Wazer e Azam Cheen Say Kiya Lain

وزیر اعظم چین سے کیا لائیں

میری تمنا ہے کہ وزیر اعظم چار روزہ دورے کے دوران کچھ وقت نکال کر چینی سماج کا مشاہدہ ضرور کریں۔کسی بوڑھے چینی کی بند ہوتی آنکھوں میں عزم کی تصویر دیکھیں،چین کی قدیم کہانیاںسنیں،چین کے پھولوں کا نظارہ کریں اور خوشبو کو اپنے اندر اتاریں۔چینیوں کے کارخانوں اور کھیتوں میں جائیں ، خود داری کی مہک محسوس کریں،اپنے رفقا کو موقع دیں کہ چینی دانشوروں سے سیکھیں۔چین ابھرتی عالمی طاقت ہے۔اس کی طاقت کیا ہے ؟ہمیں یہ جاننے میں دلچسپی ہونی چاہئے۔ پاکستان چین کا ایسا دوست ہے جسے روٹی چاہیے اور ساتھ بندوق بھی تاکہ روٹی جھپٹنے والے کوئوں سے بچا جا سکے۔عمران خان یہی دو انتظامات کی درخواست کرنے چین گئے ہیں۔ چین نے پاکستان کو معاشی‘دفاعی اور تکنیکی معاونت فراہم کی ہے‘دونوں ملک ایک دوسرے کو گہرا دوست اور دکھ سکھ کا ساتھی قرار دیتے ہیں۔چین پاکستان کو کئی طرح کے جدید ہتھیار سپلائی کر رہا ہے۔زیادہ اچھی بات یہ کہ اس عمل میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر بھی شامل ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ غیر ملکی چینی ہیں۔2013ء میں چینی باشندوں کی تعداد 20ہزار تھی 2018ء میں یہ تعداد 60ہزار ہو گئی۔تازہ اندازے کے مطابق اب تعداد ایک لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔پاکستانی باشندے بھی چین میں کام کر سکتے ہیں۔چینی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے بعد کئی طرح کے تحقیقی کام کئے جا سکتے ہیں۔آئی ٹی کمپنیوں میں سوفٹ ویئر کوڈنگ کا کام مل سکتا ہے‘بین الاقوامی بینکوں میں چارٹرڈ اکائونٹنٹ کا کام کیا جا سکتا ہے۔نومبر 2021ء کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان سے گئے 28ہزار طالب علم چین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ 2015ء میں جب چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور تعمیر کرنے کا اعلان ہوا تو مقصد پاکستان کے بوسیدہ ترقیاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانا تھا۔یہ انفراسٹرکچر بن جائے تو صنعتی منصوبے لگانے میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے ۔ابتدائی طور پر اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 46ارب ڈالر تھا جس پر اب تک 65ارب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔چینی سرمائے سے بجلی پیدا کرنے والے یونٹ لگائے گئے۔اس سے وافر اور سستی بجلی پیدا ہوتی ہے۔بجلی سستی ہونے سے پیداواری لاگت کم ہوتی ہے۔اس سے اشیا کے نرخ کم رہتے ہیں اور بین الاقوامی منڈیوں میں سستی اشیاء کے زیادہ خریدار ملتے ہیں۔ مزاحم قوتیں بروئے کار آ چکی ہیں، بجلی کی پیداوار میں اضافہ کے باوجود نرخ کم نہیں ہو پا رہے۔ سرمایہ دارانہ نطام بجلی کے نرخ بڑھا کر پاک چین تعاون کا ایک ہدف بیکار کرنا چاہتا ہے۔ سی پیک منصوبے کا دوسرا مرحلہ دسمبر 2021ء میں شروع ہو چکا ہے۔اس حصے میں 27ایسے پراجیکٹ شامل ہیں جن کا تعلق پیداواری استعداد بڑھانے اور روزگار کی فراہمی سے ہے۔وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورے کے پہلے دو روز میں زراعت‘ صنعت اور خدمات کے شعبوں میں جو معاہدے ہوئے ہیں وہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے اہداف کو پیش نظر رکھ کر کئے جا رہے ہیں۔اندازہ ہے کہ اس مرحلے میں مزید 30ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آ سکتی ہے۔اس سے کورونا کے اثرات سے متاثرہ معیشت میں بہتری آ سکے گی‘دس ہزار سے زائد وہ کاروبار دوبارہ کھل سکیں گے جو بند کر دیے گئے اور جن دو کروڑ افراد کا روزگار متاثر ہوا ان کو روزگار مل سکے گا۔ پاکستان کی معاشی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ملک کے بڑے حصے میں امن و امان کی خراب حالت ہے۔آدھے سے زیادہ ملک سکیورٹی مسائل کا شکار ہو تو مالیاتی بوجھ باقی آدھے حصے پر آ جاتا ہے۔قبائلی اضلاع میں صنعت‘ لائیو سٹاک اور تجارتی منصوبوں کو اب تک شروع نہیں کیا جا سکا۔بلوچستان کا بہت بڑا رقبہ ایسا ہے جہاں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔معدنیات‘ سیاحت‘ زراعت‘ ماہی گیری‘لائیو سٹاک اور صنعتوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔لیکن پچھلے دو عشروں سے یہاں ہر اس سرگرمی کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا جو قومی ترقی کے لئے مددگار ہو سکتی تھی۔سندھ کے کئی علاقوں کا بھی یہی حال ہے۔کراچی میں سٹاک مارکیٹ کی عمارت پر گزشتہ برس ہونے والے حملے کے ڈانڈے بھی اس بات سے جا ملتے ہیں کہ وہاں چینی سرمایہ کاری 40فیصد تک ہو گئی ہے۔اس حملے کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری پر وار کیا گیا۔سرمائے کی بین الاقوامی منڈی میں پاکستان کو پرخطر مارکیٹ کہا جاتا ہے۔رسک والی سرمایہ کاری کے لئے چین ایک نڈر دوست ثابت ہوا ہے۔سندھ میں توانائی‘کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے‘زمین میں تیل کی تلاش وغیرہ کے کام چینی کمپنیوں کو مل رہے ہیں۔بلوچستان میں چینی کمپنیاں ماہی گیری‘ماربل اور معدنیات کے کاموں سے منسلک ہیں۔گزشتہ برس ایک سو چینی سرمایہ کاروں نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی۔یہ لوگ ہوٹلنگ‘انفارمیشن ٹیکنالوجی ،ٹیلی کام اور کنسلٹنسی کا کاروبار کر رہے ہیں۔مغربی ملکوں کو شکائت ہے کہ پاکستان اپنی مارکیٹ میں چینی سرمایہ کاروں کو ترجیح دے رہا ہے۔یہ کاروباری شکائت کئی بار سیاسی اور مالیاتی دباو کی صورت میں پاکستان کے لئے مسائل پیدا کر دیتی ہے۔ سینکڑوں سال پہلے چینی حکمران نے عوامی گزرگاہ پر چٹان رکھوا کر اپنا ایک آدمی نگرانی پر بٹھا دیاکہ لوگ اس کے بارے میںکیا رائے دیتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک مشہور تاجر کا گزر ہوا اس نے جانے بغیر کہ چٹان کس نے رکھی، رکھنے والے کو برا بھلا کہا اور چل پڑا۔ ایک ٹھیکیدار گزرا تو اس نے بھی برا بھلا کہا اور اول فول بول کرروانہ ہوا۔ کچھ سست الوجود لوگ گزرے لیکن صرف تبصرے جھاڑ کر اور راستہ بند کرنے والوں کو گالیاں دے کر اپنی راہ لی۔دو دن یونہی گزر گئے تیسرے دن ایک مفلوک الحال مزدور کا گزر ہوا۔ یہ صورتحال دیکھ کر وہ رکا ۔ آنے جانے والوں کو تکلیف کا احساس دلا کر اس بات پر راضی کیا اور سب نے مل کر اس چٹان کو رستے سے ہٹادیا۔چین کی مدد اپنی جگہ لیکن اپنی مشکلات پر ہمارا رویہ بھی تبدیل ہونا چاہئے۔




Leave a Reply