Hazrat Joe Biden Lakhnoi Ko Par Nam

حضرتِ جو بائیڈن لکھنوی کو پر نام

بیجنگ میں چار تا دس فروری سرمائی اولمپکس منعقد ہو رہے ہیں۔امریکا نے چین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے سرمائی اولمپکس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ بھی اس بابت جلد فیصلہ کرے گا۔چین کا کہنا ہے کہ اب تک امریکا کو اولمپکس کا دعوت نامہ ہی نہیں بھیجا گیا تو بائیکاٹ کا کیا مطلب ؟




دوسری خبر یہ ہے کہ گذرے جمعرات اور جمعہ کو امریکی صدر کی دعوت پر ایک سو دس ممالک کے سربراہوں یا اعلیٰ شخصیات نے جمہوریت کو عالمگیر سطح پر مستحکم کرنے کے طریقوں پر غور کرنے کے لیے ایک ورچوئل چوٹی کانفرنس میں شرکت کی۔اسرائیلی وزیرِ اعظم نٹالی بینیٹ اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی بھی مدعو تھے۔مشرقِ وسطی سے اس کانفرنس میں صرف عراق کو نیوتا دیا گیا۔جنوبی امریکا سے دیگر کے علاوہ برازیل کے انتہا پسند ماحولیات دشمن صدر بولسنارو کو بھی دعوت دی گئی۔

چین کو دعوت نامہ بھیجنے کا تو خیر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔البتہ تائیوان کو مدعو کر کے چین کو مزید چڑانے کی کوشش ضرور کی گئی۔کانفرنس کا ایجنڈا تھا کہ عالمی سطح پر آمرانہ سوچ ، بڑھتی ہوئی کرپشن اور انسانی حقوق کی پامالی سے جمہوریت کا کیسے تحفظ کیا جائے ؟
پاکستان کو بھی بطور ایک ابھرتی جمہوریت کے اس چوٹی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی مگر عین ایک روز قبل اسلام آباد نے یہ کہہ کر اس میں شرکت سے معذرت کر لی کہ ہم مناسب وقت پر فروغِ جمہوریت کے معاملے پر امریکا سے رابطے میں رہیں گے۔

اس سفارتی جملے کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے کہ بھائی میزبان صاحب چلیے آپ نے ہمارے دوست چین کو مدعو نہیں کیا نہ سہی مگر آپ نے تائیوان کو مدعو کر کے اور ترکی کو دعوت نہ دے کر اور مودی اور نٹالی بینیٹ کو آمنترت کر کے ہمارے لیے ایک بہت بڑی سفارتی مشکل کھڑی کر دی۔ لہٰذا آپ کی چوٹی کانفرنس کے چکر میں ہم اپنے دیرینہ دوستوں کو تو خفا کرنے سے رہے۔

سرد جنگ کے پینتالیس سالہ دور میں امریکا نے کیمونسٹ دنیا کو انسانی حقوق کی پامالی کے ڈنڈے سے مسلسل پیٹا اور انسانی حقوق کے ان دشمنوں کو نیچا دکھانے کے لیے لاطینی امریکا سے انڈونیشیا تک ہر رنگ و نسل و قسم کے فوجی و غیر فوجی آمروں کو آزاد دنیا کا پاسبان قرار دے کر ان کے سات خون بھی معاف کر دیے۔

آج بظاہر پہلی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دوسری سرد جنگ شروع ہو گئی ہے مگر کردار وہی پرانے ہیں۔وہی روس اور چین ، وہی امریکا اور برطانیہ جو پہلی سردجنگ کی طرح دوسری سرد جنگ میں بھی مدِمقابل طاقتوں کو مغربی طرزِ زندگی ، جمہوریت اور سلامتی کے لیے خطرہ نمبر ایک بتا رہے ہیں اور انسانی حقوق کے اسی پرانے ڈنڈے کو گھما رہے ہیں۔

اس کے برعکس آج حواری ممالک میں انسانی حقوق اور آزادیوں کے ساتھ ہونے والی کھلواڑ انھیں یاروں کا اندرونی معاملہ نظر آتا ہے۔گویا نہ بوتل بدلی نہ شراب اور نہ ہی کمپنی۔یوں سمجھ لیجیے کہ مغرب کو جہاں منڈی دستیاب ہے وہاں انسانی حقوق کا کوئی آڑھتی نہیں۔جہاں مغرب کو اقتصادی مسابقت و اسٹرٹیجک چیلنج کا سامنا ہے وہاں صرف انسانی حقوق کی پامالی ہی بیچنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

مثلاً امریکا کا سرکاری کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی ( یو ایس سی آئی آر ایف ) گزشتہ دو برس سے بھارت کو بھی چین اور پاکستان کے ساتھ ساتھ ان تیرہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش پیش کر رہا ہے جہاں مذہبی آزادی روز بروز سکڑتی جا رہی ہے۔لیکن پچھلے سال وزیرِ خارجہ مائک پومپیو نے اس فہرست میں بھارت کا نام شامل کرنے کی سفارش کو مسترد کر دیا اور اس برس وزیرِ خارجہ انتھونی بلنکن مذہبی تنگ نظری کی سرکاری فہرست پڑھتے ہوئے بھارت کا نام لیے بغیر آگے بڑھ گئے۔

حالانکہ انھی انتھونی بلنکن نے سات ماہ قبل مذہبی آزادی اور اقلیتوں سے سلوک کے بارے میں محکمہ خارجہ کی جاری کردہ عالمی فہرست میں بھارت کی شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔اس رپورٹ میں مودی کابینہ کے کئی وزرا کا نام لیا گیا اور حکمراں جماعت کا تعلق آر ایس ایس سے جوڑتے ہوئے اقلیتوں کی زبوں حالی کا تذکرہ بھی تھا۔اس رپورٹ میں بھارتی پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل، سرسری گرفتاریوں ، صحافیوں کے خلاف مقدمات اور ہراسگی اور میڈیا سنسر شپ کے بڑھتے ہوئے رجحان کا بھی اعتراف کیا گیا تھا۔

جیسے جیسے حالیہ مہینوں میں چین اور روس کے ساتھ کشیدگی کا گراف بڑھتا گیا۔ محکمہ خارجہ ، محکمہ دفاع اور وائٹ ہاؤس کا ہاتھ بھارت پر ہولا ہوتا گیا۔وہی مودی جنھیں دو ہزار دو کے گجرات قتلِ عام کے بعد امریکی ویزہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔وہی مودی بائیڈن کے صدر بننے کے بعد ورچوئل ملاقات کرنے والے اولین رہنماؤں میں شامل ہو گئے۔

حالانکہ اس ملاقات سے چند ہفتے پہلے ہی انسانی آزادیوں کی تحقیق سے متعلق ایک موقر ادارے فریڈم ہاؤس کی شایع کردہ رپورٹ میں بھارت کا درجہ جمہوری ممالک سے اٹھا کر نیم آزاد جمہوریت کے خانے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

اس اعلیٰ ملاقات کے ایک ہفتے بعد نئے امریکی وزیرِ دفاع لائڈ آسٹن اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر نئی دلی پہنچے اور انھوں نے مشترکہ اہداف کے حصول میں پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لیا۔ان مشترکہ اہداف میں انسانی حقوق کا سوال بالواسطہ چھوڑ بلاواسطہ بھی نہیں اٹھا۔

اس سے ایک برس پہلے جب ٹرمپ نئی دلی میں موجود تھے تو پرانی دلی میں مسلم اکثریتی علاقے آتشیں حملوں اور نقلِ مکانی کا مرکز بنے ہوئے تھے۔مگر ٹرمپ دور آسمان سے اٹھتے دھوئیں کو بادل ہی سمجھتے رہے۔

ٹرمپ تو خیر ٹرمپ تھے مگر ڈیموکریٹس تو صدارتی مہم میں انسانی حقوق کے مامے بنے ہوئے تھے۔ بقول ایک امریکی مدبر فرق صرف اتنا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں ریپبلیکن انتظامیہ سادہ چھری چلاتے ہوئے نہیں ہچکچاتی البتہ ڈیموکریٹ انتظامیہ اس چھری پر شہد لگا کے وار کرتی ہے۔

تین ماہ قبل ( ستمبر ) دلی میں تعینات امریکی ناظم الامور اتل کیشپ ( ہندوستانی نژاد ) نے بھارت کو ہر سطح پر ایک سیکولر جمہوریت سے ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے علم بردار آر ایس ایس پرمکھ موہن بھاگوت سے ملاقات میں ’’ جمہوریت ، گروہی ہم آہنگی ، روشن خیالی اور مختلف برادریوں کے درمیان پرامن بقاِ باہمی‘‘ کے امور پر تبادلہِ خیالات کیا اور اس بابت کیے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔

اکتوبر میں امریکی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمین نے اپنے دورے میں اس امر کو سراہا کہ بھارت اور امریکا پھلتی پھولتی جمہوریتیں ہیں اور ان کے مابین قریبی تعاون خطے اور عالم کے مفاد میں ہے۔

جب بھی امریکا کے دہرے پن پر انگلی اٹھتی ہے تو امریکی دفترِ خارجہ یہ صفائی دیتا ہے کہ جب بھی اعلیٰ بھارتی قیادت سے ہمارا رابطہ ہوتا ہے تو ہم پس ِ پردہ اسے انسانی حقوق کی اندرونی صورتِ حال پر اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔اس کا ثبوت محکمہ خارجہ نے یہ پیش کیا کہ ستمبر میں مودی بائیڈن ملاقات کے دوران امریکی صدر نے عدم ِتشدد ، احترامِ آدمیت اور درگزر کے بارے میں گاندھی جی کے وچاروں کا تذکرہ کیا۔( سبحان اللہ۔جو بائیڈن لکھنوی کی جے)۔

Leave a Reply