Modi Sarkar, RSS aur Hindu tawa

مودی سرکار، آر ایس ایس اور ہندوتوا

مسلمانوں کو جان بوجھ کر عدم تحفظ کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ گائے مسلمانوں کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے۔ خانہ جنگی ہوئی تو مسلمان بھرپور مزاحمت کریں گے مجھے پاکستان جانے کے لئے کہا گیا۔ میرے بیان کے بعد مجھے غدار کہا گیا۔ یہ باتیں لیجنڈ بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ نے کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ہیں۔




بھارت اس وقت اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف آر ایس ایس کی بھارتیہ جنتا پارٹی، نریندرامودی جیسے کٹر ہندو قوم پرست کی سربراہی میں یہاں حکمران ہے جو 2014ء سے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر بھارت کو ایک کٹر ہندو ریاست بنانے کے لئے بڑی یکسوئی سے مصروف عمل ہے۔ مسلمانوں کو ہندو ازم قبول کرنے یا مرنے کے لئے تیار ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ سنگھ پریوار میں شامل قوم پرست تنظیمیں اور پارٹیاں بڑی تیزی سے ہندوستان کے سیکولر معاشرے کو ہندو ثقافت و تہذیب کے رنگ میں رنگنے کی منظم اور مسلسل کاوشیں کر رہی ہیں۔ اگست 2019ء میں مودی سرکار نے ریاست جموں و کشمیرکی مخصوص آئینی حیثیت تبدیل کرکے اسے بھارتی یونین میں ضم کرکے اس کا مسلم تشخص ختم کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی اور مسلمانوں کو بڑا واضح پیغام دیا کہ انہیں اگر بھارت میں رہنا ہے تو بھارتی سیکولر نہیں، بلکہ ہندو کلچر کا حصہ بن کر رہنا ہوگا۔ انہیں آر ایس ایس کے افکار اور نظریات کے آگے سر جھکانا ہوگا۔ انہیں اپنی مخصوص تمدنی و مذہبی شناخت سے دستبردار ہونا ہوگا۔ اکتوبر 2019ء مہاتما گاندھی کی 150ویں برسی کے موقع پر نہ صرف گاندھی جی کی راکھ کو ان کی یادگار سے چرا لیا گیا بلکہ ان کی تصویر پر غدار لکھ کر ان کی تضحیک بھی کی گئی۔ بھارتی میڈیا نے اسے آر ایس ایس کی کارروائی قرار دیا۔
آر ایس ایس کیا ہے؟ راشٹریہ سیوامی سیوک ایک ہندو قوم پرست تنظیم ہے جس کی بنیاد 1925ء میں کیشوبلیرام ہیگیوار نے رکھی، فکری اور نظری طور پر وہ ہندوؤں کی سماجی اور تہذیبی عظمت کا احیاء چاہتا تھا وہ ہندوؤں کو نسلی طور پر برتر و اعلیٰ تصور کرتا تھا اور انہیں منظم کرکے ہندو تہذیب کا احیاء کرنے کے لئے یکسو تھا۔ 1925ء تا 1940ء ہیگیوار نے اس تنظیم کی فکری و تنظیمی تشکیل پر زور دیا۔ اس دور میں چلنے والی آزادی کی تحریک میں آر ایس ایس نے قطعاً حصہ نہیں لیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ تحریک جنگ عظیم اول میں ترکانِ عثمان کی شکست اور ہندوستان میں تحریک خلافت کے نتیجے میں قائم کی گئی۔ ابتداء ہیگیوار کانگریس کا ممبر تھا تحریک خلافت میں جب ناگپور میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تو ہیگیوار نے کانگریس سے الگ ہو کر آر ایس ایس قائم کی۔گویا مسلم دشمنی اس تنظیم کی بنیادوں میں شامل تھی۔ آر ایس ایس گاندھی کی تحریک آزادی ہند سے بھی دور رہی۔یہ لوگ بھارتی ترنگا کو بھی نہیں مانتے، بلکہ اپنے زعفرانی جھنڈے کی تقدیس کرتے ہیں۔ ہیگیوار کے 1940ء میں انتقال کے بعد مدھوسداشیوگوالکر نے تنظیم کی قیادت سنبھالی اور 1973ء تک اسے ایک حقیقی نظری، فکری اور عسکری تنظیم میں ڈھال دیا جب اس نے اس تنظیم کی قیادت سنبھالی تو اس کے باقاعدہ ممبران کی تعداد ایک لاکھ تھی جسے اس نے دیکھتے ہی دیکھتے 10لاکھ تک پہنچا دیا۔ آج اس کے رضا کاروں کی تعداد 60لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی غیر ریاستی عسکری تنظیم ہے جب 1940ء کے بعد ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک چل رہی تھی تو گوالکر کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی توانائیاں اندرونی دشمنوں، مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف جمع رکھنی چاہئیں۔1944ء میں آر ایس ایس نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی تنظیم قائم کی اور 1946ء میں گوالکر نے کشمیر کا دورہ کیا۔ ہری سنگھ کے ساتھ ملاقات کی اور اسے بھارت میں ضم ہونے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ دباؤ ڈالا آج آر ایس ایس کشمیر کو مکمل طور پر بھارتی یونین میں ضم کرنے اور اس ریاست کا مسلم تشخص ختم کرنے کے لئے مودی سرکار کے ساتھ ہاتھوں ہی ہاتھ ڈالے اور کندھے سے کندھا ملائے مصروف عمل ہے۔

1923ء میں ایک ہندو وینایک دمودار ساورکر نے ہندوازم کو ایک سیاسی نظریے کی شکل دی، جسے ہندوتوا یعنی Hindunessکہتے ہیں آر ایس ایس نے اس نظریے کو نہ صرف گود لے لیا بلکہ اس کی پرورش کرکے اسے ایک توانا قوت میں تبدیل کر دیا۔1960ء میں آر ایس ایس قومی سیاسی میدان میں اتری اور اس کی سنگھ پریوار یعنی آر ایس ایس خاندان کی تمام تنظیموں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس وقت سنگھ پریوار کی 50ہندو قوم پرست تنظیمیں ہیں جن میں بی جے پی (حکمران جماعت) بجرنگ دل (مسلح تنظیم)، شیوسینا، وشواہندو پریشد و غیرہم شامل ہیں۔ 2014ء میں نریندر مودی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی اور روز اول سے ہی آر ایس ایس کے ہندوتوا کو عملاً نافذ کرنا شروع کر دیا۔ ہندوستان میں سیکولرازم اور کمیونزم کو شکست دی جا چکی ہے۔ گاندھی جی اور کانگریس کو شکست ہو چکی ہے۔ کمیونزم کیونکہ عالمی سطح پر مرکھپ گیا ہے، اس لئے ہندوستان میں اس کا پُرسان حال کوئی نہیں ہے۔رہ گئے مسلمان تو ان کو ذلیل و رسوال کرنے، ڈرانے دھمکانے اور انہیں اقلیت میں تبدیل کرنے کے تمام فکری، نظری اور عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔کشمیر کو غصب کر لیا گیا ہے پاکستان کا ری ایکشن بھی ممی ڈیڈی بچے جیسا ہے۔ عربوں میں ہندوستان کے خلاف کچھ کہنے سننے کی سکت نہیں ہے۔ اب مودی سرکار نے عیسائی اقلیت کے خلاف بھی مورچہ لگا دیا ہے۔ مودی سرکار کی پشت پر آر ایس ایس اور اس کا سنگھ پریوار کھڑا ہے۔ ریاستی تنظیم کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیم کی قوت کے ساتھ مودی سرکار آر ایس ایس کے نظریات کو عملی طور پر نافذ کرنے اور بھارت کو مذہبی ہندو ریاست بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بہترین عالمی سفارتکاری کے ساتھ عالمی رائے عامہ بھی مودی سرکار کے ایسے متشدد اقدامات کے خلاف آواز اٹھاتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس لئے ایسے لگتا ہے کہ ہندوستان کے 20/22کروڑ مسلمان کیونکہ منظم نہیں ہیں انہیں کسی ریاست کی سرپرستی یا پشت پناہی بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لئے نہیں لگتا کہ مودی سرکار کو لگام دی جا سکے۔ ہندوؤں میں بھی مودی کے ایسے اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی ہے۔ کچھ ہندو، مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، لیکن ایسے مظاہرے اس قدر طاقتور نہیں ہیں کہ وہ مودی سرکار کو ان کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے سے روک سکیں۔ بس اب ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے اور وہ ہے قدرت کی مداخلت کا کہ وہ ابابیلیں بھیجے جو دشمن کے ہاتھیوں کا بھرکس نکال دیں۔

Leave a Reply