2022 Ka Maidan e Jang

2022ء کا میدانِ جنگ

برطانوی ہندوستان کے مشرقی اور مغربی سمت کھینچی گئی دونوں لائنیں، جنہیں برطانیہ نے اپنے عروج ِ اقتدار میں عالمی سرحدیں قرار دیا تھا، اس کے جانے کے بعد متنازعہ ترین سرحدی لکیریں بن گئیں۔ مغرب میں ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ اور مشرق میں ’’میک موہن لائن‘‘ ۔ ڈیورنڈ لائن کا عالمی تحفظ اس وقت شروع ہوا، جب1979ء میں روس افغانستان میں داخل ہوا اور یہ خطرہ بڑھ گیا کہ اگر یہ اس سرحد کو عبور کر گیا تو پھر گرم پانیوں تک پہنچنے کا اس کا دیرینہ خواب پورا ہو جائے گا ۔ لیکن 15اگست 2021ء کو طالبان کی امریکہ کو شکست کے بعد اب یہ محاذ سرد ہے اور شاید مدتوں سرد ہی رہے ۔ لیکن مشرقی لکیرجسے سر ونسٹ آرتھر ہنری میک موہن (Vincent Arthur Henry Mc Mohen)نے 25مارچ 1914ء کو دلّی میں تبتّ کے نمائندوں کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد کھینچا تھا اور پھر اسے مشہور عام ’’شملہ معاہدے‘‘کا بھی حصہ بنا دیا تھا ، اب ایک متنازعہ سرحد کے طور پر ازسرِ نو زندہ ہوچکی ہے۔ کل ہی یعنی 22جنوری 2022ء کو پیپلز لبریشن آرمی (PLA)نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے انہوں نے اس آبشار کے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے جسے ہندی میں ’’چومی گیا تسر‘‘ اور چینی میں ’’ڈونگ زانگ‘‘ کہتے ہیں۔ 14نومبر 2021ء کو 46آسام رائفلز کے کرنل اور اس کی بیوی کے قتل کے بعد یہ سب سے بڑا واقعہ ہے۔ پی ایل اے جو کہ ایک نظریاتی سوشلسٹ عسکری تنظیم ہے، وہ یہ منصوبہ رکھتی ہے کہ سب سے پہلے شمالی مشرقی بھارت کی ان سات ریاستوں کو علیحدہ کیا جائے جو اس لیے آسان ہے کہ اس خطے کوبھارت سے جوڑنے کے لیے صرف ایک 22کلومیٹر چوڑا راستہ ہی ہے جسے سلگری (Silguri)کاریڈور کہتے ہیں۔ یہ 170کلو میٹر لمبا ہے اور اس کے ایک جانب چین اور دوسری جانب بنگلہ دیش ہے۔ تھوڑے سے فاصلے پر نصب توپیں اس راستے کو آسانی سے بند کرسکتی ہیں اور ان سات ریاستوں میں تعینات بھارتی فوج کی بھی وہی حالت ہو جائے گی جیسی 1971ء میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی ہوئی تھی۔ جب سے پی ایل اے اس پورے خطے میں ایک بار پھر پوری قوت سے ابھری ہے، بھارت اور مغربی میڈیا یہ الزام لگا رہا ہے کہ اسے چین کی لبریشن آرمی کی مدد اور ٹریننگ حاصل ہے۔ بھارت نے ایک گوریلے ’’سرگنیت رونی‘‘ کے بیان کو بھی خوب اچھالا ہے، جس نے اپنی گرفتاری کے بعد بتایا کہ علاقے میں ہماری 16گوریلا پلاٹون چین سے ٹریننگ لے کر آچکی ہیں۔ ساؤتھ ایشیاء سٹڈیز آف یورپی فاؤنڈیشن نے بھی ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ برما میںچھپے ہوئے جنگجو گوریلوں کو چین اسلحہ اور ٹریننگ فراہم کر رہا ہے، جس سے بھارت کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ساؤتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل نے بھی ایک سلسلہ وار ترتیب (Trail)بتائی ہے جس کے مطابق منی پور کی پی ایل اے نے برما میںناگا لینڈ کی جنگجو تنظیم ’’نیشنلسٹ سوشلسٹ کونسل آف ناگا لینڈ‘‘ (NSCN)کے گوریلوں سے تربیت حاصل کی اور اس کے چین کی لبریشن آرمی سے گہرے عسکری تعلقات ہیں۔ بھارت میں ان تنظیموں کی کارروائیاں تو کافی عرصے سے جاری تھیں لیکن سوویت یونین کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات اور چین کی عدم مداخلت کی پالیسی کی وجہ سے یہ اپنی جنگ اپنے طور پر جاری رکھے ہوئے تھیں۔ انہی کی گوریلا کارروائیوں کی وجہ سے بھارت کو فوج کی ایک خاصی تعداد وہاں رکھنا پڑتی ہے اور فوج کو سپیشل پاورز کے تحت یہاں وسیع اختیارات بھی دیئے ہوئے ہیں۔ ایک ماہ پہلے بھارتی فوج نے کارروائی کرتے ہوئے 14شہریوں کو ہلاک کیا تھا، جس پر ناگا لینڈ کی اسمبلی نے قرارداد پاس کی کہ چونکہ فوج کو خصوصی اختیارات 1942ء میں انگریز نے دوسری جنگِ عظیم میں سبھاش چندر بھوس کی آزاد ہند فوج کے خلاف دیے تھے،اس لیے انہیں ختم کیا جائے۔ لیکن اس کے بعد بھارت نے وہاں مزید فوج کا اضافہ کر دیا ۔ یہ پورے کا پورا خطہ سات آزاد خود مختار ریاستوں اور آسام کے صوبہ پر مشتمل ہے جسے بھارت میں ضم کیا گیا۔ یہ بھارت سے معاشرتی اور علاقائی طور پر بالکل علیحدہ ہے۔ منی پور، میگھا لا، میزو رام، ناگا لینڈ، تری پورہ، سکم، اور ناچل پردیش کے ساتھ ساتھ آسام سب کے سب ایسے قبائل اور نسلوں کا مسکن ہیں جو چین، برما اور بنگال کی آبادیوں سے ملتی جلتی ہیں اور جنہیں انگریز نے اپنی دفاعی ضروریات اور سلطنت کی وسعت کے لیے ساتھ ملایا تھا۔ اسی لیے وہاں کے بیشتر دانشور اور سیاستدان بھارت سے الحاق کو ایک ناپاک (Unholy) اتحاد (Alliance)کہتے ہیں۔ 2022ء اسی ناپاک اتحاد کے حوالے سے بھارت پر حملے کا سال ہے اور لاتعداد عسکری ماہرین کے مطابق اس کی منصوبہ بندی مکمل ہو چکی ہے۔ گزشتہ دنوں بی بی سی نے دس منٹ لمبی ایک ڈاکومنٹری نشر کی، جس میں بھارت اور چین کی آخری سرحدوں کا سفر دکھایا گیا ،اور بھارت کی بڑی چھاؤنی ہولیانگ بھی گئے، جہاں 1962ء کی بھارت چین جنگ میں ہزاروں مارے جانے والے فوجیوں کے کتبے بھی لگے ہیں۔ کاؤ گاؤں جو چین بھارت سرحد پر ہے وہاں اس وقت دونوں ملکوں کی افواج ایسے مستعدکھڑی ہیں جیسے جنگ ہونے والی ہے۔ پروان سواہنی جو بھارتی عسکری جرنل فورس (Force)کا ایڈیٹر ہے، اس نے جنوری کے آغاز میں اپنے مضامین اور ویڈیوز کے ذریعے، ایسی منصوبہ بندی کی بات کی ہے، جس کے تحت 2022ء میں بھارت چین کے درمیان پر اکسی یا اصل جنگ ہو سکتی ہے۔ اس کے نزدیک اس سال چین کی LACاور پاکستان کی LOCدونوں پر معرکوں کی تیاری مکمل ہے۔اس کے نزدیک 1947ء سے لے کر آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بھارت کے مشرقی اور مغربی دونوں بارڈر خطرناک حد تک جنگ زدہ ہوں۔ اسکا آغاز اپریل 2021ء میں ہوا تھا جب چین کی افواج نے بھارت کے ایک ہزار مربع کلومیٹر رقبہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ چینی فوجیوں نے ایک بھی گولی فائر نہ کی اور پتھروں اور لاٹھیوں وغیرہ کے استعمال سے بیس بھارت فوجیوں کو مار ڈالا۔ اس کے بعد ستمبر 2020ء کو ماسکو میں چین اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت بھارت نے ایک ہزار مربع کلومیٹر کا چینی قبضہ عملاًتسلیم کر لیا اور بارڈر کو متنازعہ بھی مان لیا، ساتھ تبت ہی کو بھی ایسا آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا جس پر صرف چین کا اختیار ہوگا۔ یہ وہی علاقہ ہے کہ جہاں گوریلا جنگجوؤں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ لیکن یکم جنوری 2020ء کو چین نے ’’باؤنڈری لائ‘‘ کے نام سے ایک قانون پاس کیا، جس کے تحت ’’LAC‘‘اب ایک متنازعہ سرحد نہیں ہے بلکہ یہ چین کے اقتدارِ اعلیٰ کی علامت ہے ۔ اس قانون کے بعد چین نے اس سرحد پر ایسی مشین گنیں نصب کر دیں ہیں جو روبوٹ سے چلتی ہیں اور ایسے ٹینک کھڑے کر دیے جو کمپیوٹر کنٹرول سے چلتے ہیں۔ یعنی چند لوگ ہیڈ کوارٹر میں بیٹھ کرحملہ آور ہوں گے۔ دوسری جانب کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے بارے میں عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت نے سب سے بڑی غلطی 5اگست 2019ء کو اس وقت کی جب اس نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا دیا اور یوں اب اگر چین اور پاکستان سے بھارت کی جنگ چھڑتی ہے تو پھر چین کشمیر کو بھی بھارت سمجھتے ہوئے حملہ کر سکتا ہے۔ یہی وہ غلطی ہے جس کا چین اور پاکستان کو 2011ء سے انتظار تھا، جب کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرحد پر پہلی دفعہ ایک لاکھ چینی فوجی تعینات ہوئے تھے۔ اب کشمیر میں بھارت کے خلاف جوبھی آپریشن ہوگا وہ چین اور پاکستان کا مشترکہ ہوگا ،کیونکہ دونوں کی جنگ مشترک ہوچکی ہے۔پرون سواہنی نے لکھا ہے کہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ چین میں پاکستانی سفارتحانے میں بارہ پاکستانی فوجی اسلحہ کی خرید کے نام پر تعینات ہوئے ہیں۔ یہ دراصل ایک مشترکہ ہیڈ کوارٹر بنانے کیلئے کیا گیا ہے کیونکہ سواہنی کے مطابق پاکستان کے یہ افسران چین کے جائنٹ آپریشن ہیڈکوارٹر میں بیٹھتے ہیں۔ پاکستان کی ائیر فورس کے تحت ’’Cognitive Electronic‘‘جنگ کا مرکز قائم کیا گیا ہے اوروہ J-20روبوٹ جہاز حاصل کر رہی ہے جو اس وقت سب سے جدید ہیں۔ یہ فیصلہ بالاکوٹ میں پاکستانی ایئر فورس کی کارکردگی کے بعد کیا گیا اور چین نے اسے اپنے سیٹلائٹ ’’بیڈو‘‘ تک کا اختیاردے دیا ہے۔ یعنی اب جب بھی جنگ شروع ہوگی مشترکہ ہی ہوگی۔ اگر اروناچل پردیش میں جنگ ہوئی تو لداخ اور کشمیر کامحاذ بھی گرم اور اگر کشمیر میں شروع ہوئی تو اروناچل پردیش محاذ بھی گرم ہوجائے گا اور ماہرین کہتے ہیں ایسا 2022ء میں ممکن ہے۔ (ختم شد)




Leave a Reply