Sadarti Nizam Ki Baaz Gasht


صدارتی نظام کی بازگشت

پاکستان میں آج کل صدارتی نظام کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہورہا۔ عمران خان نے ابھی اقتدار سنبھالا ہی تھا تب بھی صدارتی نظام کے حق میں اسی طرح کی ایک مہم چلائی گئی تھی جس میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ عمران خان پاکستان کے آخری وزیر اعظم ہوں گے، اس کے بعد صدارتی نظام آجائے گا۔




حکومت اور بالخصوص عمران خان کی حمایت کرنے والے دانشور صحافی اس مہم کا حصہ تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت حکومت اور عمران خان کے حمایتی دانشور اور اسٹبلشمنٹ کے حامی ایک ہی تھے۔ تا ہم آج صورتحال بدل چکی ہے۔ ہم اب دونوں میں فرق کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ مقتدر حلقوں کے حمایتی دانشور اور صحافی اب اس طرح عمران خان کی حمایت نہیں کرتے جیسے وہ تین سال پہلے کرتے تھے بلکہ آجکل وہ اپنی پرانی حمایت پر معافی مانگ رہے ہیں۔ بہرحال آجکل پھر سوشل میڈیا پر صدارتی نظام کا بخار نظر آرہا ہے۔ٹاپ ٹرینڈ بنائے جا رہے ہیں، ہیش ٹیگ بنائے جا رہے ہیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی تو ہے جو ملک میں صدارتی نظام کے حق میں مہم چلا رہا ہے۔ فی الحال اس کی کوئی باقاعدہ شناخت سامنے نہیں ہے۔ کسی سیاسی جماعت نے اس کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ اپوزیشن تو اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ کیا طاقتور اور مقتدر حلقے ایک نئے صدارتی نظام کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوامی رد عمل چیک کیاجا رہا ہے، دیکھا جا رہا ہے کہ عام آدمی صدارتی نظام کے حق میں کیسا رد عمل دیتا ہے۔ مجھے بھی لگتا ہے کہ یہ مہم ابھی صرف درجہ حرارت چیک کرنے کے لیے ہے۔
تا ہم حقیقت یہ ہے کہ اگر صدارتی نظام لانے کے لیے جمہوریت کی بساط لپیٹنے ہوگی۔ جمہوریت اور صدارتی نظام اکٹھے نہیں چل سکتے۔ اب جمہوریت کی بساط کون لپیٹتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہانی کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہے۔ سلیکٹرز عمران خان کی ناکامی کے بعد اب کیا کریں۔ کسی پرانے کو واپس لانے کی ایک قیمت ہے، نیا کوئی تجربہ ممکن نہیں ہے، ایسے میں جمہوریت کی بساط لپیٹنا ہی ایک آپشن بچتا ہے۔ شاید یہ سوچا ہے کہ آزمائے لوگوں سے صلح کرنے کی قیمت ادا کرنے کے بجائے نئے نظام کے ایڈونچر کی قیمت ادا کی جائے۔ لیکن ابھی کچھ فائنل نہیں، کئی آپشن میں یہ بھی ایک آپشن سمجھ کر عوامی رد عمل چیک کرنے کے پائلٹ پراجیکٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان میں اس سے پہلے کبھی صدارتی نظام نہیں رہا۔ایسا نہیں ہے جب بھی ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی ہے، ملک میں صدارتی نظام ہی نافذ کیا گیا ہے۔ ایوب خان نے مکمل صدارتی نظام قائم رکھا۔ ملک میں صدارتی انتخاب ہی ہوئے۔ ضیاء الحق نے بھی 1977سے 1985تک آٹھ سال صدارتی نظام ہی قائم رکھا۔ پرویز مشرف نے بھی 1999سے 2002تک مکمل صدارتی نظام ہی قائم رکھا۔ یحیی خان نے بھی جب تک ملک دو لخت نہیں ہو گیا، ملک میں صدارتی نظام ہی قائم رکھا۔ یہ صدور آئین کو معطل بھی کرتے رہے اور خود کو ہی آئین قرار دیتے رہے۔ پاکستان کی عدلیہ نے بھی انھیں آئین میں تبدیلی کے لا محدود اختیارات دیکر صدارتی نطام کو مکمل با اختیار کیا۔

پاکستان میں صدارتی نظام کی ایک سیاہ تاریخ موجود ہے۔ پاکستان نے بحیثیت قوم اور بحیثیت ریاست پاکستان بھی ان تمام صدارتی ادوار کی ایک بڑی اور بھاری قیمت چکائی ہے۔ میں اس وقت اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ دوست یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھٹو سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہے، ان کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ جواب یہ ہے جب ملک دو لخت ہوگیا تھا، بھٹو ٹوٹے ہوئے پاکستان کے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹربنے ، وہ بھی مختصر مدت کے لیے اور پھر بھٹو نے ملک کو آئین دیا، جو آج بھی ہماری پہچان ہے۔ فاروق لغاری بھی ایک مضبوط صدر تھے۔

انھوں نے بھی جمہوری حکومت ختم کی تھی، بے شک وہ ایک مضبوط صدر تھے۔ انھوں نے جمہوریت کی بساط لپیٹی لیکن آئین معطل کیا اور نہ ہی نیا صدارتی نظام نافذ کیا، مقررہ مدت میں دوبارہ انتخاب کرائے اور ایک نئی حکومت لے آئے۔ غلام اسحاق خان بھی مضبوط صدر رہے، انھوں نے ایک نہیں دو دو حکومتوں کو گھر بھیجا۔ لیکن وہ بھی کوئی نیا نظام لا سکے نہ آئین معطل کر سکے۔ آصف زرداری بھی ایک مضبوط صدر تھے۔ لیکن انھوں نے صدر کا پارلیمنٹ توڑنے کا اختیار ہی ختم کردیا۔ اسی لیے اب صدر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔

پاکستان میں صدارتی نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پارلیمنٹ ہے۔ اس لیے اگر آج کوئی طبقہ یا گروہ پاکستان میں صدارتی نظام رائج کرنے کا خواہاں ہے تو وہ آئین سے ماروا کوئی کام کرنے کا خواہاں ہے۔ پارلیمنٹ اور آئین کے اندر سے یہ راستہ ممکن نہیں ۔ اگر ممکن بھی ہے تو اس قدر مشکل ہے اسے نا ممکن ہی کہا جا سکتا ہے۔ ویسے آئینی ماہرین کی یہ بھی رائے ہے کہ پارلیمنٹ کے پاس آئین میں ترمیم کا اختیار تو ہے، وہ صدارتی نظام کے حق میں آئینی ترمیم پاس کرسکتی ہے لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نظام حکومت اور آئین کے بنیادی شکل بدلنے کے لیے ایک نئی آئین ساز اسمبلی لانا ہوگی۔

صرف وہی اسمبلی جو آئین تبدیل کرنے کے لیے معرض وجود میں آئے وہی یہ کام کر سکتی ہے جو عملی طور پر نا ممکن ہے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ہم اس آئین پر بھی ملک دو لخت ہونے کے بعد متفق ہوئے تھے۔ اس لیے کوئی نیا ایڈونچر خطرناک ہو سکتا ہے۔ سب اسٹیک ہولڈرزکا متفق ہونا بھی عملاً نا ممکن ہے۔

لہٰذا ڈنڈے سے ہی کام ہو سکتا ہے اور ڈنڈے سے کیے گئے کاموں کی ناکامی اور نقصانات سے کے سامنے موجود ہیں۔ جب تک پاکستان کے عوام کی تائید نہیں ہوگی کامیابی نہیں ملے گی، چاہے سپریم کورٹ بھی اجازت دے دے۔ داغ دار ماضی ہمارے سامنے ہے، اگر مزید بات کروں یا لکھوں تو شاید اپنے پر جلا بیٹھوں، لہٰذا تھوڑے کو بہت جانا جائے، ویسے پاکستان میں جمہوریت اور آئین کے خلاف بات کرنے اور لکھنے کی کھلی چھٹی ہے۔

Leave a Reply