2022 Ka Maidane Jang

2022ء کا میدانِ جنگ

پاکستان اور بھارت دونوں طرف میدانِ سیاست گرم ہے۔ بھارت میں نریندر مودی بی جے پی کی حکومت کو برقرار رکھنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کی خواہش میں پورے ملک کو ایک ایسے مقام پر لے آیا ہے کہ آج دُنیا بھر کے سیاسی مبصرین،بھارت میں مسلمان اقلیت کے ایک بہت بڑے قتلِ عام اور ان کی نسل کشی کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ ہردوار کا میلہ جسے عرفِ عام میں ’’کنبھ‘‘ کا میلہ کہا جاتا ہے، یہ ہر بارہ سال کے بعد منعقد ہوتا ہے۔ اس میلے میں عموماً تقریباً 20 کروڑ لوگ جمع ہوتے ہیں اور تہوار کے مخصوص اور مقدس دن تو 5 کروڑ ہندوئوں کا ہجوم اکثر ہوتا ہے۔ ایسے ہجوم سے مسلمانوں کے قتلِ عام پر قسم لینا، بالکل ایسے ہی ہے جیسے حج کے موقع پر مسلمان کسی دوسری قوم کے قتل کی قسم اُٹھائیں یا ویٹکن سٹی میں پوپ کی رونمائی کے لمحے، وہاں موجود لاکھوں کیتھولک عیسائی کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو قتل کرنے کا مصمم ارادہ کریں۔ یہ ایک خوفناک منظرنامہ ہے جو ان بائیس کروڑ مسلمانوں کی زندگیوں سے وابستہ ہو چکا ہے جو بھارت میں رہتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے ایک سیاسی دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے جو عمران خان کے دھرنے کے اختتام کے بعد سے پانامہ پیپر سکینڈل کی بھول بھلیوں سے ہوتی ہوئی ، اب ایک ایسے مقام تک آ پہنچی ہے کہ اس ملک کا معاشی مسئلہ ہو یا سیاسی، عسکری صورتحال ہو یا سرحدی تنازعات، کسی معاملے میں بھی سنجیدہ گفتگو کرنا تقریباً ناممکن سا ہو کر رہ گیا ہے۔ ہر کوئی ایک لٹھ مار ہے اور دوسرے کا نشانہ لئے بیٹھا ہے۔ طالبان کی افغانستان میں آمد اور بھارت کی وہاں سے رُخصتی نے کسی حد تک پاکستان کو سکون کا سانس تو لینے دیا تھا، لیکن ملکی معیشت کی زبوں حالی، اور سیاسی عدمِ برداشت نے مل کر ایک ایسی فضا بنا دی ہے کہ ایک طویل عرصے سے ہمارے سنجیدہ لکھنے والوں نے بھی ایسے خطرات پر لکھنا تقریباً ترک کر دیا ہے جو خطے میں اردگرد منڈلا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے بالکل برعکس دُنیا بھر کے عسکری ماہرین اس سال یعنی 2022ء میں ایک میدانِ جنگ بہت زیادہ گرم ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، بلکہ ان کے نزدیک تو جنگ کی تیاریاں بالکل مکمل ہو چکی ہیں اور کسی بھی وقت توپوں کی گھن گرج، جہازوں کی پرواز اور فوجیوں کے مارچ کی صدائیں سُنائی دینے لگ جائیں۔ یہ میدانِ جنگ دو ایسی سرحدی لکیروں کے آس پاس ہو گا جنہیں اپنے تنازعات اور مخصوص حالات کی وجہ سے عالمی بائونڈری کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی۔ ان میں سے ایک کشمیر کی مشہول لائن آف کنٹرول (LOC) ہے جبکہ دوسری چین اور بھارت کے درمیان “LAC” ہے جسے ’’لائن آف ایکچول (Actual) کنٹرول‘‘ کہتے ہیں۔ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی تو گذشتہ سو سال سے لوگوں کی نظروں میں ہے اور کسی نہ کسی عالمی اور علاقائی فورم پر اس پر گفتگوہوتی رہتی ہے، جبکہ چین اور بھارت سرحد پر منی پور ریاست اور اروناچل پردیش کے علاقوں میں جو آزادی کی تحریکیں ایک زمانے پروان چڑھی تھیں اور پھر سرد ہو گئی تھیں، لگتا ہے ان میں گذشتہ چند سالوں سے جیسے جان پڑ گئی ہو۔ ان میں سے سب سے اہم منی پور کی پیپلز لبریشن آرمی ہے، جسے عرفِ عام میں پی ایل اے (PLA) کہا جاتا ہے۔ اسے 25 ستمبر 1978ء کو بیشوار سنگھ نے قائم کیا تھا، جو اپنے خطے کی آزادی کے بعد وہاں ایک سوشلسٹ ریاست قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس تنظیم نے شروع دن سے لے کر آج تک گوریلا سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، مگر انہیں کسی قسم کی بیرونی امداد حاصل نہیں تھی، اس لئے جب بھارتی افواج نے ان کے اہم رہنمائوں کو قتل کیا اور بیشوار سنگھ کو گرفتار کیا تو پھر ان کی سرگرمیاں نرم پڑ گئیں۔ یہاں کے لوگوں میں آزادی اور خودمختاری کا جذبہ اس قدر پرانا ہے کہ ’’موریہ‘‘ اور ’’گپتا‘‘ کے قدیم ہندو بادشاہتوں کے زمانے میں بھی یہ خطہ ایک آزاد ریاست کے طور پر ہی قائم رہا۔ انگریزوں نے 1891ء میں ایک چھوٹی سی جنگ کے بعد اسے اپنی حفاظتی تحویل (Protectorate) والا علاقہ قرار دے دیا، لیکن اس کی خودمختاری قائم رہی۔ بھارت نے 21 اکتوبر 1949ء کو اسے اپنا حصہ قرار دیا تو شدید خونی ہنگامے پھوٹ پڑے اور 1972ء میں اسے ایک آزاد ریاست کا درجہ دینا پڑا، لیکن عوام اس حیثیت پر بھی راضی نہ ہوئے اور وہاں آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑ لیا۔ منی پور کے بالکل پڑوس میں ناگالینڈ کی قوم پرست تحریک نے بھارتی افواج پر حملے شروع کئے تو دونوں ریاستوں میں بھارت نے 1958ء کے آرمڈ فورسز (سپیشل پاور) ایکٹ کے ذریعے فوج کو وسیع اختیارات دے دیئے اور یوں یہ پورا خطہ مسلسل تخریب کاری اور حکومتی تنصیبات پر حملوں کے علاوہ فوج کے جوان کو قتل کرنے کے واقعات سے عبارت ہو گیا۔ ان دونوں ریاستوں کے شمال میں ایک انتہائی خوبصورت خطہ ہے، جسے اروناچل پردیش کہتے ہیں۔ گھنے جنگلوں، دریائوں، ندی نالوں اور خوبصورت وادیوں والا یہ خطہ چین کے بارڈر پر واقعہ ہے اور اس کے ساتھ ہی ناگالینڈ کی سرحد ہے، جس کی اپنی سرحد منی پور سے جڑی ہوئی ہے اور یوں یہ ایک مسلسل خطہ بن جاتا ہے جو چین سے ملحق ہے۔ برطانوی حکومت نے 1912ء میں یہاں کے رہنے والے قبائل کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ ان کی شمالی سرحد کی حفاظت کریں گے اور برطانوی حکومت انہیں مراعات دے گی۔ جس طرح ہمارے ہاں ’’شمالی مغربی سرحدی‘‘ صوبہ بنایا گیا تھا، اسی طرح وہاں بھی ’’شمالی مشرقی سرحدی‘‘ صوبہ بنایا گیا، جس کا بھارتی حکومت نے نام بدل کر اروناچل پردیش رکھ دیا۔ اس ریاست اور چین کے درمیان 885 کلومیٹر لمبی سرحد ہے جسے سرہنری میک موہن (Henry Mac Mohan) کے نام پر ’’میک موہن لائن‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے ہی بھارت کو آزادی ملی تو اس وقت چیانک کائی شیک کی چینی حکومت نے مطالبہ کیا کہ اروناچل پردیش سے آسام تک کا سارے کا سارا علاقہ، چین کا ہے اور اس نے کبھی بھی میک موہن کی لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ جواہر لال نہرو اور سوشلسٹ انقلاب کے بعد کے چینی وزیر اعظم چواین لائی کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی اس میں ایک خط کے ساتھ چواین لائن نے 1929ء کے “Britanica” کا ایک نقشہ بھی لگایا جس میں اس علاقے کو متنازعہ بتایا گیا تھا۔ برطانوی حکومت کے سروے آف انڈیا نے 1883ء میں جو نقشہ شائع کیا اس میں اس علاقے کو تبت کا حصہ قرار دیا۔ 26 اگست 1959ء کو چین کی افواج نے میک موہن لائن عبور کی، بھارت کی چوکیوں پر قبضہ کیا، دو سال بعد واپس چلے گئے لیکن 1962ء میں پھر آئے لیکن اس دفعہ ذرا زیادہ علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ 1963ء میں انہوں نے قید ہونے والے بھارتی فوجی تو چھوڑ دیئے لیکن علاقے پر قبضہ برقرار رکھا۔ جب سے چین کے خلاف بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کا چار ملکی اتحاد بنا ہے، منی پور کی سوشلسٹ آزادی پرست تحریک پی ایل اے میں جیسے جان پڑ گئی ہے اور انہوں نے گوریلا کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ گذشتہ ماہ انہوں نے وہاں تعینات یونٹ کے انچارج کرنل بپلاپ تری پاتھی اور اس کی بیوی کو ایک حملے میں قتل کر دیا۔ اس حملے میں تین بم نصب کئے گئے تھے اور پھر تقریباً پندرہ کے قریب گوریلوں نے دھماکوں کے بعد بھی فائرنگ کی تاکہ زندہ بچنے کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ (جاری ہے)




Leave a Reply