند اور بیوقوف یکجا نہیںہوسکتے لیکن یہی وہ مرحلہ ہے جہاں آدمی سے غلطی سرزد ہوتی ہے ، انسان میںجھوٹ اور سچ دونوں کا دخل رہتاہے ، کبھی سچ بولتاہے اور کبھی جھوٹ ،کبھی عقلمند ہوتاہے اور کبھی کبھی بیوقوف ،لوگ گورے بھی ہوتے ہیں اور کالے بھی۔ عادات اور صفات آدمی کی فطرت کا حصہ نہیں ہیں۔ صفات آدمی پر نافذہوجاتی ہیں یا پھر آدمی خودانھیںخود پر نافذکرتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جگہ جگہ متضاد کرداروںکاحامل نظر آتاہے ۔اپنی گفتگواورعمل سے وہ اپنی اچھی یا بری پہچان لمحہ لمحہ ہر مرحلے اور موڑ پر کراتارہتاہے ۔ایک باپ گھر میںشفیق اورمہربان ہونے کے ساتھ ساتھ دفترمیںظالم وجابراور تضحیک آمیز رویوںکا حامل ہوسکتاہے ۔بیوی کے آگے بھیگی بلی بنا رہنے والا شوہر گھر کی دہلیز کے باہر قدم رکھتے ہی کبھی بڑا افسر،سنجیدہ پروفیسر ،مقبول اداکار، لکھاری ،فنکار اور نہ جانے کیا کیا بن جاتاہے ۔ یہ سب زندگی کے تضادات ہوں نہ ہوں ،زندگی کے مختلف پہلو ضرور ہیں۔ عقل اور بیوقوفی میںبنیادی فرق ودیعت کا ہے اور اختیار عقل خدا کی دین ہے، جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کہلاتاہے ۔ عقلمند ہونا ایک خوبی ہے جبکہ بیوقوف ہونا ایک کیفیت ہے جو عقلمند سمیت کسی بھی شخص پر طاری ہو سکتی ہے۔ ایک عقلمند آدمی بھی بیمار ی ،حادثہ یا کسی مشروب کے استعمال سے ہوش وحواس کھو سکتا ہے اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اکثر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ بہت کم باتوں کو وہ سنجیدگی سے لیتے ہیں بہت ساری باتوں کو جو بظاہر روز مرہ کا معمول ہونے کے باوجود نہایت اہم اور مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں ،انھیں معمولی سمجھتے ہوئے بالکل بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔ کیا اسے بیوقوفی کہا جاسکتا ہے ؟ ۔ جو باپ اپنے بچوںکو حرام کھلانے کے لئے طرح طرح کے جتن کرتاہے اور ان کی ہر جائز اور ناجائز فرمائش پوری کرنے کے لئے ہر رسوائی قبول کرتاہے وہ اگرچہ بیوی اور بچوںکی نظر میں قابل ستائش شوہر اور باپ ہوتاہے لیکن اللہ رسول کے نزدیک اپنے اوراپنے بیوی بچوں کے پیٹ میںجہنم کی آگ بھر رہا ہوتاہے۔ اسلئے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے لئے آخرت کی ابدی زندگی کوایک بیوقوف ہی دائو پرلگا سکتا ہے۔ ذرا غور فرمائیں معصوم بچوں کے ذرا سے تساہل پر انھیں جی بھر کر مارنے اور پیٹنے والی مائیں اور اساتذہ کیا عقلمند کہلائے جاسکتے ہیں ؟ گھروں کے اندراورخاندانوں کے مابین چغل خوریوں سے تباہیا ں اور بربادیاں مچانے والی خالائیں، پھوپیاں اور مامے ،چاچے کیا عقلمند لوگ ہوتے ہیں ؟ کیا گلی گلی اور قریہ قریہ فساد پھیلانے والے پڑھے لکھے عالم فاضل حضرات کو عقلمند کہا جاسکتاہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ کہ ہر واجبی سا پڑھا لکھا شخص خود کوعقلمند سمجھتاہے جبکہ کوئی بیوقوف خود کو کبھی بیوقوف نہیںسمجھتا ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پڑھائی لکھائی کا عقلمند ی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ ہر آدمی کو اپنی عقل اچھی لگتی ہے لیکن کوئی بیوقوف اپنی بیوقوفی کو تسلیم ہی نہیں کرتا کیوں؟ اس لئے کہ یہ بات اسکی پڑھائی لکھائی اور سند یافتہ ہونے کے خلاف جاتی ہے۔ ایک نیا ڈاکٹر کسی پاگل خانے کا انچارج بنا تو اسنے صورت حالات کامعائنہ کرنے کی غرض سے پاگل خانے کا دورہ کیا۔ اس دوران اسے ایک جگہ دوپاگل آپس میں لڑتے نظر آئے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ایک پاگل دوسرے سے اس لئے لڑرہا تھاکہ وہ اُسے اپنا افسرنہیں مان رہا تھا۔ نئے نئے انچارج ڈاکٹر صاحب نے حالات کو قابومیںرکھنے کی غرض سے اُسے کہاکہ بھائی اگر وہ اِس بات پر بضد ہے تو اُسے افسر مان لو۔ اِس پر وہ بولا کہ جب میں نے اسے بطور افسر اس کا تقرر ہپی نہیں کیا تو تو میں اسے کیوں اسے افسر مانوں؟ انچارج ڈاکٹر نے وہاں سے کھسکنے میںہی عافیت محسوس کی کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ ضروری نہیں کہ ایک پاگل حواس کھونے کے ساتھ ساتھ عقل بھی کھو چکاہو۔ عقل کا استعمال آدمی کرتاہے لیکن عقل کی عطارب کی طرف سے ہوتی ہے اگر اللہ کی اس عطا کی قدرکی جائے تو فارسی کے ایک مشہور مصرعے کے مطابق چَرا کارکند عاقل کہ باز آئید پشیمانی (ایک عقلمند شخص کیوں ایسا کام کرے کہ اُسے بعد میں پشیمانی ہو) غالباً اسی لئے کہاجاتا ہے کہ عقلمند بولنے سے پہلے سوچتا اور بیوقوف بولنے کے بعد۔ یہ بات کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آئی تھی کہ دنیا کسی وقت میں اتنی بدل جائے گی کہ عقل کی کسوٹیوںپر بیوقوف براجمان ہوجائیں گے۔ پھر اس پر اترئیں گے بھی۔ ہر رنگ نسل زبان اور معاشرے کی اپنی اپنی کسو ٹیاں ہوتی ہیں جن کے تحت اچھائی اور برائی کو ماپا جاتاہے بعض کسوٹیاں بالکل ایک قوم ملک یا معاشرے کے لئے ہی ہوتی ہیں جنکا دوسری قوموں اور ملکوں پر اثر نہیں پڑتا ۔ مثال کے طور پر پختون قوم کے اندر مہمان نوازی کی جو کسوٹی ہے، مہمان نوازی کو ایک اچھا عمل سمجھنے کے باوجود وہ دوسری قوموں سے مکمل طور جدا ہے ۔ اس کے مقابلے میں سچ اورجھوٹ ساری قوموں کے لئے ایک کسوٹی کادرجہ رکھتے ہیں۔ آخری زمانے کے حالات کے بارے میں حضرت علیؓ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ( اُس زمانے میںلوگ بے حیاکو خوبصورت ، دھوکے باز کو عقل منداور ایماندار کوبیوقوف سمجھیں گے)۔ کیا ہم اِس وقت اُس زمانے میںنہیں ہیں؟ کیا آخری زمانہ شروع نہیںہوچکا؟ کیا اب عقل کی مُسَّلمہ کسوٹیوں پربیوقوف براجمان نظر نہیں آتے ؟ کیا عزت وآبرواور سچ اور جھوٹ کے معیار بد ل نہیں گئے؟ کیاایسا نہیں ہے کہ اب بیوقوف ہی عقلمند ار اور دانا کہلاتے ہیں ؟ لوگ بیوقو فی کیوں کرتے ہیں ؟ آدمی اُس وقت بیوقوف ہوتاہے جب وہ عقل کی بجائے خواہشات کی تابعداری شروع کرتا ہے۔ اِس وقت تو ہماری عقل ہی ہماری خواہشات کی تابع ہوچکی ہے۔ اس بات کا ذہن میں رہنا ضروری ہے کہ خوف خدا کے تابع رہے بغیر کوئی عقل سوائے بیوقوفی کے اور کچھ نہیںہوسکتی ۔ ایسی عقل سے بچنا چاہئے۔




Leave a Reply