Aaj Kay Doar Ka Sab Say Azeem Sahafi

آج کے دور کا سب سے عظیم صحافی

اگر یہ شخص آیت اللہ خمینی کے ایران، معمر قذافی کے لیبیا، محمد مرسی کے مصر، خروسچیف کے سوویت یونین، فیڈرل کاسترو کے کیوبا، کم جونگ اِن کے شمالی کوریا، صدام حسین کے عراق، مُلا محمد عمرؒ کے افغانستان یا مائوزے تنگ اور شی جن پنگ کے چین میں پیدا ہوتا، اپنے ملک کے خلاف حقائق جمع کرتا، اپنے ملک کے رہنمائوں اور اپنے نظام کی خرابیوں کو بے نقاب کرتا تو پھر اس کیلئے دُنیا بھر کے اخبارات اپنے صفحات حاضر کرتے، نہ صرف اس کے مضامین اہتمام سے چھپتے، بلکہ اس کی عظمت کے اعتراف میں بھی مضامین لکھے جاتے۔ بڑے بڑے ٹیلی ویژن چینلوں کے مقبول اینکر اسے اپنے پروگراموں میں خصوصی مہمان کے طور پر بلاتے، عالمی سطح کی یونیورسٹیاں اسے اپنے ہاں لیکچر دینے کیلئے مدعو کرتیں۔ وہ اب تک ایک عالمی شخصیت بن چکا ہوتا۔ اسے ’’سی پی جے ‘‘ (Committe to Protect Journalist) کا عالمی پریس فریڈم ایوارڈ بھی مل چکا ہوتا۔ ہر سال نومبر میں آزادیٔ صحافت کے ’’چیمپئن‘‘ صحافیوں کو یہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ اس فہرست میں چین کے ’’تانمین‘‘ اسکوائر میں 1989ء میں ہونے والے مظاہروں میں پکڑے جانے والے دو عام سے کارکنان، چن زامنگ اور وانگ جی تائو بھی شامل تھے، جنہیں چینی عدالت سے تیرہ سال کی سزا ہوئی تھی۔ لیکن چونکہ چین کو اس وقت اپنی تجارت بہتر بنانے کیلئے امریکہ سے ’’سب سے منظورِ نظر قوم‘‘ (Most Favourite Nation) کا سر ٹیفکیٹ چاہئے تھا، اس لئے امریکی وزیرِ خارجہ وارن کرسٹوفر کے چین کے دورے سے پہلے وانگ جی تائو کو علاج کیلئے نیویارک جانے کی اجازت ملی اور چن زامنگ کو علاج کی خاطر طبی پیرول پر گھر بھیج دیا گیا۔ تاجکستان کی نویدی واخاش، ترکی میں کرد قوم پرستوں کے اخبار ’’اوزگر گوندم‘‘ میں کام کرنے والے صحافی، چین کی کیمونسٹ پارٹی کا ناقد ژانگ وائی پنگ، سری لنکا کا جے ایس تی سینا یاگم، جس کو اس کی حکومت نے فرقہ وارانہ اور نسل پرستانہ منافرت پھیلانے والے مضامین لکھنے پر دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیا تھا اور اسے امریکی دبائو پر 3 مئی 2010ء کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ سوویت یونین کی نیوز کاسٹر تاتانیہ مٹکوا بھی شامل ہے جس نے 1991ء میں لتھوینیا کے بارے میں سرکاری خبر پڑھنے سے انکار کیا تھا، بحرین کے شیعہ مذہبی رہنما عبدالامیر الجمری کا کالم نگار بیٹا منصور الجمری، بنگلہ دیش کا فوٹو گرافر شاہدالاسلام جسے بنگلہ دیش میں ٹریفک کی بدانتظامی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے پر گرفتار کیا گیا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے دبائو ڈال کر رہا کروایا پھر اسے یہ ایوارڈ ملا (کیا بات ہے اس عالمی سطح کے ایوارڈ والے کارنامہ کی)۔ غرض یہ ایک لمبی فہرست ہے، لیکن اس فہرست میں اس عظیم صحافی کا نام کہیں بھی نہیں جس کے کارنامے ان تمام ایوارڈ یافتگان کے کل کارناموں سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ اس سطح کا ایک بھی صحافی اگر چین، ایران، کوریا یا دیگر ملکوں کے خلاف لکھتا ہوا مل جاتا تو اب تک اسے نوبل انعام سے نوازا جا چکا ہوتا۔ لیکن آج یہ صحافی امریکہ کے بدترین انتقام کا نشانہ ہے۔ یہ شخص جولین آسانج (Julian Assange) ہے جو 3 جولائی 1971ء کو آسٹریلیاء کے شہر کوئنز لینڈ میں پیدا ہوا۔ چونکہ یہ شخص ایک ایسے عہد میں صحافتی دُنیا میں آیا جب یہ کمپیوٹر کی دُنیا بن چکی تھی، اور وہ خود بھی ایک کمپیوٹر پروگرامر تھا، اس لئے اس نے صحافت کیلئے اسی راستے کو اختیار کیا اور ویکی لیکس (WikiLeaks) کی بنیاد رکھی۔ ابھی اس نے جوانی میں قدم رکھا ہی تھا کہ وہ امریکہ کے سب سے محفوظ کمپیوٹر نظام ناسا (NASA) کو لیک کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بیس سال کی عمر میں اسے آسٹریلوی عدالت نے اہم راز افشا کرنے کے جرم میں جرمانہ کیا۔ اس نے میلبورن یونیورسٹی میں فزکس کے ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا، لیکن اپنی متلون مزاجی کی وجہ سے چھوڑ کر اس نے 2000ء میں ’’ویکی لیکس‘‘ بنا لی۔ اس کی بنیاد رکھتے ہوئے اس نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم کوئی غیر مصدقہ خبر نہیں دیں گے، بلکہ اصل مسودات سامنے لے کر آئیں گے۔ اس نے جب پہلی دفعہ گوانتاناموبے میں قیدیوں پر ہونے والے سلوک اور تشدد کے شواہد ثبوتوں کے ساتھ پیش کئے تو ایک دم عالمی طاقتوں کے ایوانوں میں بھونچال آ گیا، اس لئے کہ شواہد ناقابلِ تردید تھے۔ اس دوران اس کا رابطہ امریکی فوج کے خفیہ یونٹ کے اہم رکن بریڈلی میننگ (Breadly Manning) سے ہوا، جس نے آسانج کو پانچ لاکھ کے قریب ایسی ای میل، خط و کتابت اور دیگر ریکارڈ فراہم کیا جو 1966ء سے لے کر 2009ء تک امریکی فوج کے مظالم، خفیہ سرگرمیوں اور دُنیا بھر کے ممالک میں ہونے والی امریکی سازشوں کو بے نقاب کرتا تھا۔ آسانج نے انہیں چھاپ کر طوفان برپا کر دیا۔ جولین آسانج ایک بے خوف، نڈر اور حیران کن صحافی ہے، جس نے عین اس وقت سچ بولنا شروع کیا، جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پوری دُنیا کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ اس نے عراق اور افغانستان میں امریکی جنگی جرائم سے پردہ اُٹھایا، شہریوں کے قتل عام کے ثبوت فراہم کئے، یہاں تک کہ ان صحافیوں کی فہرست بھی دی، جنہیں امریکیوں نے قتل کیا تھا۔ اس نے امریکہ کی یمن میں خفیہ جنگ کی پوری کہانی بے نقاب کی اور بتایا کہ کیسے وہاں اسلحہ اور سرمایہ پہنچایا جاتا رہا۔ یہ جرائم کوئی اخباری رپورٹیں یا جائزے نہیں تھے، بلکہ امریکیوں نے خود انہیں اپنے خفیہ ریکارڈ میں محفوظ کر رکھا تھا اور انہیں اندازہ تک نہ تھا کہ یہ سب کچھ ایک دن جولین آسانج کے ہاتھ چڑھ جائے گا۔ وہ امریکہ جو دُنیا بھر کے صحافیوں کو ایوارڈ دیتا ہے اور آزادیٔ صحافت کا پرچم تھامے ہوئے ہے، آسانج کے خلاف اچانک بالکل ایک مافیا لارڈ، گینگسٹر (Gangster) یا ڈیرے دار بدمعاش کی طرح بھڑک اُٹھا۔ اس نے اپنی کاسہ لیس ریاستوں آسٹریلیا اور برطانیہ کے ذریعے اس شخص کو عبرتناک انجام تک پہنچانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ آسانج نے بھاگ کر ایکواڈور کے سفارتخانے میں پناہ لی۔ یہ وہی ایکواڈور ہے جس نے عالمی ناجائز قرضے واپس نہ کرنے کی جرأت کی تھی۔ وہ اس سفارتخانے میں سات سال چھپا ہوا تھا کہ ایک دن برطانیہ کی پولیس آئی، تمام سفارتی ضابطے بالائے طاق رکھ کر اسے ایسے سخت سیکورٹی والے قید خانے میں لے گئی جہاں دہشت گرد، قاتل اور جنسی تشدد کرنے والے رکھے جاتے تھے۔ اب برطانوی نظام انصاف کا غلیظ چہرہ سامنے آیا۔ ہائی کورٹ نے آسانج کی امریکہ کو حوالگی کے مقدمے کو عوامی اہمیت (Public importance) کا مقدمہ قرار دے کر اسے سپریم کورٹ کیلئے بھیج دیا۔ اس کی امریکہ کو حوالگی کا مطلب یہ تھا کہ اسے وہاں موت کی سزا سنا دی جائے گی۔ لیکن مقدمے کے دوران ہی اسے اس قدر اذیتیں دی گئیں کہ اس پر فالج کا حملہ ہوا، اس نے خودکشی کی کوشش کی۔ سی آئی اے نے اسے قتل کرنے کی دو دفعہ کوشش کی لیکن وہ بچ نکلا۔ اس عظیم صحافی کے حق میں دُنیا کے کسی بھی ملک میں کبھی کوئی ریلی یا جلوس برآمد نہیں ہوا، اسے کسی ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔ صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم CPJ بھی چُپ ہے۔ دُنیا بھر میں شور مچانے والی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی زبان گنگ ہے۔ جارج گیلوے (George Gallway) جو برطانوی پارلیمنٹ کا رکن رہا ہے اور اس پورے نظام کا نقاد ہے، اس نے لکھا ہے۔ “If Julian Assange were a Chinese Journalist and Publisher, he have had the Nobel Prize” ’’اگر جولین آسانج کوئی چینی صحافی یا پبلشر ہوتا تو اب تک اسے نوبل انعام مل چکا ہوتا‘‘۔ وہ مزید کہتا ہے کہ اسے انسانی حقوق کے عالمی دن کی علامت بنا دیا جاتا۔ اگر آسانج نے امریکیوں کی بجائے چینی جنگی جرائم بتائے ہوتے وہ آج اس مہم کا ’’پوسٹر بوائے‘‘ ہوتا جس کا مقصد چین میں ہونے والے سرمائی اولمپک کا بائیکاٹ کرنا ہوتا۔ پوری دُنیا کے ممالک کو چھوڑیں، پاکستان میں بھی کسی انسانی حقوق کی تنظیم یا این جی او نے اس کے حق میں جلوس نہیں نکالا، موم بتی نہیں روشن کی۔ سب کو ڈر ہے کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو پھر وہ ساری فنڈنگ ایک دَم بند ہو جائے گی جس کے بَل بوتے پر وہ پاکستان میں انسانی حقوق کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔




Leave a Reply