Mini Budget Par Tawun Ki Kahani

منی بجٹ پر تعاون کی کہانی

آج کل منی بجٹ سینیٹ سے منظور ہونے کا بہت شور ہے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی گنتی والے دن غائب تھے۔ انھوں نے سینیٹ میں وضاحت کی اوراپوزیشن لیڈر کے عہدے سے استعفیٰ پارٹی قیادت کو بھجوا دیا ہے تاہم چند گھنٹوں بعد ہی پارٹی قیادت نے اعلان کر دیا کہ ان کا استعفیٰ مسترد کر دیا گیا ہے۔ یوں گیلانی بھی سرخرو ہو گئے اور پیپلزپارٹی بھی سرخرو ہو گئی۔




ایسا لگ رہا ہے کہ گیلانی صاحب کے غائب ہونے سے لے کر مستعفیٰ ہونے تک سارا میچ فکس تھا۔ غائب ہونا بھی طے تھا، استعفیٰ دینا بھی طے تھا، استعفیٰ مسترد ہونا بھی طے تھا۔لہٰذا فکر کی کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی سینیٹ میں پیپلزپارٹی گزشتہ انتخاب سے قبل ہی حکومت سے تعاون کر رہی ہے۔

صادق سنجرانی کو پہلی دفعہ بھی پیپلزپارٹی کے تعاون سے ہی منتخب کرایا گیا تھا۔ اب بھی پیپلزپارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، اس لیے سینیٹ میں پیپلز پارٹی کا حکومت کے ساتھ تعاون نیا یا پہلی بار نہیں ہے۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہے۔

ویسے تو قومی اسمبلی سے بھی منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کا بل پاس ہوچکا ہے لیکن سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے، اس لیے توقع تھی کہ کم از کم سینیٹ سے یہ بل پاس نہیں ہوگا حالانکہ قومی اسمبلی میں گنتی کے وقت بھی اپوزیشن کے 12ارکان غائب تھے۔ اگر وہ ارکان موجود ہوتے تو وہاں سے بھی بل کا پاس ہونا مشکل تھا۔ اس لیے اگر سینیٹ میں حکومت کو محفوظ راستہ دیا گیا ہے تو قومی اسمبلی میں بھی محفوظ راستہ دیا گیا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ اپوزیشن نے اس مرحلے پر حکومت کو کیوں محفوظ راستہ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ کہیں نہ کہیں اپوزیشن کو یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ یہ منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کے بل کو حکومتی بل کی نظر سے نہ دیکھا جائے، اسے ریاست پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے، کیونکہ حکومت گھر بھی چلی جائے تب بھی یہ بل تو پاس کرنا ہوگا ،اس سے راہ فرار ممکن نہیں، اگر یہ بل پاس نہیں ہوتے تو پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں اس لیے اس بل کو نیشنل سیکیورٹی کے تناظر میں دیکھا جائے۔ اپوزیشن نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس بل کو پاس کرانے میں محدود مدد فراہم کی ہے۔

ویسے بھی یہ معاہدہ سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے گزشتہ سال فروری میں کیا تھا۔ جس کے بعد عمران خان نے حفیظ شیخ کو ہٹا دیا تھا۔ شائد حفیظ شیخ کی سینیٹ میں ہار کی ایک وجہ یہی تھی ۔نئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے منصب سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ ان کے پاس ایسا جادو ہے کہ انھیں حفیظ شیخ کے معاہدہ پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں لیکن وہ بھی ہار گئے اور انھیں آئی ایم ایف سے دوبارہ رجوع کرنا پڑ گیا۔

ایک بات طے ہے کہ عمران خان کی حکومت کے پاس پہلے دن سے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ا داروں کے ساتھ چلنے کا کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ عمران خان خود مانتے ہیں کہ حکومت سنبھالنے کے بعد انھوں نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں دیر کر دی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہو گئیں۔اسی غلطی پر انھوں نے اسد عمر کو تو ہٹا دیا لیکن حکومت اور پاکستان کو اسد عمر جن مشکلات میں پھنسا گئے تھے، اس سے عمران خان آج تک نکل نہیں سکے ہیں بلکہ ان کی غلطیوں کی سزا آج پاکستان بھگت رہا ہے۔ اپوزیشن کو ساری صورتحال کا بخوبی اندازہ تھا۔

وہ اس منی بجت اور اسٹیٹ بینک بل کو غلط تسلیم کرتے ہیں لیکن ملک کے وسیع تر مفاد اور ریاست کے اداروں کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے، ان کے پاس بھی حکومت کو محفوظ راستہ دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ اب یہ بھی کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ ایک طرف تو حکومت منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کے بل پر اپوزیشن سے محفوظ راستہ کی متلاشی تھی دوسری طرف مذاق بھی اڑا رہی ہے۔

لیکن یہ بھی کوئی نئی صورتحال نہیں ہے۔ اپوزیشن نے یہ محفوظ راستہ حکومت کی درخواست پر نہیں دیا ہے۔ اس لیے حکومت اس کو احسان نہیں سمجھتی بلکہ الٹا مذاق اڑا رہی ہے۔اپوزیشن نے ماضی میں بھی ایسے بے شمار بے لذت گناہ کیے ہیں۔ جہاں ریاست اور پاکستان کے نام پر ان سے حمایت بھی لی گئی ہے اور پھر حکومت نے اس حمایت پر مذاق بھی بنایا ہے۔ حکومت کا یہ رویہ کوئی قابل تحسین نہیں ہے۔ اس نے پاکستان میں کوئی خوش آیند اثرات مرتب نہیں کیے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ حکومتی وزرا نے جو سلوک کیاہے۔ یوسف رضا گیلانی موقع پانے پر اس کا بہت سخت بدلہ لیں گے۔

حکومت نے از خود یوسف رضا گیلانی سے بات چیت کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے ساتھ تمام دروازے پہلے ہی بند کر چکی ہے۔ کب تک ریاست اور پاکستان کے نام پر تعاون لیا جاتا رہے گا۔ اس کی بھی کوئی حد ہوگی۔

ویسے بھی میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیٹ بینک کا جو بل پاس ہوا ہے، وہ آگے چل کر ختم ہوجائے گا۔ اس وقت اس کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ حکومت کی غلطیوں کی وجہ سے ہم پھنس گئے تھے لیکن اگر آج اس بل کو پاس کرنے میں پاکستان کا مفاد تھا، لیکن کل اس کو ختم کرنا بھی پاکستان کا مفاد ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں اگلی حکومت اس بل کو پارلیمنٹ سے منسوخ کرا دے گی۔ پاکستان اس بل کا بوجھ زیادہ عرصہ نہیں اٹھا سکتا، اس کو ختم کرنا ہی ہوگا۔ ویسے تو ن لیگ نے اعلان بھی کیاہے کہ ان کے پاس جب بھی موقع آئے گا وہ اس بل کو ختم کر دے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ اگلی جو بھی حکومت ہو گی اس کو ختم کر دے گی۔

Leave a Reply