Khyber Pakhtunkhwa Local Bodies Election

!خیبر پختونخوا لوکل باڈیز الیکشن: سونامی کو پہلا جھٹکا

صوبہ خیبر پختونخواہ میں لوکل باڈیز کے الیکشن ہوئے ہیں اور اس الیکشن کے نتائج نے بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ اس الیکشن میں یہ تو متوقع تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بینک کم ہو گا لیکن یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اس برے طریقے سے ہار سے دو چار ہو گی۔ سب سے بڑا دھچکا پشاور جو پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں سے نہ صرف تحریک انصاف میئر کا الیکشن ہار گئی بلکہ تحصیل کونسل کی چھ سیٹوں میں سے صرف ایک پاکستان تحریک انصاف کے حصے میں آئی۔ اور جیتا کون!! عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی یا پاکستان مسلم لیگ نواز؟؟ ان سب جماعتوں میں سے کو ئی بھی نہیں جیتا۔بلکہ جیتی ہے وہاں سے جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان۔ مولانا فضل الرحما ن کی پارٹی کو پشاور کے شہریوں نے منتخب کیا ہے۔ تبدیلی سب سے پہلے صوبہ خیبر پختونخوا میں آتی ہے۔ جس طرح بیرونی حملہ پہلے کے پی کے سے گزرتے تھے اور اس کے بعد پنجاب کا رخ کرتے تھے۔ اسی طرح شکست نے پہلے کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف کو پکڑا ہے اور لگتا ہے اگلے الیکشن میں یہ رحجان پنجاب میں بھی آ سکتا ہے۔ پنجاب تو پہلے بھی پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ نہیں تھا۔ صوبہ خیبر پختونخوا جہاں دو بار پاکستان تحریک انصاف جیت چکی ہے اور 2018ء کے الیکشن میں اس کو یہاں مکمل اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ 2013ء میں کے پی کے سے پاکستان تحریک انصاف نے جیت کا آغاز کیا تھا اور لگتا ہے اب 2021ء میں خیبر پختونخوا سے پاکستان تحریک انصاف کا زوال شروع ہو چکا ہے۔ مہنگائی لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لوگ دو وقت کی روٹی سے تنگ ہیں۔ کہاوت ہے جب دمشق میں قحط پڑا تو لوگ معشوق کو بھول گئے۔ کسی پنجابی شاعر کا قول ہے ٹک(روٹی) اسلام کا چھٹا رکن ہے۔ کسے نے بھوکے سے چاند کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ کیا ہے۔بھوکے کا جواب تھا !روٹی۔ عمران خاں ابھی تک کتابی باتوں میں الجھے ہیں جبکہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے۔ آپ کرپشن کرپشن کرتے رہو لوگ روٹی سے تنگ ہیں۔ گیس کا بل، بجلی کا بل ، پٹرول کی قیمت۔ کوکنگ آئل کی قیمت ،چائے کا کپ ابھی کسی جگہ چالیس کا ہے اور کسی جگہ پچاس کا۔ ایک وقت کی روٹی دو سو روپے میں ہے۔ مزدور کی مزدوری 800 روپے ہے اور تین وقت کی روٹی 600 کی اور چائے ڈال کے 800 کا خرچہ ہے۔ گھر والوں کا کیا بنے گا یہ کسی نے سوچا ہے؟؟۔ 1ب 2023ء کا الیکشن قریب ہے پہلے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن ہونگے۔ یہاں کیا نتیجہ سامنے آتا ہے کو ئی پتہ نہیں ایک بات طے ہے ہارنے والی پارٹی پاکستان تحریک انصاف ہے۔ جیتے گا کون کوئی پتہ نہیں؟ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز یا کوئی اور!!کے پی کے کے الیکشن سے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھا ہے۔ نمبر ایک پاکستان تحریک انصاف وہاں کی سب سے مقبول جماعت نہیں ہے۔ نمبر2 جمیعت علمائے اسلام اب خیبر پختونخوا میں ایک قوت ہے۔ نمبر3-عوامی نیشنل پارٹی اے این پی 2018ء کے الیکشن کے بعد دوبارہ منظم ہو رہی ہے۔ 2023ء کے الیکشن میں اے این پی ایک قوت ہو گی۔ نمبر 4پاکستان پیپلز پارٹی کے پی کے کی سیاست میں کوئی نمایاں رول نہیں رکھتی۔ نمبر5 پاکستان مسلم لیگ نواز ہزارہ بیلٹ کے علاوہ کے پی کے میں کہیں نظر نہیں آتی۔ جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام ملکر ایک مضبوط اتحاد بنا سکتی ہیں۔ 2023ء کے الیکشن میں مخلوظ حکومت کا امکا ن نظر آرہا ہے۔ سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی، کے پی کے سے جمیعت علمائے اسلام اور پنجاب سے پاکستان مسلم لیگ نواز اگر ق لیگ یا پیپلز پارٹی سے اتحاد کر لے توکی حکومت بن سکتی ہے۔ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف ایک مضبوط اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ نواز کو ملے گی۔ مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام اور ایم کیو ایم ملکر حکومت بنا سکتے ہیں۔جس طرح فیشن چالیس سال بعد دوبارہ آ جاتا ہے پاکستان کی سیاست بیس سال بعد لوٹ آئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی 1988ء کے بعد 2008ء میں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز 1999 کے بعد 2013ء میں سرکاری پارٹی 2002 u کے بعد 2021 ء میں۔ ایک بات کا کریڈٹ عمراں خاں کا جاتا ہے کہ وہ کے پی کے میں بلدیاتی نظام درست شکل میں لایا ہے۔ میر اور تحصیل ناطم کے ڈائرکٹ الیکشن کے بعد بلدیاتی نظام میں کرپشن کی کمی ہو گی۔اب کسی کے لئے مملکن نہیں کہ وہ بیس تیس لوگوں کو خریدے اور ضلع ناظم بن جائے اور تحصیل ناظم بن جائے۔ عمران کی پارٹی الیکشن ہار گئی ہے لیکن عمراں خاں جیت گیا ہے، درست نظام کو لا کر۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنی تمام تنظیمیں توڑ دی ہیں اب شاید الیکش دوبارہ ہو۔ 2013ء کی غلطی دوبارہ ہو گی جماعت پورا سال اپنے الیکش میں الجھی رہے گی اور اگلا الیکشن سر پر ہوگا۔ ٭٭٭٭٭




Leave a Reply