Bacho Ko Ye Tareekh Kun Nahi Parhai Jati

بچوں کو یہ تاریخ کیوں نہیں پڑھائی جاتی

میرے ملک کا اسلاaت اپنی ایک خود ساختہ تاریخ بیان کرتا ہے، جس کے کوئی تاریخی شواہد بھی نہیں ہوتے اور پھر ایک نعرہ بلند کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’ہم اپنے بچوں کو یہ تاریخ کیوں نہیں پڑھاتے؟‘‘۔ اس کی خود ساختہ تاریخ کا مقصد دراصل مسلمانوں کے ان ہیروز کی تذلیل ہوتا ہے جنہوں نے سات صدیاں دُنیا کو اپنے علم کی روشنی سے منّور کیا۔ مسلمانوں کا یہ علم یونان کی طرح منطق استخراجیہ (Deductive Logic) تک محدود نہیں تھا، بلکہ جدید سائنس کے وہ تمام شعبے، مثلاً طبیعات، کیمیا، حیاتیات، جغرافیہ، فلکیات ،دراصل مسلمانوں کے علمی کارناموں کی وجہ سے ہی علیحدہ مضامین کی صورت انسانی تاریخ میں متعارف ہوئے۔ یہاں تک کہ جدید طب (Medicine) کا دروازہ کھولنے والا بو علی سینا اور جدید الجبرا کا بانی اور جدید کمپیوٹر کا باپ الخوارزمی مسلمان ہی تھے۔ مجھے ان سیکولر، لبرل حضرات سے کوئی گلہ نہیں، کیونکہ ان کیلئے مسلمانوں کی یہ عظیم اور عالیشان تاریخ اس قدر تکلیف کا باعث ہے کہ وہ اس کا کبھی تذکرہ نہیں کرتے، بلکہ اس کے برعکس مغرب کے ان ظالم، بدمعاش اور انسانیت کیلئے بدنما داغ جیسے کردار رکھنے والے ہیروز کو خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں اور ان کی ہی تہذیب اور تاریخ کو برتر و اعلیٰ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص ’’کولمبس‘‘ ہے۔ سپین میں پیدا ہونے والا کولمبس جدید دُنیا کا اتنا بڑا ہیرو تصور ہوتا ہے کہ امریکہ جیسا ملک جہاں بہت کم چھٹیاں ہوتی ہیں، وہاں بھی 12 اکتوبر کو ہر سال کولمبس ڈے منایا جاتا ہے اور عام تعطیل ہوتی ہے۔ کولمبس ہمارے نصاب میں بھی بچوں کو گذشتہ ایک صدی سے ہیرو کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے، اور اس کے امریکہ کی دریافت کے کارنامے کو کسی معجزے سے کم نہیں بتایا جاتا۔ لیکن کورس کی کوئی کتاب یا تاریخ کا کوئی مضمون، اس ہسپانوی جہاز ران کے ان مظالم، تشدد اور قتل و غارت کی کہانی بیان نہیں کرتا جو اس نے امریکہ کی مقامی آبادیوں پر ڈھائے تھے۔ کولمبس جب 12 اکتوبر 1492ء میں ایسپانولہ (Espanola) جزیرے پر لنگر انداز ہوا تو وہاں کے مقامی افراد نے اس کی کشتیوں کو دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا اور اسے انتہائی خوش دلی سے خوش آمدید کہا۔ لیکن مقامی افراد کی جانب سے اپنی اس خاطر مدارت کا جواب اس نے بدترین ظلم سے دیا۔ اس کے سپاہی مائوں کے سینے سے چمٹے ہوئے بچوں کو چھینتے اور انہیں چٹانوں پر پٹخ دیتے۔ جو پالتو کتے وہ اپنے ساتھ لائے تھے، ان کی خوراک کیلئے روتے بلکتے ہوئے بچوں کو ان کے آگے ڈالتے۔ وہ عورتیں جو اپنے نومولود بچوں کو دودھ پلانے میں مصروف ہوتیں ان کے پستان کاٹ دیئے جاتے۔ ایک دن اس نے حضرت عیسیٰ اور اس کے بارہ حواریوں کی یاد تازہ کرنے کیلئے تیرہ مقامی افراد کو چُنا اور پھر انہیں صلیبوں پر چڑھا دیا۔ اس نے سپین کے بادشاہ کو خط لکھا تھا کہ اس علاقے میں سونا موجود ہے۔ یہ صرف اس کی خود ساختہ خوش فہمی تھی، لیکن اس کی تکمیل کیلئے اس نے سونے کی تلاش میں مقامی افراد کو دن رات ایسے لگایا کہ وہ پہاڑ اور زمین کھودیں اور اسے سونا ڈھونڈ کر لا کر دیں۔ ان بیچاروں میں سے جو بھی شام کو سونا لا کر نہیں دیتا تھا، اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے۔ کولمبس ان کے ہاتھ اور ناک کاٹ کر ان کو گلے میں پہناتا اور انہیں واپس گھروں کو روانہ کرتا۔ عورتوں کو بدترین جنسی اذیتوں سے گزارا جاتا اور اکثر تلوار یا خنجر کے دستوں سے جنسی تشدد کر کے انہیں مار دیا جاتا۔ جب کولمبس براعظم امریکہ پہنچا تو اس خطے کی آبادی تقریباً دس کروڑ کے قریب تھی لیکن اس کے چند سالہ قتلِ عام کے بعد یہ آبادی صرف دس لاکھ رہ گئی۔ کولمبس کو جدید دُنیا میں انسانی نسل کشی کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ انسانوں کی نسل کشی اور انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کا جو رواج کولمبس نے ڈالا تھا، دُنیا میں جمہوریت کی سب سے بڑی چیمپئن اور انسانی حقوق کی علمبردار، ریاست امریکہ نے بھی اپنی آزادی کے فوراً بعد اسی روایت کو قائم رکھا اور مقامی آبادی کی نسل کشی جاری رکھی۔ امریکی بچے اپنی کورس کی کتابوں میں جن سات بانیانِ امریکہ کا تذکرہ پڑھتے ہیں اور ہم لوگ بھی انہیں آئینی جمہوریت کے حوالے سے اپنی کتابوں میں عظیم بنائے بیٹھے ہیں، ان میں پہلا نام امریکی صدر جارج واشنگٹن (George Washington) کا ہے جو امریکہ کا پہلا صدر تھا۔ برسرِاقتدار آتے ہی اس نے مقامی افراد کے خلاف ’’انڈین پالیسی‘‘ کا اعلان کیا، جس کے تحت مقامی افراد سے تمام زمینیں چھین کر انہیں چھوٹے چھوٹے قبائلی علاقوں تک محدود کرنا تھا۔ ان علاقوں کو آج بھی ریڈ انڈین ریزرویشنز (Reservations) کہا جاتا ہے۔ اگست 1787ء میں جارج واشنگٹن اور اس کے وزیرِ جنگ ہنری ناکس (Henry Knox) نے جب ریڈ انڈین کو زمینیں چھوڑ کر مخصوص علاقوں میں جانے کیلئے کہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ واشنگٹن کی صدارت میں اجلاس منعقد ہوا جس میں اس نے فیصلہ کرتے ہوئے صرف ایک لفظ میں اپنا حکم نامہ جاری کیا۔ اس نے کہا “Extripate” جس کا مطلب ہے ’’صفحۂ ہستی سے مٹا دو‘‘۔ آج سے پچیس سال قبل 1996ء میں جب میں اوکلوہاما کے نزدیک آباد چیروکی قبائل کی ریزویشن میں گیا، تو اس قبیلے کے ہر چھوٹے بڑے کو واشنگٹن اور تیسرے امریکی صدر تھامس جیفرسن کے ظلم کی داستانیں ایسے یاد تھیں جیسے ان کے زخم ابھی تازہ ہوں۔ نیویارک ریاست کا ایک قصبہ ہے، مائونٹ ویرنون (Vernon)۔ وہاں 2016ء میں ایک نمائش لگائی گئی، جس کا عنوان تھا “Lives Bound Together” جس کا ذیلی عنوان تھا، “Slavery at George Washington’s Mount Vernon” جارج وانشنگٹن کے مائونٹ ویرنون میں غلامی۔ مَیں ان دنوں بھی امریکہ میں ہی تھا اور اس قصبے کے پڑوس میں تھا۔ وہ نمائش دیکھنے گیا تو حیران رہ گیا کہ ایک انتہائی دلچسپ اور نسبتاً خفیہ انداز سے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ جارج واشنگٹن کا گھر، اس کی دولت، بلکہ اس کے روزمرہ کے اخراجات سب ان غلاموں کی محنت کے مرہونِ منت تھے، جنہیں اس نے خرید کر یا زبردستی اغوا کر کے اپنے کھیتوں پر رکھا ہوا تھا۔ کولمبس کی اس نودریافت شدہ سرزمینِ امریکہ پر اس کی نسل کشی کی پالیسی کو اتنا اہم سمجھا جاتا رہا کہ امریکہ کا تیسرا صدر تھامس جیفرسن جسے امریکی ہی نہیں بلکہ یورپی اقوام بھی اس کے فلسفے اور جمہوری تصورات کی وجہ سے عزت دیتے ہیں اور اس کی گفتگو کے تراشے مختلف جگہوں پر تحریر کرتے ہیں۔ یہ شخص جب امریکی صدر بنا تو اس نے مقامی افراد سے کہا کہ وہ اس کی ’’برآمد شدہ‘‘ امریکی تہذیب میں خود کو ضم کر لیں ورنہ خطرناک نتائج کیلئے تیار ہو جائیں۔ اس پیشکش کا نام “Assimilation” پالیسی رکھا گیا۔ وہ ریڈ انڈین جو صدیوں سے اپنی ایک تہذیب اوڑھے ہوئے تھے، انہوں نے انکار کیا تو پھر توپوں کی گھن گرج اور گولیوں کی بوچھاڑ نے انہیں بھون کر رکھ دیا۔ جس وقت امریکہ میں یہ نسل کشی ہو رہی تھی برصغیر پاک و ہند میں 1870ء میں لارڈ لٹن یہاں کا سارا غلہ برطانیہ اور دیگر عالمی مارکیٹ میں بھیج کر ایک ایسا مصنوعی قحط پیدا کر چکا تھا جس سے ایک اندازے کے مطابق تین کروڑ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ یہ کہانیاں یا افسانے نہیں، خونچکاں داستانیںاور تاریخ کے خون آلود دھبے ہیں۔ لیکن میرے ملک کا دانشور کہے گا کہ جب ہم محکوم اور بے وسیلہ تھے تو مغرب ایجادات کر رہا تھا، یونیورسٹیاں بنا رہا تھا، لیکن کوئی اس ظلم کی داستانیں بیان نہیں کرتا ہے اور نہ ہی ہمارے بچوں کو یہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ اس نصابِ تعلیم کا اعجاز یہ ہے کہ میری قوم کے بچوں کے نزدیک کولمبس ایک عظیم ہیرو ہے اور امریکی ایک عظیم قوم۔




Leave a Reply