Agar Fursat Mile Pani Ki Tehreeron Ko Parh Lena

اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا

لیجوسٹومیا کے پودے عموماً اتنے بلند قامت نہیں دیکھے۔ زیادہ تر سات آٹھ فٹ تک کی جھاڑی ہوتی ہے۔ میدان کے ایک کونے میں دس کے قریب پودے تھے۔ بیس بیس فٹ ہوں گے۔ نہ کوئی برگ نہ بار۔ اردگرد سوکھا گھاس اور جلی ہوئی زمین بتا رہی تھی کہ برسوں سے کسی نے یہاں قدم نہیں رکھا۔ ہم اس جگہ کی لینڈ سکیپنگ کرنا چاہتے تھے۔ ایک خیال تھا کہ ان پودوں کو نکال دیا جائے‘ ذرا غور سے جائزہ لیا تو معلوم ہوا مکمل سوکھے نہیں۔ تھوڑی توجہ سے ہرے بھرے ہو سکتے ہیں۔ معلوم نہ ہورہا تھا کہ یہ کون سے پودے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک الگ الگ رائے کا اظہار کر رہا تھا۔ ایک دوست نے چھال کا معائنہ کیا۔ باریک چھال‘ کہیں سے بھوری کہیں سے گلابی نما‘ چکنی‘ یہ لیجوسٹومیا ہے۔ اعلان ہونے کے بعد ہم نے تصور میں اس کی شاخوں پر لگے گہرے نیلے‘ آتشی گلابی‘ سرخ اورگلابی پھول دیکھے۔ ایک نقشہ بنا اور فیصلہ کرلیا۔ یہ نہیں کٹیں گے۔ یہ درخت اس وجہ سے بچ گئے کہ کوہاٹ میں زیر زمین پانی 50 فٹ پر ہے۔ جنرل اسلم بیگ کے زمانے میں لگے یہ پودے اتنے برس اسی زیر زمین پانی کی وجہ سے زندہ رہے۔ قریب ہی السٹونیا کا ایک درخت تھا۔ بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو جب وزیراعظم تھیں تو یہ ننھا سا پودا لگایا جو اب ایک تناور درخت بن چکا تھا۔ گارڈن ٹائون سے جب کوٹ لکھپت منتقل ہوئے تو اتفاق فائونڈری کے ساتھ اتحاد کالونی میں گھر بنایا۔ چالیس پچاس فٹ پر پانی نکل آتا تھا۔ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو تو سبزے سے فرش ڈھکے رہتے ہیں۔ کئی پھلدار جڑی بوٹیاں زمین سے پھوٹتی ہیں۔ جھاڑیاں نمودار ہوتی ہیں‘ کئی طرح کے گھاس نکلتے ہیں۔ تھوڑی محنت کر کے انسان جو بیج بوتا ہے وہ اچھی نشوونما پاتا ہے۔ تازہ رپورٹ نے لاہور کے زیر زمین پانی کی سطح زیادہ ہونے کی خبر دی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ڈیڑھ سے پونے دو سو فٹ پر جا کر پانی نکلتا ہے۔ ہر سال ایک میٹر پانی نیچے جا رہا ہے۔ گویا اگلے تیس سال میں ایک سو فٹ پانی نیچے چلا جائے گا۔ پودوں اور گھاس کو زمین کی نمی ملنے میں دشواری ہوگی۔ لاہور کا سبزہ مٹ جائے گا۔ گھاس اور پیڑ سوکھے تو پرندے اور چھوٹے جانور ناپید ہونے لگیں گے۔ پانی کی زیر زمین سطح کئی بار بہت بلند ہو جاتی ہے۔ پانی زمین سے باہر نکل کر جمع ہو جاتا ہے۔ ایسی سیم زدہ زمینوں کی اصلاح کے لیے انگریز دور میں سیم نالے بنائے گئے۔ بیلے اور رکھ ہموار کر کے قابل کاشت بنائے گئے‘ جگہ جگہ ٹیوب ویل لگ گئے۔ اب سیم زدہ علاقے کم ہو گئے ہیں۔ وہاں بھی پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے کا منفی اثر صرف سبزے‘ فصلوں اور درختوں پر نہیں پڑتا بلکہ تعمیر شدہ گھروں کی بنیادیں بھی متاثر ہونے لگتی ہیں۔ زیر زمین پانی کا ذخیرہ اردگرد سے جمع ہونے والے پانی سے بڑھتا ہے۔ پاکستان بھر میں پانچ لاکھ سے زائد ٹیوب ویل ہیں۔ یہ زمین سے پانی نکال کر فصلوں کو سیراب کرتے ہیں۔ پھر شہروں کا حجم بڑھ گیا ہے۔حکومت کی کی طرف سے کسی نوع کے حفاظتی اقدامات پر غور کرنے میں عشرے بیت جاتے ہیں۔ حالیہ راوی ریور منصوبے کی مثال ہی لے لیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے 1998ء میں یہاں جھیل بنانے کا سوچا۔ یہ خیال لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح بلند رکھنے کے حوالے سے قابل قدر تھا۔ 2008ء میں مسلم لیگ ن پنجاب میں پھر برسر اقتدار آ گئی۔ منصوبے کی فائلیں جھاڑ کر کونوں کھدروں سے برآمد کی گئیں۔ سڑکیں اور فلائی اوور تین ماہ کی ریکارڈ مدت میں مکمل کرنے والے شہبازشریف اس منصوبے پر سستی دکھاتے رہے۔ 2008ء سے 2018ء تک کے دور میں صرف مشہوری کا عمل تیز کیا گیا۔ منصوبہ اچھا ہے اس لیے پی ٹی آئی حکومت نے بھی آتے ہی اس پر کام شروع کرنے کا عندیہ دیا۔ منصوبہ بندی کے دوران جانے کس کے دماغ نے راوی شہر بسانے کا کہہ دیا۔ اب دریائے راوی میں گرنے والے گندے پانی کے لیے الگ بڑا نالہ بنانے اور دریا کی قدرتی گزرگاہ کو جھیل کی شکل دینے کی بات کوئی نہیں کرتا۔ کوئی یہ بھی یاد نہیں دلا رہا کہ اس جھیل کے ساتھ ایک طویل پٹی میں مقامی درختوں کا جنگل لگایا جانا تھا۔ بس دس بارہ ایکڑ پر کروڑوں روپے سے دو لاکھ درخت لگا کر ذمہ داری پوری کردی گئی۔ لاہور میں پینے کے پانی والے ٹیوب ویل پانچ سو سے سات سو فٹ تک بور پر چل رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے اس شہر میں صرف ایک ہزار فٹ تک پانی موجود ہے۔ اس سے نیچے خشک زمین ہے۔ پانی فراہم کرنے والا ادارہ بتاتا ہے کہ لاہور نہر پر پانی کو صاف کرنے والا پلانٹ لگایا جائے گا۔ اس پلانٹ کی استعداد ایک سو کیوسک ہو گی۔ یاد رہے لاہور میں 480 ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں۔ ان سے روزانہ 1170 کیوسک پینے کا پانی حاصل ہوتا ہے۔ سرکاری ٹیوب ویلوں کے علاوہ نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے ٹیوب ویل روزانہ ایک سو کیوسک اور صنعتی ٹیوب ویل 375 کیوسک پانی نکال رہے ہیں۔ گہرائی سے پانی نکالنے کا ایک نقصان پانی میں سنکھیا کی مقدار بڑھنا ہے۔ لاہور فقط ایک مثال ہے۔ فیصل آباد‘ راولپنڈی‘ ملتان‘ کراچی‘ حیدر آباد‘ پشاور‘ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ سمیت سبھی شہر زیر زمین پانی کے مسئلے کا شکار ہونے والے ہیں۔ ایک حکومت کی ترجیح جمہوری اقدار کو مستحکم کرنا تھا۔ دوسری کی ترجیح سڑکیں و اورنج ٹرین تھی‘ پی ٹی آئی کی ترجیح احتساب ہے۔ احتساب کتنا ہورہا ہے‘ وہ صاف پانی کیس میں بے گناہ ہونے کے دعویداروں کی وکٹری والی انگلیوں کو دیکھ کر اندازہ کرلیں۔ بشر بدر کہہ گئے: اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے




Leave a Reply