Jila Watan Hakoomat Say Jila Watan Shehriyat Tak

جلاوطن حکومت سے جلا وطن شہریت تک

بہت نازک موضوع ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی سے قلم پھسل کر ممنوعہ حددو میں داخل ہو سکتا ہے۔ ہماری صحافت میں ایک عرصے سے ایسے موضوعات پر قلم اٹھانے کی روایت ختم ہو چکی ہے۔ اب ہماری صحافت میں کسی بدنصیب زمین پر قابض غنیم کی مسلط کردہ اجنبی دھنوں جیسی بے معنویت اور بیزار کن یکسانیت پائی جاتی ہے، چھچھورے پن کی حد تک سفید جھوٹ جس سے دیہات کی دیواروں پر گوبر کے تازہ اپلوں کے بیچ سے جھانکتے پوشیدہ امراض کے اشتہارات ایسی گھن آتی ہے۔ یقیناً آپ جیسا ذہین قاری یہ سوال اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان حالات میں درویش ایسا کون سا ساونت ہے جو بے دھڑک بارودی سرنگوں میں چہل قدمی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے دو سبب ہیں۔ اول تو یہ کہ آج کے موضوع کا ہمارے ملک سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ موضوع میں مشتعل سانڈ جیسی وحشت ضرور ہے لیکن دور دراز کے ملکوں کے قصے ہیں اور وہ بھی بیشتر پامال اور دور از کار۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ درویش نے مسلسل ریاضت سے اپنے قلم پر منظور شدہ حب ِوطن کا ایسا قط لگایا ہے کہ حبیب جالب نے تو قلم کو بطور آزار بند کام میں لانے کی تجویز دی تھی، آپ کے نیاز مند کا قلم ایسا کڑھا ہوا آزار بند ہے جو مجوزہ متبادل استعمال کے لئے بھی بفضلہٰ تعالیٰ محرم ملبوس ہی پر اکتفا کرتا ہے۔ مجھے کیا خبر تھی ہمدم، کہ بیانِ غم سے ہوگا غمِ آرزو دوچندہ…..




جلاوطن حکومت کا تصور نیا نہیں۔ شیکسپیئر کی تمثیل میکبتھ (Macbeth) سے آپ یقیناً واقف ہیں۔ میکبتھ قانونی بادشاہ ڈنکن کو قتل کر کے اسکاٹ لینڈ کی حکومت پر قابض ہو گیا۔ مقتول بادشاہ کے بیٹوں نے غاصب سے جان بچانے کے لئے وفادار ساتھیوں کی مدد سے انگلینڈ میں جلاوطن حکومت قائم کر لی تاکہ مناسب وقت پر اپنی حکومت واپس لے سکیں۔ شیکسپیئر 1564 میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی پیدائش سے چند ہی برس قبل اٹلی کی شہری ریاست سی اینا (Siena) نے ٹسکنی کا قبضہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے جلا وطن حکومت قائم کی تھی۔ یہ معلوم انسانی تاریخ میں پہلی جلاوطن حکومت تھی۔ اس کے بعد سے درجنوں جلاوطن حکومتیں قائم ہوئیں، چند ایک کے پاس کچھ رقبے پر قبضہ بھی تھا اور کہیں اجنبی منطقوں میں پناہ لینا پڑی۔ جلاوطن حکومت ایک ایسا سیاسی گروہ ہوتا ہے جو اپنے ملک کی جائز حکومت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اس دعوے کو عملی طور پر قوتِ نافذہ میں تبدیل کرنے کے وسائل نہیں رکھتا چنانچہ اپنے اخلاقی دعوے کو برقرار رکھنے کے لئے کسی دوسری ریاست یا غیر ملک میں پناہ لیتا ہے۔ جلاوطن حکومت قائم کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں بین الاقوامی معاہدوں میں اپنے دعویٰ سے متعلقہ ملک کے نمائندے کے طور پر فریق تسلیم کیا جائے۔ اپنا دستور مرتب کرنے اور اس پر عمل درآمد کی اجازت ملے۔ عسکری قوت تشکیل دینے کا حق ملے، بین الاقوامی برادری انہیں سفارتی طور پر تسلیم کرے۔ اپنے حامی شہریوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا اختیار ملے۔ ایسی جلاوطن حکومت میں مختلف سیاسی جماعتیں بھی تشکیل پا سکتی ہیں بلکہ انتخابات بھی منعقد ہو سکتے ہیں۔

جلاوطن حکومتوں کی مثالیں تو الغاروں ہیں۔ سہولت کے لیے دوسری عالمی جنگ کے یورپ میں چلتے ہیں۔ ہٹلر نے برطانیہ کے چھوٹے سے جزیرے کو چھوڑ کر پورے یورپ پر قبضہ کر لیا تھا بلکہ اس کی افواج قاہرہ شمالی افریقہ میں العالمین سے لے کر روس میں سٹالن گراڈ تک پہنچ چکی تھیں۔ یورپ کے بیشتر مفتوح ممالک نے جلاوطن حکومت بنانے کے لیے برطانیہ کی راہ لی۔ ان ممالک میں بلجیم، چیکوسلواکیہ، فری فرانس، یونان، لکسمبرگ، ہالینڈ، ناروے، پولینڈ اور یوگو سلاویہ سمیت بہت سے چھوٹے چھوٹے گروہ بھی شامل تھے۔ جلاوطنی کے اس تجربے کی اذیت کوسمجھنے کے لیے ایک محب وطن فرانسیسی کا جملہ دیکھئے۔لندن میٹرو میں فرانسیسی زبان کا یہ سادہ سا جملہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔’اسٹیشن پر گاڑی کھڑی ہو تو بیت الخلا استعمال مت کیجئے‘۔60 ء کی دہائی کا وہ مقبول گیت تو آپ کو یاد ہو گا جس میں برلن کی گلیوں کا ذکر تھا۔ خیال رہے کہ درویش نے لکھنؤ کے حضرت گنج، دہلی کے چاندنی چوک یا لدھیانہ کے کریم پورہ کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیے کہ جلاوطن حکومت سے بھی بڑھ کر جلاوطنی کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً اپنی ہی زمین پر جلاوطن ہو جانا۔

اسرائیل میں آباد بیس لاکھ عرب باشندوں کی بے بسی تو محمود درویش جیسے شاعروں نے قلم بند کر دی ہے۔ دریائے نیلم کے دونوں طرف بسنے والے کشمیریوں کا دکھ کون نہیں جانتا۔1971 ء کی ابتلا میں ڈھاکہ سیکٹر کے کمانڈر میجر جنرل خادم حسین راجہ نے ایک کتاب لکھ رکھی ہے۔ عنوان ہے ’اپنے ہی دیس میں اجنبی‘۔ اپنی ہی زمین پہ اجنبیت محض جنگ اور امن جیسے معاملات سے مخصوص نہیں۔ شہریت کے جملہ حقوق آزادیوں اور احترام سے محرومی جیسی جلاوطنی ممکن نہیں۔ ایک آزاد ملک کے شہری کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا جاتا ہے تو یہ جلاوطن شہریت ہے۔ کسی کو عورت ہونے کی بنیاد پہ انسانیت کا نچلا درجہ تفویض کیا جائے، ذات پات کی بنیاد پر کم تر قرار دیا جائے، عقیدے کی بنیاد پر فیصلہ سازی سے باہر رکھا جائے، زبان کی بنیاد پر تعصب کا نشانہ بنایا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غربت کے ہاتھوں ضروریات زندگی سے محروم ہونا پڑے۔ انصاف تک رسائی نہ ہو، شہری کو قومی مفاد کے نام پر ملک دشمن قرار دیا جائے،رات کے اندھیرے میں غائب کر دیا جائے یا نامعلوم افراد کی بندوق سے نکلنے والی گولی کوئی نشان چھوڑے بغیر اسے چاٹ جائے تو اسے جلاوطن شہریت کہتے ہیں۔ دنیا کے مقتدر ایوانوں میں جلاوطن حکومتوں کا بہت شور رہتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی ضمیر جلاوطن شہریت کی عقوبت کو بھی اپنے ایجنڈے پر جگہ دے۔ مستقبل کی دنیا کو جلاوطن شہریت کے عذاب سے پاک کیا جائے۔

Leave a Reply