Pait Bhar Roti Ka Sawal

پیٹ بھر روٹی کا سوال

شہر کی سڑکوں پر بڑی بڑی چمچماتی گاڑیاں فراٹے بھرتی نظر آتی ہیں جو پاکستان کے خوشحال طبقے کی نشاندہی کرتی ہیں جن پر روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی اس طرح اثر انداز نہیں ہوتی کہ کھانے پینے کے لالے پڑ جائیں۔وہیں ان گاڑیوں کے ساتھ ساتھ موٹرسائیکلوں پر پورے پورے خاندان کو بٹھائے سفر کرتے ہوئے سفید پوش پاکستانی دکھائی دیتے ہیں۔یہ وہ سفید پوش طبقہ ہے جن کی زندگیاں مہنگائی کے بپھرے ہوئے سونامی کی زد میں رہتی ہیں۔اس طرح بڑی بڑی دکانیں اور شاپنگ سٹور کے آس پاس چھوٹی دکانوں والے چل پھر کر اپنی روزی کمانے والے ریڑھی بان، شہر کے چوک پر کھڑے ہوئے مزدوروں کے جتھے،کسی گلی کی نکڑ پر سرجھکائے ،جوتیاں مرمت کرتا ہوا درویش موچی،کھانے پینے کی دکانوں کے باہر سرو کرتے ویٹرز،چوکیدار ،سڑکوں پر صفائیاں کرتے خاکروب ،چھوٹی موٹی مزدوریاں کرتے دیہاڑی داڑ ،یہ وہ غربت زدہ طبقہ ہے جس کی پوری زندگی کے خواب پیٹ بھر روٹی کے گرد گھومتے پیں۔ان کے چہروں کے خدوخال ضرور مختلف ہو ں گے مگر ان کے چہروں پر تحریر حالات کی پریشانی ایک سی ہے .۔آٹا، گھی، چاول، چینی ،دالوں، چائے کی پتی میں ہر کچھ دن کے وقفے سے چند روپوں کا اضافہ بھی انہیں تازیانے کی طرح لگتا ہے۔ یہ سفید پوش اور نادار لوگ صبح سے شام تک خود کو روزگار کی بھٹی میں جلاتے ہیں مگر اس کے باوجود اتنے پیسے نہیں کما پاتے کہ اپنے خاندان کو دو وقت کی اچھی روٹی کھلاسکیں ۔خالی جیب کے ساتھ جیون کی بھاری ناؤ چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔ رشیدہ دہ بی بی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں اس کے پانچ بچے ہیں۔ دو چھوٹے بچے چھ اور چار سال کی عمروں کے ہیں۔ اس عمر میں دودھ بچے کی بنیادی غذا کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔کرائے کے گھر میں رہنے والی رشیدہ بی بی کی ماہانہ آمدنی اتنی نہیں ہے۔ بچوں کے لیے دودھ پھل اور گوشت خرید سکے۔اس کی زندگی کی فہرست میں یہ چیزیں شامل ہی نہیں ہیں۔ اس کے لیے پورے دن کا سب سے بڑا ٹاسک یہی ہے کہ صبح ناشتے میں سب چائے روٹی کھا کر گھر سے نکلیں اور شام کو گھر ایک سادہ ہانڈی تیار کرنے کا کچھ سامان میسر ہوسکے۔دوپہر کو باجیوں کے گھر سے بچا کھچا سالن مل گیا تو گزارا چل گیا۔ رشیدہ بی بی جس محلے میں رہتی ہے وہاں مرد محنت مزدوری کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی بچوں کی روٹی پوری کرنے کے لیے گھروں کا کام کرتی ہیں۔ رشیدہ بی بی بھی ان میں سے ایک ہے۔ یہ شہر کی غریب بستی ہے۔ اس کی تنگ اور ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں سارا دن بچے کھیلتے رہتے ہیں۔ یہ بچے اپنی طبعی عمروں سے کمزور اور چھوٹے نظر آتے ہیں۔ دن بھر میں یہ بچے جو کچھ کھاتے ہیں وہ ان کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ان بچوں کی بدقسمتی یہی ہے کہ ان کے والدین غریب ہیں جو تما م دن اپنے بدنوں کو محنت اور مشقت کی بھٹی میں جھونک کر بھی اتنا نہیں کما پاتے کہ اپنے بچوں کے گلاس دودھ سے بھر سکیں۔ غریب والدین کے یہ بچے غذائی کمی کے باعث کم عمری میں ہی کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے مدافعتی نظام کمزور رہتا ہے اور دماغی نشوونما رک جاتی ہے۔ہمیں یاد آتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر میں میں بڑی دردمندی سے قوم کو بتایا کہ غریب بچے غذائی کی کمی کی وجہ سے بہترنشوونما سے محروم رہ جاتے ہیں۔وزیراعظم نے ہاتھ میں کچھ کاغذ پکڑ رکھے تھے جس پر غذا کی کمی سے کمزور رہ جانے والے بچوں کے دماغ اور جسموں کی ڈایاگرام بنی ہوئی تھیں۔وزیراعظم کی تقریر کی مجموعی طور پر بہت تعریف ہوئی تھی مگر تقریر کے اس حصے کو خاص طور پر پذیرائی ملی۔کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی باپ اپنے بچوں کے لئے پریشانی کا اظہار کررہا ہے۔اس وقت امیدوں کی فصل جوان تھی۔ وزیر اعظم کے دعووں اور وعدوں کی بازگشت ابھی سماعتوں میں رس گھولتی تھی ۔اقتدار کے سفر کا آغاز تھا۔ائیڈیلزم ابھی شہر سیاست میں عملیت پسندی اور نظریہ ضرورت کے سامنے ڈھیر نہیں ہوا تھا، نہ ہی یوٹرنوں کے سنگ میل سے واسطہ نہیں پڑا تھا ،سو وقت کے حکمران کا اپنی پہلی تقریر میں غریب بچوں کے بارے میں سوچنا غذائی کمی کے حوالے سے پریشان ہونا بہت نیک شگون تھا۔خیر اب وہ سب ماضی کا قصہ ہے سب کچھ سیاست میں عملیت پسندی کی نذر ہوچکا ہے۔وزیراعظم پاکستان کے اردگرد خوشامدیوں کے جمگھٹے لگے ہیں جو انہیں یقین دلاتے ہیں کہ آپ کی بنائی ہوئی ریاست مدینہ میں لنگر خانے کھلے ہیں اور غریب کو روٹی مل رہی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہوں کو خوش کرنے کے لیے نورتن دور کی کوڑی لاتے رہے ہیں ۔ تازہ ترین نمونہ ملاحظہ فرمائیے کہ ایک مشیر خوشامد کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہوکر فرماتے ہیں کہ وزیراعظم غریبوں کو ا اتنا خوش کر دیا ہے کہ خوشی کے آنسو اب سنبھالے نہیں جاتے۔ کرپشن اور بدیانتی صرف روپے پیسے ہی کی نہیں ہوتی شکلیں بدل بدل کر وار کرتی ہے، خوشامد میں لتھڑے ہوئے ایسے بیانات کرپشن نہیں تو کیا ہیں؟ پی ٹی آئی حکومت کو ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں۔ ان ساڑھے تین سالوں اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ مہنگائی کنٹرول نہیں ہو سکی اور غریب کے لیے زندگی پہلے سے زیادہ مشکل ہو چکی ہے۔ملک کے نادار اور سفید پوش طبقے کو سیاست کی تماشا گری سے کوئی دلچسپی نہیں۔انہیں تو یہ پتا ہے کہ وہ آپ کی حکمرانی میں اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کے قابل بھی نہیں رہے۔آپ بادشاہ ہیں آپ کے خواب اونچے ہوں گے۔ غریب کی جھولی میں تو صرف پیٹ بھر روٹی کا خواب ہے اور وہ بھی اک حسرت تعبیر سے دوچار !




Leave a Reply