Tuti Hui Qabron Say Sada Bhi Nahi Ati

’’ٹوٹی ہوئی قبروں سے صدا بھی نہیں آتی‘‘

’’ٹوٹی ہوئی قبروں سے صدا بھی نہیں آتی‘‘
سخت جان بلکہ ڈھیٹ آدمی ہوں اس لئے زندگی سے اکتایا تو نہیں کہ بچے بھی ابھی رستے میں ہیں لیکن زندگی بے کیف سی ضرور محسوس ہونے لگی ہے اور وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ دوستوں کے بچھڑنے پر جن دوستوں کے کندھوں پر سر رکھ کر رولیا کرتا تھا وہ بھی تیزی سے بچھڑ رہے ہیں۔ شروع سے شروع کروں تو آپ بیزار ہو جائیں گے۔ صرف گزشتہ دو تین سالوں کے دکھ آپ کےساتھ شیئر کروں گا کہ نہ کروں تو شاید برین ہیمرج ہو جائے کہ بوجھ میری اوقات بساط سے بہت ہی بڑھتے جا رہے ہیں۔ میری تاریخ پیدائش 5جولائی ہے یعنی میں کینسیرین ہوں اور دنیا بھر کے ’’ایکسپرٹس‘‘ اس بات پر متفق ہیں کہ کینسیرین لوگ بہت ہی ہمدرد، جذباتی، حساس، ماضی پرست اورمحبت کرنے والے ہوتے ہیں اور میری اپنی زندگی بھی سکول، کالج، یونیورسٹی کے دوستوں کے گرد ہی گھومتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ عملی زندگی شروع کرنے کے بعد میں نے بہت ہی کم دوست بنائے کہ زمانۂ طالب علمی سے ہی ’’ہائوس فل‘‘ جیسی کیفیت تھی اور ہے۔ میرا بس چلے تو جولائی کے مہینے میں بچوں کی پیدائش پر ہی پابندی لگا دوں کہ دنیا ایسے لوگوں کے لئے بنی ہی نہیں۔ محبت یک طرفہ نہیں ہوتی، مطلب یہ کہ مجھے خوش قسمتی سے ایسے دوست ملے جنہوں نے مجھے اتنی محبت دی جتنی شاید ….. شاید ….. میں بھی انہیں نہ دےسکا۔ سکول اور کالج کے صفدر سعید، خلیل، افضل ایاز، اولمپیئن ارشد چودھری، محمود خان سے لے کر سابق صدر پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین اور آج کے اعلیٰ ترین انگریزی کالم نگار، سابق سرخیل PTI حال مقیم کینیڈا حفیظ خان سے لے کر مقبول ملک، یوسف زمان ڈگلو، اعجاز بائی گاڈ، خواجہ سلیم تک سب جا چکے۔ طارق سجاد جان میں میری جان تھی۔




’’تم سے بچھڑ کر زندہ ہوں، جان بہت شرمندہ ہوں‘‘

تاجی، میاں اشرف، پرنس برکت علی عرف پرنس بکو سے لے کر آج تک میں نے موت کا ایسا ایسا وار سہا کہ بتا بھی نہیں سکتا۔ صرف ایک مثال سے شاید آپ میرے رشتوں کی شدت سمجھ سکیں۔

طارق سجاد جان کی امی مجھے ’’دھنک‘‘ کے دفتر فون کرکے کہتیں ’’بیٹا! طارق سے میری بات کرائو‘‘ میں کہتا ’’آنٹی، طارق تو نہیں ہے‘‘ تو وہ پریشان ہو کر کہا کرتی تھیں کہ ’’بیٹا وہ یاگھر پہ ہوتا ہے یا تمہارے ساتھ۔ وہ گھر پہ بھی نہیں، تمہارے ساتھ بھی نہیں تو کہاں گیا؟‘‘اس سے رشتوں کی شدتوں کا اندازہ لگائیں۔ میں آج بھی جب سیمی بھائی (وسیم سجاد جان) کو دیکھتا ہوں، ہفتوں کے لئےشانت ہو جاتا ہوں۔ ان سب کی تصویریں بیلی پور کی ’’ہانسی حویلی‘‘ میں آویزاں ہیں۔ میں ہمیشہ مغرور رہا کہ مجھ جیسے دوست رب نے کسی کو نہیں دیئے کیونکہ جب میں گھر سے ’’روٹھ‘‘ کر لاہور آیا تو یہ سب میرے گرد کسی فصیل کی طرح تھے لیکن اب ٹوٹتا جا رہا ہوں کہ گزشتہ تین ساڑھے تین سالوں میں پے در پے مجھ پر قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں۔

پہلے سردار رجب علی خان پتافی گیا جسے ہم ’’فوکر‘‘ کہتے تھے۔ پھر مسعود داڑھو رخصت ہوا جس کے گھر ظہیر الدین بابر کا بیٹا ہمایوں جلا وطن ہوتے ہوئے کچھ امانتیں چھوڑ گیا تھا اور جب واپسی پر اس کے بزرگوں نے یہ سب کچھ بادشاہ نصیر الدین ہمایوں کو بحفاظت لوٹانا چاہا تو اس نے ان کی شرافت و نجابت و مہمان نوازی کو دیکھتے ہوئے وہ سب کچھ انہیں عطیہ کردیا۔ اس زمانے کے حسین نیو کیمپس کا ہر شخص گواہی دے گا کہ سید مسعود عباس ہمارے مسعود داڑھو جیسا نہ کوئی خوش شکل تھا نہ خوش آواز۔ اس کے فیورٹ ترین گیت ’’تم بھلائے نہ گئے، ہائے بھلائے نہ گئے‘‘ اور ’’تیرے صدقے بلم نہ کر کوئی غم۔ یہ سماں یہ جہاں پھر کہاں‘‘ مجھ سے بھلائے نہیں جاتے اور اس کی طلسمی آواز آج بھی اس وقت بھی میرے بدنصیب کانوں میںگونج رہی ہے۔ نیوکیمپس کے خوبصورت (آج بدصورت) ہاسٹل نمبر ون میں ہرصبح سردار پتافی، مسعود داڑھو کے کمرے کے دروازے پر پوری طاقت سے اپنے جوتے مارتا۔ تنگ آ کر داڑھو باہر نکلتا تو پتافی اسے سرائیکی زبان میں’’بددعائیں‘‘ دیتا۔

چُلہا جل دا ناں دیکھیں

توا چڑھدا ناں دیکھیں

ٹِکی تے دید ناں پوی

صبح دی کھاویں شام دی فکر ہووی

یعنی ’’چولہا جلتا نہ دیکھو، توا چڑھتا نہ دکھو، روٹی دیکھنی بھی نصیب نہ ہو، صبح کھائو تو شام کی روٹی بارے پریشان رہو‘‘۔

آج نہ ہمارا پتافی ہے نہ مسعود داڑھو۔ دونوں ایک دوسرے سےمحبت میں مبتلا ایک دوسرے کو ’’جھوٹی بددعائیں‘‘ دیتے دیتے آگے پیچھے رخصت ہوگئے۔ چند ہفتے بھی نہیں گزرے کہ سرخ وسفید 6فٹ کا یوسف ہونڈا بھی حدود وقت سے آگے نکل گیا اور میں ان کی تصویریں تکتے تکتے خود تصویر بن گیا ہوں۔

تازہ ترین زخم طارق چڑی کی رخصتی ہے جو اچانک نہیں کہ اک عرصہ تک کینسر سے لڑتا رہا۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ برسوں پر محیط ان رشتوں کا کیا کروں؟ انہیں کہاں لے جائوں؟میری عادت ہے سونے سے پہلے والدین سے لے کر سب بچھڑے ہوئے دوستوں کے لئے دعا کرتا ہوں جن میں منو بھائی اور عباس اطہر بھی شامل ہیں لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ساری رات اسی قرض کی ادائیگی میں گزرا کرے گی لیکن خیر ہے، نیند جتنی کم ہوگی، ابدی نیند اتنی ہی قریب ہوتی جائے گی۔ کاش جولائی میں بچوں کی پیدائش پر پابندی لگ سکتی کیونکہ یہ مہینہ پیدا ہونے کےلئے انتہائی خطرناک ہے۔

LINDA GOODMAN بھی یہی کہتی ہے جو SUNSIGNS پر اتھارٹی کا سا درجہ رکھتی ہے۔

کتنی دلکش ہو تمکتنا دلجُو ہو میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

اصل دکھ مرنے کا نہیں، بچھڑنے کا ہے اور ’’ٹوٹی ہوئی قبروں سے صدا بھی نہیں آتی‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Leave a Reply