Jub Jhoomay mera ghagra

جب جھومے میرا گھاگرا

اپنے سائیں منظور وسان انگڑائی لیکر پھر جاگ اٹھے ہیں اور نئی پیشگوئیاں فرما دی ہیں ‘ حالانکہ جس قسم کی پیشگوئیاں موصوف نے فرمائی ہیں ان سے غالب بھی یاد آگئے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں ۔ اب کی بار موصوف کافی مدت بعد جاگے ہیں اور اپنے تازہ بیان میں انہوں نے فرمایا ہے کہ بلاول کی شادی وزیر اعظم بننے کے بعد ہو گی ‘ یہ تو اچھا ہے کہ انہوں نے ساتھ ہی یہ شرط عائد نہیں کی کہ شادی کے لئے انہیں کنٹینر پرچڑھنا پڑے گا’ اگرچہ جو بیانیہ سائیں جی نے اختیار کیا ہے اس سے ہمیں ایک مرحومہ فلمی ہیروئن اور بعد میں ہدایتکارہ شمیم آراء ضرور یاد آگئی ہے ‘ جنہوں نے اپنے کیریئر کے عین عروج کے دنوں میں جب انکے پرستاروں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ گویا ہر دل کی دھڑکن ہوا کرتی تھیں ‘ ان سے شادی کے خواہشمندوں کی قطار لگی ہوئی تھی ‘اس صورتحال کو دیکھ کرانہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ایک اچھوتا اعلان کیا کہ وہ اس سے شادی کریں گی جوکشمیر پر پاکستانی پرچم لہرائے گا یعنی سری نگر فتح کرے گا ‘ تاہم سترہ رووزہ جنگ کے بعد عالمی قوتوں کی مداخلت سے جنگ بندی ہو گئی تو ان کا یہ خواب ادھورہ رہ گیا ‘ اور بے چاری ایک طویل عرصے تک انہوں نے دوبارہ شادی کے لئے کوئی شرط نہیں رکھی ‘ ادھر پرستاروں نے بھی مایوس ہو کر ان سے رشتہ جوڑنے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تو خود ہی اپنی مشروط پیشکش سے رجوع کرتے یوٹرن لیتے ہوئے خاموشی سے بیاہ رچا لیا ‘ اب دیکھتے ہیں کہ خود بلاول زرداری سائیں منظور وسان کی اس پیشنگوئی کے حوالے سے کیا کہتے ہیں ‘ اتناالبتہ ضرور ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ملکی سیاسی حالات میں جو تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں اور مقتدر قوتوں کے ساتھ آصف زرداری کی”قربتوں” کی جوخبریں آرہی ہیں ‘ ان سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی منظر پر جن ”تبدیلیوں” کے آثار ہویدا ہو رہے ہیں ان میں کسی ممکنہ سیٹ اپ میں بلاول کے بطور وزیر اعظم ملک کی ”باگ ڈور” سنبھالنے کی افواہیں بھی زیر گردش رہی ہیں ‘ اس لئے ہو سکتا ہے کہ منظور وسان انہی”افواہ نما خبروں” سے متاثر ہو کر بلاول کی شادی کے بارے میں پیشگوئی کرنے پر آمادہ ہوئے ہوں ‘ ویسے موصوف نے صرف بلاول کی شادی کا تذکرہ ہی نہیں کیا ۔ نواز شریف کے بارے میں بھی کہا ہے کہ نواز شریف کو مارچ سے پہلے نہیں دیکھ رہا ‘ سو دیکھنا یہ ہے کہ جو لوگ کبھی جنوری اور کبھی فروری کی تاریخیں نواز شریف کی آمد کے حوالے سے دے دے کر ملکی سیاست میں ہلچل مچا رہے ہیں وہ اس پیشگوئی کے حوالے سے کیا کہتے ہیں ‘ ہاں جن حلقوں میں میاں صاحب کی آمد کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے ‘ حالانکہ ان کی حالت دیدنی بھی ہے یعنی بظاہر تو وہ میاں صاحب کی متوقع آمد کے بارے میں بڑھکیں بھی مار رہے ہیں کہ نواز شریف کو لندن سے دیس نکالادیا جارہا ہے اس لئے نون لیگ کے رہنماء ان کی آمد کے حوالے سے پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اور نواز شریف کو ہم لیکر آئیں گے وغیرہ وغیرہ ‘ مگر اندر خانے ان کی وطن واپسی سے ”لرزہ براندام” ہونے کی مبینہ خبریں بھی سیاسی ارتعاش کا باعث بن رہی ہیں ‘ اس لئے سائیں منظور وسان کی اس پیشگوئی سے انہیں تھوڑی بہت خوشی ضرور ہوئی ہو گی اور کم از کم مارچ تک وہ اپنے ٹٹو چھاویں بننے پر تیار ہو کر اپنے ماتھوں پر سخت سردی میں بھی دکھائی دینے والا پسینہ خشک کر رہے ہوں گے یعنی بقول شاعر
جب جھومے میرا گھاگرا
تو جھومے دلی ‘ آگرہ
مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے منظور وسان نے جو پیشگوئی کی ہے وہ تو ہمارا خیال ہے کہ معمولی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی آسانی سے کر لے گا ‘ سائیں وسان نے فرمایا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو جوحصہ ملا ‘ اب نہیں ملیگا ‘ اب یہاں دوباتیں ہیں ‘ ایک تو یہ ہے کہ صوبے کے آدھے اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں جن میں جمعیت علمائے اسلام کو جو پذیرائی ملی وہ یقینا جماعت کے لئے حوصلہ افزاء ہے ‘ تاہم صورتحال دیکھ کر جس طرح بقیہ آدھے اضلاع میں انتخابات کو ملتوی کرانے کی کوشش کی جارہی ہیں بلکہ بڑی حد تک اس میں کامیابی بھی مل رہی ہے ‘ اس کے بعد کسی جماعت کو بھی کچھ ملنے کی توقع نہیں ہونی چاہئے ‘ کیونکہ مارچ کے بعد سیاسی فضا پرسکون بھی رہے گی یا نہیں ‘ وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ‘ تاہم اگرحالات ساز گار رہے تو جن اضلاع میں انتخابات ہونے ہیں ‘ ان میں نون لیگ کی صورتحال زیادہ مستحکم ہے کہ بنیادی طور پر یہ اضلاع نون لیگ سے سیاسی وابستگی کے روایتی تعلق رکھتے ہیں ‘ یہ نہیں کہ بقیہ جماعتوں کا کوئی حصہ نہیں مگر ان اضلاع میں نون لیگ زیادہ مستحکم پوزیشن کی حامل ہے ‘ البتہ کہیں کہیں جماعت اسلامی ‘ اے این پی اور تحریک انصاف بھی اپنا حصہ وصول کر سکتے ہیں ‘ جمعیت علمائے اسلام بھی یقینا کچھ نہ کچھ سیٹیں ضرور نکال لے گی ‘ مگر جس طرح موجودہ انتخابات میں اس نے غالب حصہ وصول کیا ممکن ہے کہ ویسی صورتحال نہ رہے ‘ یعنی بقول مرحوم سجاد بابر
میں درد کے قصے میں بہت دیر سے پہنچا
بک جاتے ہیں سب تازہ ثمر شام سے پہلے
سائیں جی نے وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے بھی اگرچہ پیشگوئی فرمائی ہے اور ان کے ”مستقبل” پر سوال اٹھایا ہے ‘ مگر ادھر ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک بابا جی بھی وزیر اعظم کے بارے میں اکثر و بیشتر پیشگوئیاں کرکے وزیر اعظم کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں ‘ اس لئے کون درست کہہ رہا ہے اور کون غلط اس کا تعین اتنا آسان نہیں ہے ‘ بس اتنا ہی تبصرہ ممکن ہے کہ
طوفان کر رہا تھا مرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے




Leave a Reply