Milawat Aur Munafa

ملاوٹ اور منافع

یہ عام مشاہدہ ہے کہ ترقی یافتہ اور بظاہر مہذب دنیامیںعام استعمال کی ضروری اشیاء بغیرکسی قسم کی ملاوٹ کے خالص حالت میں ملتی ہیں۔ خوراک سے لے کرادویات اور مشروبات تک تمام اشیاء بغیر کسی قسم کی ملاوٹ کے دستیاب ہوتی ہیں۔ بعض ترقی پذیر ممالک میں بھی ملاوٹ کرنے والے مجرموں کے لئے سخت ترین سزائوں کے نفاذ کے باعث عام اشیاء ضروریہ نسبتاً خالص صورت میں دستیاب ہوتی ہیں۔ کویت پر عراقی حملے سے چھڑنے والی خلیجی جنگ کے باعث جب بغدادپر صدام حسین کے دور میںمعاشی پابندیاں لگیں اور عراق کوعالمی منڈیوں میںتیل کی فروخت سے منع کردیا گیاتو عراقی لوگوں کے لئے خوراک کی قلت کے باعث حالات بہت مخدوش ہوگئے تھے۔بچوں کے لئے ادویات تک نہیںمل رہی تھیں ۔عالمی طاقتیں امریکہ کی شہ پر وہی جبر اورظالمانہ روش اختیارکئے ہوئے تھیں جیسے آج کل افغانستان کے خلاف روارکھا جارہا ہے۔ میں اُن دنوں پاکستان کے سفارت خانہء بغداد میںتعینات تھا۔ ہمارے اُس وقت دو دودھ پیتے بچے ڈبے کا خشک دودھ پیتے تھے جو بازار سے انہی عالمی پابندیوںکے باعث نایاب ہوچکاتھا۔ جس دوکان سے عام طور پر میری بیوی دودھ ،آٹا، دالیں، مرچ مصالحے اور خوردنی تیل وغیرہ کی خریداری کرتی تھی ایک دن اُس دکان کے اوپر کے خانوں میںخشک دودھ کے ڈبوںپر نظر پڑتے ہی اس نے دکاندار سے استفسار کیا کہ مطلوبہ دودھ کے ڈبوں کے ہوتے ہوئے وہ اسے بیچنے سے کیوںانکاری تھا؟ اس بات پروہ مالک دکان سیڑھی لگا کراوپر گیا اور انہی ڈبوںمیںسے دوچار ڈبے اتار کر میری بیوی کو دکھایا کہ وہ اس دودھ کو اس لئے نہیں بیچ سکتا کیو ںکہ وہ زائدالمیعادہوچکاتھا۔ یہ صدام حسین کا انتظام تھا جبکہ ہمارے ملک میں 198کی دہائی میںافغان مہاجرین کے لئے امداد میںآیا ہوادودھ ، خوردنی تیل ،آٹا ،چاول حتیٰ کمبل اوررضائیاں تک قیمتاً فروخت ہوتی تھیں۔ یہی حال 2005کے زلزلہ زدگان کے لئے دئیے گئے امدادی سامان کا بھی تھا۔ بہت سارے لوگوں کی ناقابل بیان مصیبت نے بیٹھے بیٹھے بعض لوگوں کے لئے کسی لاٹری کاروپ دھار لیا تھا۔ اس کے مقابلے میںہمارے ہاں ملاوٹ ایک ضابطہ حیات کاروپ دھار چکی ہے ۔ہم زندگی کے کسی ایسے پہلو کی نشاندھی نہیں کرسکتے جس میں ملاوٹ نہ ہو۔ ہم سے زیادہ بھلا کون جان سکتاہے کہ ملاوٹ کسے کہتے ہیں؟ کیوں؟ اسلئے کہ ہمیں کبھی بازار سے کوئی خالص چیز ملتی ہی نہیں۔ اشیاء فروخت میں ملاوٹ کا سلسلہ ایک دفعہ شروع ہوجائے تو پھر صرف اشیا ء تک محدود نہیں رہتا۔ اسلئے کہ اشیاء میں ملاوٹ سے منافع کی شرح کئی گنا ء بڑھ جاتی ہے۔ منافع خوری کا یہ مزہ اور لذت آدمی کو ایسی تمام باتوں اورچیزوںمیں بھی ملاوٹ کی طرف راغب کر دیتے ہیں جن کا بظاہر مالی نفع نقصان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آدمی کوسمجھ آجاتی ہے کہ جب اشیاء میںملاوٹ سے منافع کئی گناء بڑھایاجاسکتا ہے تو منافع کی یہ انتہائی آسان شرح سچ میں جھوٹ، حتیٰ کہ حق و باطل کی ملاوٹ سے بھی وقت اورمحل کے مطابق کیوں نا بڑھائی جائے؟ آدمی کایہ منفی احساس اُسے شیطانیت کے نرغے میںلے آتاہے۔ ہمارے ہاںتوملاوٹ کااب یہ عالم ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتاکہ دودھ میںپانی ملایا گیا ہے یاپانی میں دودھ۔ چنے کے چھلکوںمیں چائے کی پتی ملائی گئی ہے یا پتی میںچنے کے چھلکے ، لال اینٹوں کے برادے کو مرچوںمیںملایاگیاہے یا مرچوںکو برادے میں۔ مشہور دوائوں کی گولیاںدواساز کا رخانوں سے آئی ہیں یا کسی کے گھر سے ۔پینے کے بعدبھی پتہ نہیںچلتاکہ دکانوںپر بکنے والے طرح طرح کے مشروبات اصلی ہیںکہ نقلی ۔ گوشت کھاتے وقت وثوق سے نہیں کہا جاسکتاکہ حلال جانورکا گوشت ہے یا حرام کا۔ یی حال خوردنی تیل کا ہے ،آٹے چاول اور دالوں کاہے۔ نہ جانے کن کن چیزوں کواصل بتا کر بیچا جاتاہے ۔ بیچنے اور خریدنے والے دونوں مسلمان بھی ہیں ،پاکستانی بھی اور بظاہر انسان بھی نظر آتے ہیں۔ ملاوٹ کا یہ ڈھانچہ نہایت مستحکم بنیادوں پر صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی غرض سے کھڑا کیا گیاہے ۔ اس قدر مضبوط بنیادوںپرملاوٹ کایہ ناجائز اورظالمانہ ڈھانچہ کھڑا کیاگیاہے کہ اسے نہ چھڑا جاسکتا ہے اور نہ گرایا جاسکتاہے۔ یہ ڈھانچہ ہماری زندگیوں کا وہ حصہ بن چکا ہے جس سے ہم پوری طرح مانوس ہو چکے ہیں۔اس حد تک مانوس ہوچکے ہیں کہ اس کی صحت سے انکار کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ کیا اب بھی ہمیں قرآن کا یہ اعلان سمجھ میں نہیں آتاکہ ’’قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے‘‘ طرح طرح کے ظالمانہ طورطریقوںسے لمحہ بہ لمحہ منافع کمانے والا ہر شخص خسارے میںہے۔ یعنی انسانوںکی اکثریت خسارے میں ہے۔ اللہ نے کسی ایک قوم،ملک ،معاشرے ،قبلے یا خطے کے لو گوںکی اکثریت کو خسارے میںہونے کا اعلان نہیںکیا۔ اس میں کسی رنگ نسل ،مذہب وملت ،زبان اوررسم ورواج کے حامل لوگوں کی تخصیص نہیں کی۔ سارے لوگوں کو انسان کاخطاب دیکر خسارے کا شکار بتایا ہے۔ ’’سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نمازاور صبرسے مددحاصل کرتے ہیں‘‘ ظاہر ہے کہ سراسر خسارے کا شکار لوگوں میںسے پہلے ایمان لانے والے کتنے تھوڑے ہیں اور پھر ان میں سے بھی نماز اور صبرسے مدد لینے والے کتنے تھوڑے لوگ ہوتے ہیں ۔ اگردنیا کی سات ارب سے زیادہ آبادی کے اندر ڈیڑھ ارب لوگ مسلمان ہیں تو اس تعداد میں سے بھی جس قدر تھوڑے نماز اور صبرسے مدد لینے والے ہیں ان کا اندزاہ بخوبی لگایا جاسکتاہے۔جو لوگ ہر بات ،ہرچیز ،ہرسوچ،ہر عقل ہر خوبی اور خواہش میںملاوٹ ہی سے مددحاصل کرنے کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہیں، وہ پھر خسارے سے کیسے نکل سکتے ہیں ؟ اس صورت حال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ لوگوں کی کتنی چھوٹی سی اقلیت ہے جو خسارے میںنہیں۔ یہ فیصلہ میرااورآپ کانہیں ہے۔ قرآن کا فیصلہ ہے اُس خالق کائنات کافیصلہ ہے جو رب العالمین ہے ۔ اپنے خسارے یا منافع کا جائیزہ لینے کے لئے اللہ کا یہ واضح اعلان ہر شخص کوذہن میںرکھناچاہئے ۔ اس کے علاوہ کوئی اور معیار اپنانے والا اورسب کچھ توہوسکتاہے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والا نہیں ۔اشیاء میںملاوٹ ہر چیزاورہربات میںملاوٹ کا باعث بنتی ہے۔ اخلاق میں، سیاست میں،علم ودانش میں،تعلیم وتربیت میں ، کھیل کود سے لیکر جنگ وجدل کے میدانوں میں، خیالات اورنظریات سے لے کر عدل وانصا ف اورصحت وصحافت تک میںملاوٹ کاباعث بنتی ہے۔ جب دن رات دائیں بائیں اور اوپر نیچے تک ملاوٹ ہی ملاوٹ ہو توبظاہرآدمی نفع پہ نفع کمارہا ہوتا ہے۔لیکن حقیقت میں گھاٹے پے گھاٹا کھارہا ہوتاہے۔ یہ قدرت کا اٹل اصول ہے ۔اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ اسی ملاوٹ کے باعث لوگ ہر چیز میںمنافع کے متلاشی رہتے ہیں۔ آدمی جو کچھ بھی کرتاہے اپنے مالی منافع یا معاشرتی فائدے کے لئے کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بچوںکا فائدہ ماںباپ کے فائدوںپر حاوی ہوجاتاہے ۔لیڈر کی نظر عنایت ملک اورقوم کے مفادات پر بھاری ہوجاتی ہے، وراثت کی تقسیم حقداروں کو کچل دیتی ہے، دوستیاں نبھاناحق وانصاف کا خون کردیتاہے، ملک اورقوم افراتفری کا شکار ہوجاتے ہیں اور انسانیت کا خون ہو جاتا ہے۔ ملاوٹ کو چھوڑدینا چاہیے ورنہ ملاوٹ پھر کہیں کا نہیں چھوڑتی۔




Leave a Reply