فیشن انڈسٹری :بظاہر چمکتی دمکتی بدصورت دنیا

زمانہ طالب علمی میں ہم یہ شعر بڑے جوش و خروش سے تقریروں میں پڑھا کرتے تھے: کیا ملیں اس لیے ریشم کے تار بنتی ہیں کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا ہے کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں عملی زندگی میں جب کاروبار دنیا کو جانا تو کھلا کہ دنیا ہماری سوچوں سے زیادہ بدصورت ہے۔مساوات اور انصاف جیسے روشن تصورات کتابوں میں پائے جاتے ہیں‘ عملی زندگی میں ان کے مظاہر کم کم نظر آتے ہیں۔عدم مساوات کے خوفناک مظاہرے ہیں‘ ایک طرف لوگ غربت میں زندگیاں سسک سسک کر گزار رہے ہیں تو دوسری طرف فراوانی اور آسائش کی انتہاؤں میں ہلکورے لیتی ہوئی زندگی کے دلفریب مناظر ہیں۔ ایک طرف زندگی تن ڈھانپنے کو صاف ستھرے مناسب کپڑوں کے لیے ترستی ہوئی موسموں کی زد پر ہے تو دوسری طرف دنیا کے مہنگے ترین برانڈز سالانہ کئی ٹن کپڑوں کو آگ لگا دیتے یا پھر انہیں زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ دنیا میں پانچ ملین افراد کے پاس موسموں کی مناسبت سے پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہیں ۔جبکہ صرف برطانیہ میں تین لاکھ ٹن کپڑوں کو زمین میں ڈمپ کردیا جاتا ہے ۔بڑے بڑے فیشن برانڈ ہر سال لاکھوں ڈالر ز کے کپڑوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ 2018ء میں لندن کے ایک مشہور فیشن برانڈ گھڑیوں اور جیولری کے مالک نے اعتراف کیا کہ انہوں نے دوسال کے عرصے میں 653 ملین ڈالرز کی گھڑیاں اور جیولری اس لیے ضائع کردی کہ ہماری فیشن پروڈکٹ ان اتھورائزڈ کسٹمرز کے پاس نہ جائیں ۔دنیا بھر میں گارمنٹس کے بڑے بڑے برانڈ اپنے بچ جانے والے کپڑوں کو جلا دیتے ہیں جی ہاں وہ مہنگے خریداروں سے بچ جانے والے کپڑوں کو سستا افورڈ کرنے والے گاہکوں کو بیچنا گوارا نہیں کرتے۔اور اس سے بچنے کے لیے اپنے نئے نکور مہنگے کپڑوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ برطانیہ کے ایک لگثرری برائنڈ نے2018میں 3.6بلین ڈالرز کا منافع کمایا اور36ملین ڈالرز کے کپڑے ضائع کیے۔ اس برنڈ نے اعتراف کیا کہ اپنے برائنڈ کے کپڑوں کو جلا دینا ان کی اس حکمت عملی کا تسلسل ہے جس میں وہ اپنے برائنڈ کے کپڑوں کی تخصیصِ کو زد نہیں پہنچانا چاہتے۔کیونکہ اگر بچ جانے والے کپڑوں کو سستے داموں بیچ دیا جائے تو ہمارے ان گاہکوں کے ساتھ زیادتی ہے جو ہمارے برائنڈ کو انتہائی مہنگے دانوں خریدتے ہیں تاکہ وہ سٹائل اور فیشن سینس میں ایکسکلوزیو نظر آئیں۔ پچھلے موسم گرما کی بات ہے میں ایک مشہور گارمنٹس کے برائنڈ پر گئی اور وہاں میں نے کپڑے خریدنے کے لیے مختلف ر یکس کو دیکھنا شروع کیا دکان کے آغاز میں نئے والیم کے ان سلے کپڑے رکھے گئے تھے۔ مجھے سلے سلائے ریڈی میڈ کپڑوں کی تلاش تھی سیلز گرل نے کہاکہ آپ اوپر چلی جائیں سلے ہوئے کپڑوں پر ڈسکاؤنٹ بھی لگا ہوا ہے۔ اوپر کی تو وہاں ریڈیو ٹو وئیر کپڑوں کے کئی ریکس موجود تھے جن پر بیس فیصد سے پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ بھی تھا لیکن جتنا ڈسکاؤنٹ کپڑوں پر بڑھتا جا رہا تھا اس کا معیار اور ڈیزائننگ اتنی ہی نکمی ہوتی جا رہی تھی۔میں نے سیلز گرل سے پوچھا کہ یہ کپڑے تو کوئی بھی نہیں خریدے گا تو پھر یہ ڈھیروں سوٹ کہاں جائیں گے ؟ اس نے جواب دیا کہ ہمارے جتنے بھی مختلف شہروں میں آؤٹ لیٹس ہیں‘ وہاں پر بچنے والے تمام سوٹ ایک خاص عرصے کے بعد کراچی ہیڈ آفس میں بھیج دیئے جاتے ہیں جہاں ہمارا ایک آؤٹ لیٹ ہے‘ وہاں ان کپڑوں کو 70 فیصد یا اسی فیصد ڈسکاؤنٹ پر کپڑے بیچنے کے لیے لگا دیے جاتے ہیں۔کچھ عرصے سے ہمارے یہاں آن لائن کپڑے بیچنے کا رواج بہت زور پکڑ چکا ہے‘ ایسے ہی ایک آن لائن لائیو کپڑے بیچنے کے سیشن میں نے دیکھا کہ ایک خاتون پاکستان کے ایک مشہور اور مہنگے برائنڈ کے ڈیمجڈ کپڑے سستے داموں بیچ رہی ہے۔ کسی کا بازو نہیں ہے کسی کا دامن پر کٹ لگا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ وہ کپڑے خریدنے میں دلچسپی لے رہے تھے۔ یہ بھی برائنڈز کی ایک لائحہ عملی ہے کہ جو کپڑے بچ جاتے ہیں وہ انہیں سستے داموں بیچنے کی بجائے مختلف طریقوں سے ناکارہ بنا دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ کئی لاکھ ٹن کپڑوں کو قینچیوں سے کتر کر لیر و لیر کر دیا جاتا ہے۔شمالی بھارت کا شہر پانی پت پوری دنیا میں اسی حوالے سے جانا جاتا ہے ۔ امریکہ برطانیہ جرمنی اور یورپ کے دیگر ملکوں سے مسترد کیے گیے قیمتی کپڑوں سے بھرے ہوئے کنٹینر یہاں کی غریب بستیوں میں پہنچائے جاتے ہیں جہاں پر غریب مرد اور عورتیں فیشن اور سٹائل سے تیار کیے گئے مہنگے ترین برائنڈز کے ان کپڑوں کو پھیتی پھیتی کرتے ہیں۔سب سے پہلے ان کپڑوں کو رنگوں کی مناسبت سے الگ کیا جاتا ہے‘ سرخ نیلے کاسنی پیلے گلابی رنگوں کے تیز اور ہلکے شیڈز ایک جگہ ڈھیر کیے جاتے ہیں۔ان کپڑوں کو قینچیوں سے کتر کتر کر ڈھیر لگا دئیے جاتے ہیں پھر چھوٹی چھوٹی کترنوں کے ڈھیر ایسی فیکٹریوں میں پہنچائے جاتے ہیں جہاں ان سے دوبارہ دھاگہ تیار کیا جاتا ہے اور اس دھاگے سے سستے کمبل بنائے جاتے ہیں‘ جس کی سب سے بڑی مارکیٹ افریقہ کے غریب ممالک ہیں۔ عالمی فیشن انڈسٹری 2.4 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی بڑی صنعتوں میں شمار ہوتی ہے اور ماحولیات کی آلودگی میں فیشن انڈسٹری کا شمار کسی بھی دوسری صنعت سے زیادہ ہے۔ کاربن کا اخراج ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا 8سے10 فیصد کاربن کا خراج فیشن انڈسٹری کے مرہون منت ہے۔دنیا میں آلودہ پانی کا 20فیصد حصہ بھی فیشن انڈسٹری کا پیدا کردہ ہے۔فیشن سٹائل اور برائنڈ کی بظاہر چمکتی دمکتی دنیا اندر سے بدصورت اور بے حس ہے۔فیشن انڈسٹری سے متعلقہ چند فیصد افراد کی تسکین کے لیے یہ صنعت سالانہ 92ملین مضر صحت ویسٹ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کررہی ہے۔




Leave a Reply