Be Khabar Parliament

بے خبر پارلیمنٹ،شاطر معاشی ماہرین

گزشتہ دو ماہ سے سٹیٹ بنک کی خودمختاری کے مجوزہ بل پر بحث چل رہی تھی اور پھر ایک دن یہ بل حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی ملی بھگت سے پاس ہو گیا۔ اس بل کے بعد پاکستان اور اس کے عوام پر کیا بیتے گی، جو جانتے ہیں، ان کی بے چینی اور اضطراب دیدنی ہے، لیکن اس ملک کی اسمبلیوں میں ’’جمہوری جہالت‘‘ کے یہ دو ماہ ایسے نظر آئے ہیں کہ اس دوران ممبرانِ اسمبلی میں جس طرح کی حالات سے بے خبری، معاشی مسائل سے لاتعلقی اور کاروبارِ سلطنت سے لاعلمی نظر آئی ہے، ایسی شاید کسی سیکنڈری کلاس کی معاشیات کے طالب علموں میں بھی نہ پائی جاتی ہو گی۔ ہر سیاسی پارٹی کے آکسفورڈ جیسے اداروں کے فارغ التحصیل ممبران سے لے کر اُردو میڈیم سکولوں سے پرائمری پاس ممبرانِ پارلیمنٹ تک سب کی سوچ سطحی نعروں سے بلند نہ ہو سکی۔ ایک جانب یہ شور تھا کہ ملک کی سا لمیت کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ دیا گیا اور دوسری جانب اس بل کو پاس کروانے کے لئے خفیہ رابطوں اور ’’بیرون از پارلیمنٹ‘‘ چالوں پر بھروسہ کیا جا رہا تھا۔ اس شدید بحث و مباحثہ کے عرصے میں سیاست دانوں کی تقریریں، معاشی تجزیہ نگاروں کے تجزیے، اینکر پرسنوں کی گرم جوشیاں اور دانشوروں کے پُرمغز خیالات کا مطالعہ کریں تو آپ کو اپنے معاشرے کی علمی استعداد کے سطحی اور کھوکھلے پن کا شدید احساس ہو گا۔ یہ کھوکھلا پن اب دُنیا بھر میں ہماری پہچان بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پچاس سال سے صرف پچاس کے قریب اقتصادی ماہرین پاکستان کی معیشت پر راج کرتے رہے ہیں اور ان سب ماہرین کا شجرۂ نسب ورلڈ بنک، آئی ایم ایف اور عالمی سُودی مالیاتی نظام کے خاندان سے ملتا ہے۔ ان کے رَگ و پے میں دوڑنے والا خون اور عقل و ادراک کی شریانوں میں سُودی معیشت، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے مالیاتی نظام کی غلامی کا راج ہے اور یہ سب کے سب اس ملک میں اس نظام کی کٹھ پُتلیاں ہیں۔ اراکینِ پارلیمنٹ کی بے خبری، لاعلمی اور جہالت ان معاشی ماہرین کی شاطرانہ پالیسیوں اور چالوں کیلئے انتہائی زرخیز زمین ہے، جس میں سازش کا پودا خوب پروان چڑھتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار وہی ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں شیطان کا ہتھیار بتایا ہے۔ اللہ فرماتا ہے، ’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے وعدہ فرماتا ہے، بخشش اور فضل کا اور اللہ بڑا فراغ دست اور دانا ہے‘‘ (البقرہ: 268)۔ جو قوم گزشتہ ستر سال سے یہ فقرے سنتی چلی آ رہی ہو کہ ہم امریکہ سے کٹ کر دفاعی طور پر ناکارہ اور معاشی طور پر کمزور ہو جائیں گے، اور مغرب سے آنے والی ہر فحاشی اور بے حیائی پر نہ صرف خاموش ہو جائے بلکہ حقوقِ نسواں کے نام پر اس کا راستہ ہموار کرے، تو ایسے میں شیطان کے احکامات کی تعمیل کرنے والی قوم کو اللہ کے فراغ دست سے کچھ نہیں ملا کرتا ہے۔ بحیثیت قوم ہماری حالت سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق ہے، جس میں آپ نے فرمایا، ’’اگر کوئی شخص کسی انسان سے مانگنے کیلئے سوال کا دروازہ کھولتا ہے (ہاتھ پھیلاتا ہے) تو اللہ اس کیلئے فقر و محتاجی کا دروزہ کھول دیتا ہے‘‘ (جامع ترمذی: 2325)۔ بحیثیت قوم پاکستان پر یہ محتاجی کا دروازہ اُس وقت کھلا جب 8 دسمبر 1958ء کو یہ ملک صرف 25 ہزار ڈالر کی بھیک آئی ایم ایف سے لے کر آیا تھا۔ یہ صرف ایک بھیک نہ تھی بلکہ غلامی کا ایسا آغاز تھا جو اپنے ساتھ ان معاشی ماہرین کو لے کر آیا جو عالمی سُودی مالیاتی نظام کی کٹھ پُتلی تھے اور جنہوں نے ان 64 سالوں میں پاکستان کو قرض کی ایسی دلدل میں اس طرح دھنسا دیا ہے کہ نکلنے کا راستہ نظر نہیں آتا اور اب ان حالات کی وجہ سے یہ ماہرین میرے ملک میں خوف بیچ رہے ہیں… دیوالیہ ہو جانے کا خوف، عالمی طور پر معاشی پابندیوں کا خوف، اگلی قسط کی ادائیگی کے بغیر خوفناک نتائج کا خوف اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے کمزور ہونے، یہاں تک کہ شدید خطرے میں پڑ جانے کا خوف۔ یہی وجہ ہے کہ ان معاشی ماہرین اور مالیاتی شاطروں نے پہلے ایٹمی قوت… پاکستان کو یہی خوف بیچ کر اس کی نیشنل سکیورٹی پالیسی کو معیشت کے ساتھ مشروط کر دیا۔ یہ عین ان دنوں میں ہوا جب پوری دُنیا پر طالبان کی فتح نے اس حقیقت کو آشکار کر دیا تھا کہ فتح و نصرت کا تعلق معیشت کی بہتری سے ہے اور نہ ہی ٹیکنالوجی کے عروج سے۔ دُنیا کی سب سے مضبوط معیشت اور دُنیا کی سب سے بہترین ٹیکنالوجی کی حامل قوت امریکہ اپنے اڑتالیس حواریوں کے ساتھ چند ہزار بے سروسامان مردانِ حُر کے ہاتھوں افغانستان میں ذلّت آمیز شکست سے دوچار ہوتی ہے۔ جب آپ نے اس ملک کے عسکری حلقوں کو قائل کر لیا کہ پاکستان کی بقا، سلامتی، سکیورٹی اور دفاع سب صرف اور صرف معیشت سے ہی وابستہ ہے تو پھر اس کے بعد ان معاشی شاطروں کی منزل بہت آسان ہو گئی، راستہ صاف ہو گیا۔ اب انہوں نے صرف یہ خوف دلانا تھا کہ کمزور معیشت کو درست کرنے کیلئے عالمی مالیاتی نظام کی تمام ہدایات اور فرامین پر من و عن عمل کرنا پڑے گا۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ ان ہدایات پر من و عن عملدرآمد کیلئے سب سے پہلے جو سٹیٹ بنک ترمیمی بل لایا گیا اس کے خطرات سے پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں میں سے کوئی بھی بخوبی آگاہ نہیں ہے۔ دونوں جانب ایک کھوکھلا پَن اور بے ہنگم نعرہ بازی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ ترمیمی بل اس ملک کی سلامتی اور خودمختاری کیلئے کس قدر خطرناک ہے اس کو دُنیا بھر کی معیشتوں کے تناظر میں ملاحظہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ہمیں اس قانون کے تحت جس دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے، اس سے کم از کم موجودہ پاکستانی ’’لا علم جمہوری قیادت‘‘ اور محدود بصارت (Tunnel Vision) رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ ہر گز ہر گز اس ملک کو نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ایسا خوفناک کیا ہے، اس ترمیمی بل میں؟ سب سے پہلے قانون میں ہونے والی یہ بنیادی تبدیلی ملاحظہ کریں، جس کے تحت 1956ء کے ایکٹ XXXIIII کے سیکشن 468 کی شق (Clause) 31 کی ذیلی دفعہ (4) کے تحت “The banks, the members of decision-making bodies and its staff shall neither request, nor take any instruction from the government or quasi-government entities. The autonomy of the bank (SBP) shall be respected at all times and no person or entity seek to influence the members, executive committee, monetary policy committee, or the staff of the bank in the performance of their functions.” ’’تمام بنک، ان کی فیصلہ ساز قوتیں، اور ان کا سٹاف کسی بھی حکومت یا نیم سرکاری ادارے سے نہ کوئی درخواست کرے گا اور نہ ان سے ہدایات لے گا۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی خودمختاری تمام اوقات اور ادوار میں محترم رہے گی اور کوئی شخص یا ادارہ بنک کے ممبران، ایگزیکٹو کمیٹی، مالیتی پالیسی کمیٹی یا بنک کے سٹاف پر اس کے اختیار اور کارگزاری کے سلسلے میں اپنا اثرو رسوخ استعمال نہیں کر سکے گا‘‘۔ (اس ابتدایئے کے بعد ذیلی دفعات کے خطرناک نتائج پر کل بحث ہو گی)۔




Leave a Reply