Corruption Ka Asaib

کرپشن کا آسیب

ایک محبت سو افسانے کی طرح ایک کرپشن کے بھی سو سو افسانے ہیں۔کرپشن ہزار ہا روپ میں جلوہ گر ہونے والی وہ ڈائن ہے جو نظام کو کھوکھلا کرتی ہے، اداروں کو کمزور کرتی ہے، حق داروں کا حق غصب کرتی ہے، دھونس دھاندلی اور دولت مندوں کی تجوریاں بھرتی ہے اور ایک مملکت پر نحوست کا سایہ ڈالے رکھتی ہے۔ اس طرح کہ اس کہ سارا سفر ہی معکوس میں طے ہوتا ہے۔برسوں پہلے منیر نیازی نے کہاتھا کہ منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ تو صاحبو اس ملک پر جس آسیب کا سایہ ہے اس آسیب کا نام کرپشن ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا میں سو سے زیادہ ملکوں کے سماجی معاشی معاشرتی اور سیاسی نظام پر تحقیق کرنے والا ایک گلوبل ادارہ ہے۔یہ ادارہ ہر سال ایک رپورٹ جاری کرتا ہے جس میں اپنے ذرائع سے تحقیق کرنے کے بعد کچھ نتائج اخذ کئے ہوتے ہیں کہ فلاں ملک میں کرپشن کا لیول کیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا بانی ایک جرمن پیٹر آئیگن ہے ۔پیٹر ائیگن ورلڈ بینک میں اعلی عہدے پر کام کرتا تھا اس دوران اسے مشرقی افریقی کے غریب ترین ملک کینیا میں کام کرنے کا موقع ملا جہاں اس نے دیکھا کہ بنیادی سہولیات سے محروم غریب ملک میں سیاسی نظام، اداروں ،تاجران اور سول سوسائٹی کا گٹھ جوڑ ایسا ہے کہ کسی بھی پالیسی کے اچھے اثرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ سیاسی اور سماجی نظام کو بدیانتی اور انصافی کی دیمک لگ چکی ہے۔ یہ نوے کی دہائی کاآغاز تھا۔پیٹر نے بطور ورلڈ بینک کے نمائندے کے تیسری دنیا کے غریب ترین ملکو ں میں کرپشن کے ناسور کامشاہدہ کیا۔1990میں پیٹر ا پنے عہدے سے ریٹائر ہوا اور 1993 میں اس نے ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی بنیاد رکھی۔پیٹر آئیگن ان تمام برسوں میں کرپشن کے خلاف جنگ تندہی سے لڑتے رہے ہیں۔2004 میں ریڈرز ڈائجسٹ نے انہیں یوروپین مین آف دا ائیر کا ایورڈ دیا۔ابھی حال ہی میں انہیں جرمنی کا اعلی سول ایوارڈ دیا گیا۔ان کے کام کے حوالے سے ان پر کبھی غیر شفافیت کا الزام نہیں لگا۔یہ بات ہی مضحکہ خیز ہے کیونکہ ان کی ساری جدوجہد ہی غیر شفافیت ،بدیانتی اور نا انصافی کے خلاف ہے۔ انیس سو ترانوے سے دو ہزار تئیس تک ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو پورے تیس برس گزر جائیں گے۔اس ادارے کو چلانے والوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اسے شفافیت کے اعلی معیاروں کے ساتھ چلایا جائے کسی بھی ملک کے بارے میں جو رپورٹ دی جائے وہ انتہائی دیانت، شفافیت کے اصولوں کے تحت اکٹھے کیے گئے مواد کی غیر جانبدار انہ تحقیق اور نتائج پر مشتمل ہو۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سو سے زیادہ ملکوں میں لوکل چیپٹرز قائم کرچکاہے۔پاکستان میں بھی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا لوکل چیپٹرز موجود ہے۔اس سال ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 180 ملکوں کے سیاسی سماجی اور معاشی نظام کو مشاہدہ کرکے اپنی رپورٹ پیش کی ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کچھ دن سے پاکستان میں زیر بحث ہے۔ کرپشن کے خلاف جدوجہد اور احتسابکا نعرہ لگانے والی حکومت میں پاکستان میں کرپشن کا لیول اس برس سولہ درجے بڑھا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں آنے والی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ حکومت کے ان تین برسوں میں ہر برس کرپشن کا لیول کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔ 2019میں پاکستان کرپشن انڈیکس کے 120درجے پر تھا۔ 2021.میں پاکستان میں کرپشن انڈیکس 124درجے تھاجبکہ 2022میں سولہ درجے تبدیلی کے ساتھ یہ لیول140پر آگیا ہے۔ایک عالمی ادارے کی غیر جانبداری پر مبنی رپورٹ پر بڑے دلچسپ تبصرے کیے جارہے ہیں۔ کوئی ترجمان کہتا ہے کہ پوری رپورٹ آ جائے تو اس پر بات کریں گے، کوئی کہتا ہے کہ روپے پیسے کی صورت میں کرپشن کی بات نہیں کی۔ بس رول آف لاء میں کمزور ی کی بات ہے اس میں ہم اپنی کمی مانتے ہیں۔کسی نے اس ادارے پر جانبداری کا الزام لگایا۔ ماضی قریب میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کو بنیاد بنا کر گزشتہ حکومت کو رگیدا جاتا تھا ۔سو ان کی رپورٹس کو بنیاد بنا کر یہ کہا جاتا تھا کہ مہنگائی اسی وجہ سے ہے کہ کرپشن بڑھ گئی ہے تو کیا ہم پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ اس وقت بھی پاکستان میں کرپشن پہلے سے کہیں زیادہ ہے اور مہنگائی کی شرح بھی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے تو جناب اس فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ہم کیا اس سے وہی نتیجہ اخذ کریں اور جو آپ نے پیش کیا تھا ۔ایسے فارمولے تقریروں میں بہت بار قوم کے سامنے بیان کیے گئے کہ پٹرول مہنگا ہوجائے تو سمجھو وزیراعظم چور ہے۔ کرپشن زیادہ ہو نے سے مہنگائی ہوتی ہے اس کامطلب ہے کہ عوام کی جیب سے پیسہ جارہا ہے۔یہ سارے فارمولے تقریروں میں عوام کے سنے بارہا دہرائے کہ بچے بچے کو ازبر ہوگئے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن کو ماپنے کے مختلف پیرامیٹر طے کیے ہوئے ہیں۔ میر ے نزدیک حقائق کو جھٹلانا، جھوٹ بولنا ، رات کو دن کہنا اور صر صر کو صبا کہنا کرپشن کی بدترین شکلیں ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آنے کے بعد یہ کہنا ہے کہ ہم نے اپنی حکومت کے پہلے 90 دن میں کرپشن کا خاتمہ کردیا تھا۔ہماری حکومت کا کوئی مالی سکینڈل منظر عام پر نہیں آیا۔آفرین ہے یہ بیان۔ ٭٭٭٭٭




Leave a Reply