Pakistan Ki Han Aur Na

’’پاکستان کی ہاں اور ناں‘‘

امریکہ کا پاکستان کیلئے یہ لہجہ اجنبی ہو چکا تھا،بلکہ گزشتہ پندرہ سالوں سے ہم پر مسلسل بے وفائیوں،دھوکوں کے الزامات لگائے جا رہے تھے۔ افغانستان سے ذلت آمیز شکست کے باوجود،امریکہ کیلئے پاکستان کی اہمیت اس قدر غیر اہم تھی کہ وائٹ ہائوس کے نئے مکین جوبائیڈن نے پاکستانی وزیر اعظم سے ٹیلیفون پر بھی گفتگو پسند نہ کی، وزارتِ خارجہ نے دو ٹوک کہا:اب پاکستان سے تعلقات صرف واجبی یا مسائل کی بنیاد پر ہی رہیں گے، مسلسل اور پائیدار نہیں ہو سکتے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اِدھر عمران خان کا چین کا دورہ شروع ہوا اور اُدھر امریکی دفترِخارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس (Ned Price) نے شاید امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ ، بھارت کی پارلیمنٹ میں پاکستان اور چین کے تعلقات اور بھارت کی عالمی تنہائی پر ہونے والی بحث پر نہ صرف تبصرہ کرنے سے انکار کیا بلکہ کہا،’’میں یہ معاملہ پاکستان اور چین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود اپنے تعلقات کے بارے میں گفتگو کریں‘‘۔ اس صحافی نے پھر اُچک کر سوال کیا کہ ’’پاکستان اور چین جس طرح گرمجوشی سے اپنے تعلقات آگے بڑھا رہے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دونوں نے یہ جان لیا ہے کہ امریکہ نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے‘‘۔ اس سوال پر امریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ایک طویل اور جامع جواب دیا،جس کے بین السطور میں یہ بات صاف صاف نظر آ رہی تھی کہ پاکستان امریکہ کیلئے اب کتنا ضروری ہو چکا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ’’ہم نے دُنیا کے تمام ممالک پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری یہ قطعاً خواہش نہیں ہے کہ آپ امریکہ اور چین دونوں میں سے تعلقات کیلئے کسی ایک کا انتخاب کریں،بلکہ ہم نے ممالک کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کے مختلف زاویے اور طریقے بتائے ہیں تاکہ وہ فیصلہ کر سکیں کہ ہمارے اور دیگر ممالک کے درمیان کیسے متوازن تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں ۔ ہم نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ امریکہ سے دوستی آپ کو چین کے مقابلے میں کتنی زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہے‘‘۔ اس کے بعد اس نے پاکستان کے بارے میں ایک ایسا فقرہ کہا جس کو بیان کئے اور دُنیا کو سُنے کئی سال بیت چکے تھے۔ ترجمان نے کہا’’پاکستان ہمارا تزویری حلیف (Strategic Partner) ہے۔ حکومتِ پاکستان کے ساتھ ہمارے اہم ترین تعلقات ہیں اور ہم ان تعلقات کو کئی معاملات کے حوالے سے ترجیح دیتے ہیں‘‘۔یہ لہجہ اور محبت کا یہ انداز اب اجنبی ہو چکا تھا۔یہ بالکل ویسا ہی لہجہ ہے جب 1979ء میں روس افغانستان میں داخل ہوا تھا تو پاکستان امریکی محبتوں کے سفارتی نقشے پر ایک’’محبوب‘‘بن کر جلوہ گر ہوا تھا۔ سوویت یونین سے جنگ امریکہ کو اس قدر عزیز تھی کہ اس دوران تمام تر امریکی ایجنسیوں کی خفیہ رپورٹوں کی سنگینی کے باوجود امریکی صدر کانگریس کو ہر چھ ماہ بعد مسلسل یہ سرٹیفکیٹ جاری کرتا رہا کہ’’پاکستان کسی بھی طور پر ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا‘‘۔ یہ سر ٹیفکیٹ پاکستان کو امریکی امداد کیلئے بے حد لازم تھا۔اسی دوران امریکہ کے قابلِ اعتماد یہودی صحافی سیمور ہرش (Seymour Hersh)،جس نے اسرائیل کے ایٹم بم کا بھی انکشاف کیا تھا،اس نے بھی پاکستانی ایٹم بم کی خبر دے دی،مگر پھر بھی امریکی کانگریس کے ارکان امریکی صدر کے اس جھوٹے سر ٹیفکیٹ پر ہی اعتماد کرتے رہے۔ پاکستان بے صبری سے ایٹم بنانے کا اظہار کرنا چاہ رہا تھا،اس لئے بھارتی صحافی کلدیپ نیئر کو مشاہد حسین کی ہمرکابی میں مارچ 1987ء میں کہوٹہ کا دورہ کروایا گیا تاکہ حقیقت حال دُنیا پر واضح ہو جائے۔ ابھی تک افغانستان میں جنگ جاری تھی اور پہلا روسی سپاہی ٹھیک ایک سال بعد 1988ء کے فروری کے آخری ہفتے میں وہاں سے نکلنا شروع ہوا اور فروری 1989ء کو یہ انخلاء مکمل ہوا۔ان دو سالوں میں بھی، جب ہمارے ایٹمی پروگرام کا سب کچھ طشت اَز بام ہو چکا تھا ، امریکہ کی محبتوں اور عنائتوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ لیکن جیسے ہی آخری سوویت فوجی افغانستان سے نکلا، امریکہ نے وہاں سے اپنا بوریا بستر گول کیا، اقوامِ متحدہ کے رفاحی ادارے اور این جی اوز بھی دُم دبا کر بھاگ نکلے، پھر ہماری ضرورت نہ رہی اور یوں پاکستان پر امریکہ کی عنایاتِ خسروانہ کا دَور ختم ہو گیا، بلکہ پریسلر ترمیم جو 1985ء میں ایٹم بم کی خبر ملنے کے فوراً بعد منظور ہوئی تھی،اس پر عملدرآمد کی سختیاں شروع ہو گئیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ 2001ء میں گیارہ ستمبر کے بعد اگرچہ پرویز مشرف کی پالیسی انتہائی مطیع، مغلوب اور اطاعت والی تھی، مگر اس غلامانہ رویے کے باوجود گزشتہ بیس سال ایسے گزرے ہیں جیسے طعنوں کے چابک سے ہمیں کنٹرول کیا جا رہا ہو۔ افغانستان میں امریکی شکست کا ملبہ اگر ہم پر نہ ڈالا جاتا تو طاقتور پینٹاگون اور مضبوط سی آئی اے امریکی عوام کو کیا منہ دکھاتی۔ اس کے باوجود بھی امریکہ نے ہم سے رشتے کو مفادات کی کچی ڈور سے باندھے رکھا۔ پندرہ اگست 2021ء کو طالبان کی فتح سے لے کر عمران خان کے چین کے حالیہ دورے تک لاتعداد ایسے فیصلہ کن مراحل آئے کہ ہم کوئی فیصلہ کرتے، مگر پاکستان کا دل ساٹھ سالہ امریکی محبت میں ہی اٹکا رہا، کیونکہ ہمارے ملک کے امریکی کاسہ لیس دانشور، سیاست دان، دفاعی تجزیہ کار اور حاضر سروس سول اور ملٹری بیورو کریٹس امریکی تعلقات کی رنگینیوں کی ہمیں مسلسل ترغیبات دیتے رہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی معاشی حالت اس بات پر ہمیں مجبور کرتی رہی کہ امریکہ کی دوستی میں گزشتہ حکمرانوں نے ملک کو جس دلدل میں اُتارا ہے اگر ہم اب بھی اسی محبت میں گرفتار رہے تو ہمارا انجام صرف ہلاکت ہو گا۔ اس سلسلے کا پہلا اہم ترین قدم دسمبر 2021ء میں اُٹھایا گیا جب پاکستان نے امریکہ کی بلائی گئی جمہوریت کانفرنس (Democracy Summit) میں جانے سے انکار کیا۔ اس کانفرنس میں ایک سو دس ممالک کو بلایا گیا تھا، لیکن چین کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے چین نے 2019ء میں اپنی ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس میں ایک سو ممالک کو بلایا مگر امریکہ کو مدعو نہیں کیا۔ پاکستان کا چین کے ساتھ تعلق ہمیشہ اس ہمسائے کی طرح کا رہا ہے جو ضرورت کے وقت کام آتا ہے، لیکن ہماری آشنائیاں ہمیشہ امریکہ اور مغرب کے ساتھ ہی رہی ہیں۔ چین نے ہم سے رشتہ اس لئے بھی قائم رکھا کہ اس کی کبھی امریکہ سے کسی میدان میں کوئی لڑائی نہیں رہی، بلکہ ہم نے 1969ء میں امریکہ اور چین کی آپس میں دوستی کی گانٹھ بندھوائی تھی۔ 1971ء میں جب ہمیں مشرقی پاکستان میں شکست ہوئی تو امریکہ نے مغربی پاکستان کو بھارت کے حملے سے اس لئے بچایا تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اگر یہاں بھی بھارت آ گیا تو پھر خلیج بنگال سے لے کر یوکرائن تک پورے علاقے سے امریکہ نکل جائے گا اور سوویت یونین کا راج ہو گا۔ آج امریکہ ایک بار پھر بالکل ویسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ چین کے خلاف بھارت امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے چار رکنی اتحاد نے پاکستان کو نکال باہر کیا۔ دوسری جانب بحرِہند میں امریکی افواج آ کھڑی ہوئیں تاکہ کسی بھی وقت چین کا واحد سمندری راستہ بلاکہ (Balaca) کاریڈور بند کر دیا جائے۔ یوکرائن پر روسی افواج کا اجتماع، جنگ کے خطرے کی گھنٹی بجانے لگا ہے، بھارت کی چین سے ابتدائی شکست اور چین کے ایک ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر قبضے نے امریکی حکمتِ عملی کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ اس ناکام حکمتِ عملی کے بعد اب گذشتہ چھ ماہ سے پاکستان کو معاشی بدحالی سے ڈرایا جا رہا تھا اور ہمارے دانشور امریکہ سے علیحدگی کے خوف سے دُبلے ہوئے جاتے تھے۔ ادھر کسی بھی طرح کی جنگ، ناکہ بندی یا تجارتی مقاطعے کی صورتحال میں چین کے پاس صرف اور صرف ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے اور وہ ہے خنجراب سے گوادر۔ یہ راستہ ایسے ہے کہ جیسے چین ایک سر ہے اور باقی دُنیا ایک دھڑ، جس کو آپس میں جوڑنے کیلئے گردن کی حیثیت پاکستان کو حاصل ہے۔ پاکستان کی یہ عالمی اہمیت اس سے پہلے کبھی بھی نہیں رہی۔ درویش صوفی برکت علی نے خوب کہا تھا، ’’وہ دن دُور نہیں جب پاکستان کی ہاں اور نہ میں اقوامِ عالم کے فیصلے ہوں گے‘‘۔




Leave a Reply