Sarmaya kari Asan bnany ka trika

سرمایہ کاری آسان بنانے کا طریقہ

ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنا اور ملک کی ترقی کی رفتار کو بحال کرنا‘یہ مضمون معیشت میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے انتظامی حکومتی ڈھانچے کا جائزہ لیتا ہے‘سرمایہ کاری سے متعلق دو سرکاری ادارے ہیں‘نجکاری کمیشن (PC) بران فیلڈ پراجیکٹس سے نمٹتا ہے، جبکہ بورڈ آف انویسٹمنٹ (BOI) گرین فیلڈ پروجیکٹس سے نمٹتا ہے‘ دونوں تنظیموں نے پچھلے کچھ سال میں برابری کی کارکردگی پیش کی‘بی او آئی وزیر اعظم کے دفتر کے ساتھ رکھا گیا ہے اسے عالمی اور مقامی سرمایہ کاروں کے لئے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنا اور انہیں ملک میں منصوبوں کے قیام اور چلانے میں سہولت فراہم کرنا ہے‘حال ہی میں اس نے غیر ملکیوں کیلئے سرمایہ کاروں کے ویزوں کی سہولت کے علاوہ ریگولیٹری ماڈرنائزیشن اصلاحات پر بھی کام کیا ہے؛جبکہ گزشتہ پانچ سال میں ایف ڈی آئی میں کمی آئی ہے، سرمایہ کاروں کے ویزے بی او آئی سے چھین لئے گئے ہیں اور دوبارہ داخلہ ڈویژن کے پاس رکھے گئے ہیں‘بی او آئی کاروبار کرنے میں آسانی کی اصلاحات کی رہنمائی کر رہا ہے، جس سے پاکستان کو2020ء میں عالمی درجہ بندی میں 136سے108تک پہنچنے میں مدد ملی‘کیوں بی او آئی موثر طریقے سے اپنا لازمی کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا؟2018ء میں جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو مشرق وسطی کے کئی اہم حکمرانوں، ترکی کے صدر اور ملائیشیا کے وزیراعظم نے اپنی عالمی کمپنیوں کے کئی اہم سی ای اوز کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا‘بات چیت میں پٹرولیم، پاور اور سیاحت کے شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی‘ اس وقت کے وزیر اعظم نے بھی ان ممالک کا دورہ کیا اور ہر دورے کے موقع پر میٹنگز کا اہتمام کیا گیا اس کے باوجود، بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں تیزی آنے کے باوجود، شاید ہی نوٹ کی کوئی سرمایہ کاری عمل میں آئی‘ یہاں تک کہ یورپی اور چینی کارپوریٹ سرمایہ کاروں کی ایک قطار نے بھی پاکستان میں پراجیکٹس لگانے میں گہری دلچسپی ظاہر کی، لیکن اس کے باوجود کچھ بھی اہم نہیں ہوا‘کووڈ-19 کے آغاز، معاشی مسائل، امن و امان کے مسائل اور اس طرح کی بہت سی دوسری چیزوں جیسے کسی کے قابو سے باہر چیزوں پر ناکامیوں کا الزام لگانا آسان، اور شاید کسی حد تک منصفانہ بھی ہو سکتا ہے تاہم حکومت جو کچھ کر سکتی ہے اسے بہتر بنانے کی کوشش ضرور کر سکتی ہے‘سب سے پہلے، یہ تجویز ہے کہ پی ایم او سے بی او آئی نکالا جائے اور اسے پی سی کے ساتھ ایک وزارت کے تحت رکھا جائے‘اس طرح ایک وزارت براؤن اور گرین فیلڈ دونوں پراجیکٹس سے نمٹتی رہے گی، جبکہ انہیں اپنے دائرے میں الگ الگ اداروں کے طور پر برقرار رکھے گی۔ دونوں اداروں کی سربراہی ایسے چیئرپرسن کے پاس ہونی چاہیے جن کا سرمایہ کاری سے متعلق کام میں پروفیشنل ٹریک ریکارڈ ثابت ہو‘ پی سی اور بی او آئی کے دونوں چیئرپرسنز کو اعلیٰ پیشہ ور افراد ہونے کی ضرورت ہے انہیں اعلیٰ کارپوریٹ سی ای اوز کی طرح ہونا چاہیے  چیئرپرسن کاروباری مواقع کی مارکیٹنگ کریں گے اور سرمایہ کاری میں سہولت فراہم کریں گے،  ایک سیاسی طور پر مضبوط وزیر دیگر متعلقہ وزارتوں سے بھی مطلوبہ تعاون حاصل کر سکتا ہے، جو پیشہ ور چیئرمینوں کے لئے شاذ و نادر ہی دستیاب ہوتا ہے،دوسرا، بڑے سرمایہ کاروں کے لئے بی او آئی کو ایک ون اسٹاپ شاپ کے طور پر تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے‘انہیں ہر چیز کی منظوری حاصل کرنے کے ہمارے پیچیدہ اور تھکا دینے والے نظام سے بچانے کی ضرورت ہے‘ تمام مطلوبہ رسمی کاروائیوں کی جلد تکمیل کو یقینی بنانے کے لئے ممکنہ سرمایہ کار کو بی او آئی کی جانب سے ایک وقف سرمایہ کاری افسر تفویض کرنا مددگار ثابت ہوگا‘اسی طرح بی او آئی کو سرمایہ کاروں کے ویزے دینے کی طاقت کے ساتھ دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے؛ سرمایہ کاروں کو فوری سہولت کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ وہ معیاری سلوک جو عام طور پر غیر ملکیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے‘تیسرا، بی او آئی ملک میں SEZs (خصوصی اقتصادی زونز)کے قیام کا ذمہ دار ہے اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت کیوں نہیں ہوئی؟ اس کی ایک دو وجوہات ہیں‘ درحقیقت تقریباً تمام ایس ای زیڈز صوبوں میں قائم کئے جانے ہیں، اس لئے ان زونز کی زمین کی دستیابی اور ترقی اور پلاٹوں کی فروخت صوبوں کو کرنا ہے جبکہ وفاقی حکومت مالی مراعات کی ذمہ دار ہے‘ ڈویلپرز اور صنعت کاروں کے ساتھ ساتھ یوٹیلیٹیز کی فراہمی؛ اس لئے ان SEZs کی ترقی کی رفتار اور ترقی کے معیار کا زیادہ تر انحصار صوبوں پر ہے‘یہ وفاقی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومت کے تعلقات پر بھی منحصر ہے‘ ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ ممکنہ صنعت کاروں کے لئے پروجیکٹ کی لاگت کو کم کرنے کے لئے ان پلاٹوں کو لیز پر دیا جائے‘چوتھا، خصوصی اقتصادی یا صنعتی زونز کی کثرت کا مسئلہ ہے، جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے اور پھر دیگر وفاقی صنعتی پارکس، ٹیکنالوجی زونز اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز ہیں جو چیز اسے اور بھی بدتر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں مختلف وزارتوں کے تحت رکھا گیا ہے، جبکہ ان سب کے مقاصد تقریباً ایک ہیں‘ مثال کے طور پر نیشنل انڈسٹریل پارکس اتھارٹی اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز اتھارٹی وزارت صنعت کے ماتحت ہیں، اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کابینہ ڈویژن کے پاس ہے، یہ تجویز ہے کہ ان تمام مختلف اتھارٹیز کوبی او آئی کے پاس رکھنے کی ضرورت ہے‘پانچویں،بین الحکومتی تجارتی لین دین ایکٹ، 2022، جس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ کون سی وزارت اس کے تحت لین دین کو نافذ کرنے کی ذمہ دار ہوگی، لیکن کوئی یہ قیاس کرسکتا ہے کہ ہر وزارت اپنے لین دین کو کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے ذریعے پراسیس کرے گی‘ یہ تجویز ہے کہ چونکہ پی پی پی اے اور انٹر گورنمنٹل کمرشل ٹرانزیکشنز ایکٹ کے تحت ہونیوالے تمام لین دین بھی سرمایہ کاری کے فروغ اور سہولت کے تحت آتے ہیں اس لئے دونوں مضامین کو بھی پی سی کیساتھ رکھنے کی ضرورت ہے‘ یہ صرف کچھ اقدامات ہیں جو ہماری لنگڑی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور سہولت فراہم کرنے والی ایجنسیوں کو ہموار اور دوبارہ متحرک کرنے میں مدد کریں گے (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر:سردار احمد نواز سکھیرا  ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)




Leave a Reply