Jahan Adeeb Mar Jata Hain

جہاں ادیب مر جاتا ہے

اہم خبریںادارتی صفحہاسپورٹسیورپ سےدنیا بھر سےملک بھر سےشہر قائد/ شہر کی آوازدل لگیبزنستعلیم صحت خواتینسندھ بھر سےمراسلات
اب میں آپ کو چھ دہائی پرانی حکایت کیا یاد کراؤں کہ محمد حسن عسکری ایک مختصر سے شذرے میں اردو ادب کی موت کا اعلان کر کے مفتی محمد شفیع کے صحبت نشین ہو گئے تھے۔ مرحوم عسکری صاحب نے کچھ ایسی ہی افتاد پائی تھی۔ پاتال اور ثریا کے بیچ کہیں پڑاؤ کے روادار نہیں تھے۔ مگر بھائی، محمد حسن عسکری ایک فرد نہیں تھا، اپنی ذات میں جوالا مکھی تھا، جوار بھاٹا تھا، ایک تحریک تھا، ایک روایت تھا۔ ترقی پسندوں سے ٹکر لی تو لی۔ اس مجادلے پر اب تو تاریخ کا فیصلہ آ چکا۔ یہ بھی تو دیکھیے کہ شاہد احمد دہلوی کو قبلہ بدلتے دیکھا تو برسوں کی رفاقت کو نظر بھر کر نہیں دیکھا، ترنت ساقی کی مجلسِ ادارت سے الگ ہو گئے۔ قدرت اللہ شہاب نے رائٹرز گلڈ کا ڈول ڈالا تو پورے ملک میں کل دو ادیب دریافت ہوئے۔ لاہور سے مولانا صلاح الدین احمد نے فرمایا،’’ کبھی پیغمبروں نے بھی گلڈ بنائے ہیں‘‘۔ کراچی سے محمد حسن عسکری نے ادب کی لاج رکھی۔ میجر ابن الحسن سے صاف کہہ دیا کہ ادب کے سرکاری میلے میں شریک نہیں ہوں گے۔ عزیزو، ادب وہ بار امانت ہے جسے آزمائش کی گھڑی میں سر پر اٹھانے والے دو دوانے نصیب ہو جائیں تو قوم کی نیا غرق ہونے سے بچ جاتی ہے۔ روسی ادب نے اشتراکی اقتدار کے ستر برس میں کتنے ادیب پیدا کئے؟ کوئی زمانہ ہو، اور کوئی مقام، ادیب تو لے دے کے دو چار ہی ہوتے ہیں۔ باقی ہجوم کو قدرت حق گیانی کی تان میں آواز بھرنے کے لئے دنیا میں بھیجتی ہے۔ اب دیکھیے انیسویں صدی میں میر تقی میر تو ایک ہی تھے لیکن دہلی اور پھر لکھنو میں گلی گلی کوڑیوں قافیہ پیمائی کرنے والے نہ ہوتے، دو پلی ٹوپی اوڑھ کے مشاعرے کی رونق بڑھانے والے نہ ہوتے، اپنے تئیں شعر کی سرپرستی کرنے والے نواب اور رئیس نہ ہوتے تو میر صاحب بھی وقت کے غبار میں گم ہو جاتے۔ نہایت انکسار سے عرض ہے کہ ایک تو ہوتا ہے ادب بطور تمدنی ادارہ اور ایک ہوتا ہے ادیب۔ ادب کا ادارہ انسان کی میراث ہے، موسیقی، مصوری اور رقص اور دوسرے فنون لطیفہ ہی کی طرح ادب کو بھی موت کا اندیشہ نہیں۔ البتہ کسی بدنصیب قوم پر خشک سالی اتر آئے تو ایسا ضرور ہوتا ہے کہ مغنی خاموش ہو جائے، فسطائیت کی ایک دہائی میں Yehudi Menuhin نے وائلن کے تار نہیں چھیڑے، بٹوارے کے بعد روشن آرا بیگم نے بارہ برس تانپورے سے گرد صاف نہیں کی۔ صادقین اور کولن ڈیوڈ کی تصویریں نوچ ڈالیں لیکن مصوری تو زندہ ہے۔ آج بھی ہماری خوش نصیب زمین پر محمد سلیم الرحمن اور اسد محمد خاں جیسے فنا فی الحرف نادرہ روزگار لعل و گہر موجود ہیں تو ادب کو فنا کا اندیشہ نہیں۔ ڈر یہ ہے کہ کہیں ادیب اپنے منصب سے دستکش نہ ہو جائے۔ اور یہ کچھ ایسا اندیشہ ہائے دور دراز بھی نہیں۔ اقبال نے کہا تھا نا، یارب درون سینہ دل باخبر بدہ۔




تفصیل سے پہلے یہ اشارہ کر دوں کہ اکتوبر 1958 میں ایوب خان نازل ہوئے تو انہیں کامل آٹھ برس تک اپنی سازش کے تار و پود بنتے ہوئے ادب کی توانائی کا اندازہ ہو چکا تھا۔ چنانچہ قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے بندگانِ حکم کو اشارہ ہوا اور جنوری 1959 میں گداگرانِ سخن جوق در جوق ادب کے میلہ مویشیاں میں جمع ہو گئے۔ چھ عشرے بعد پھر میانوالی کی خاک سے کسی بندہ فرومایہ کو خدا بنانے کا مرحلہ پیش آیا تو ادیب اور ادب کی روایت میں خلل آ چکا تھا۔ ادیب تو اہل قلم کانفرنس کے مقبرے میں دفن ہو چکا۔ چنانچہ اربابِ نشاط کی ڈھنڈیا پڑی۔ نتیجہ البتہ کچھ ایسا قابل ذکر برآمد نہ ہو سکا۔ پنجاب پولیس میں نچلے درجے کے اہل کاروں میں ایک چلتا ہوا فقرہ سننے میں آتا ہے، ’’جیسا ضلع ہے، ویسا ایس پی‘‘۔ اسے گویا ’جیسی روح، ویسے فرشتے‘‘کا مقامی ترجمہ سمجھنا چاہیے۔ توسن خیال کو یہیں روک کر اپنے موضوع کی طرف لوٹنا چاہیے، اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔

پس منظر اس تمہید کا یہ ہے کہ ایک موقر روز نامے میں ایک صاحب نے انتظار حسین اور سہیل احمد خان پر نشتر کی بجائے قلم کی مشق فرمائی ہے۔ صاحب موصوف کی خود آرائی سے کیا حاصل وصول ہوتا۔ ان کے معتوبین کا مقام متعین ہو چلا۔ استاذی پروفیسر سراج الدین فرمایا کرتے تھے، بڑوں کی چھوٹوں پر شفقت جبلت ہے اور خورد اپنے بزرگوں سے جو سلوک کرتے ہیں، اس سے تہذیب متعین ہوتی ہے۔ ایک اور صاحب قلم نے ادبی سعی میں خود بھی نصف صدی گزار رکھی ہے لیکن ان دنوں طبع نازک کسی خاص کیفیت میں ہے۔ ایک مضمون میں شمیم حنفی صاحب پر ناوک زنی فرمائی اور ایک دوسری تحریر میں زاہد ڈار پر سبک حملے کئے ہیں۔ شمیم بھائی سے درویش کا ذاتی تعلق دور فاصلاتی تھا اور ان کی شفقت سے عبارت تھا۔ زاہد ڈار سے نیاز کا عرصہ البتہ طویل رہا۔میں نے زاہد ڈار کو کتاب سے دوستی اور ادب سے وابستگی کا استعارہ جانا۔ جسے لفظ دُرِآبدار کی طرح عزیز ہو۔ جسے جملوں کی ٹوٹتی بنتی موجوں کی روانی زنجیر ہو۔ وجود کے شعور کی ذمہ داری جس کے رگ وریشے میں جبلت کی طرح اتر گئی ہو۔ جسے کسی بھی رنگ میں موجود کے احترام سے مفر نہ ہو۔ حرف کا لحن جسے اس طور باندھ لے جیسے برہمن زادے کو بھجن کی لَے۔ زاہد اکل کھْرا آدمی تھا، نہ کاہو سے دوستی نہ کاہو سے بیر۔خیر یہ دنیا ہے۔ ہم عصرانہ چشمک کہیں نہ کہیں اپنا روئے نا مبارک دکھاتی ہو گی۔ وہ بھی تو ہر کہ و مہ کو حسبِ دلخواہ داد نہیں دیتا۔ فٹ پاتھ سے خریدی پرانی کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔ اس نے دنیا سے کچھ لیا نہیں، ’’ڈیڑھ نظم‘‘ہی سہی، کچھ دے کے ہی رخصت ہوا۔ ایسے مشتِ غبارکی تربت پر حسرت پابوس میں اگتی حنا کو روندنا، ادیب کی نہیں، ادب کی موت کا اشارہ دیتی ہے۔

جو دلبری کا یہ عالم رہا تو اے شوخی

کوئی کرشمہ نہ چھوڑے گی تو حیا کے لیے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Leave a Reply