Hmein ksi dushmn ki zurart nhi…?

ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہے….؟




سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے اُنھیں د وبارہ ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی حالانکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے قانون کے مطابق قرار دیاتھا کسی عدالتی فیصلے کی تشریح یا تبصرہ تو قانونی ماہر ین کاہی کام ہے ویسے ایک ساد ہ سا سوال ہے کہ اگر گرفتاری قانون کے مطابق تھی تو عدالت ِ عالیہ نے رجسٹرارکو ایف آئی آردرج کرانے، سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد کو توہین ِ عدالت کے نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کیوں کی؟ پراسیکیوٹر کی طرف سے یہ کہنا کہ ورانٹ پر کسی بھی جگہ عمل ممکن ہے اور مزاحمت کاخطرہ ہوتوعدالت سمیت قانون کسی بھی جگہ گرفتاری کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ بتانے سے قاصر رہے کہ کیا کسی نے ورانٹ کی تعمیل کرائی اورکیاکسی گھر یا جگہ پر گرفتاری کے وقت کھڑکیاں اور دروازے توڑنے کا عمل بھی قانونی ہے المختصر درخواست ضمانت دائر ہونے سے قبل بزور گرفتاری کی قانون میں کہیں اجازت نہیں علاوہ ازیں لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے راستے میں بڑی آسانی سے گرفتار کیاجا سکتا تھا بادی النظرمیں حکومتی خواہش تھی کہ اپوزیشن رہنماکو نشانِ عبرت بنایاجائے لیکن اِس دوران اعلیٰ عدالت میں پیش فردسے عدالتی احاطے میں ہتک آمیز سلو ک اورتوڑ پھوڑ نا قابلِ فہم ہے حارث سٹیل کیس میں سپریم کورٹ کے عدالتی احاطے سے اسی طرح ہونے والی گرفتاری پرعدالت نے گرفتارشخص کو رہا کرنے کا حکم دیا عدالتی نظیر موجود ہونے کے باوجود ایک شخص کو گرفتار کرنا، تشدد کا نشانہ بنانااور وکلا کے سر پھاڑ دینا بظاہر قانون سے تجاوز ہے۔
عمران خان ایک ایسی سحر انگیز شخصیت ہیں جن کے متعلق ہر بات کو پذیرائی ملتی ہے اُن کی گرفتاری بھی عالمی میڈیا میں شہ سرخی بن گئی جوعالمی ردِ عمل کا موجب بنی یورپی یونین نے کشیدہ وقت میں تحمل سے کام لینے کی اپیل کی زلمے خلیل زاد نے گرفتاری افسوسناک قرار دیتے ہوئے مذمت کی یواین او کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے بھی فریقین سے صبرو تحمل کی ہدایت کی امریکہ نے بھی چاہے محتاط ہی مگر ردِ عمل دیاکچھ سابق سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ جس طرح 2000 میں سعودیہ نے مشرف اور نواز بحران حل کرایا اب بھی فریقین میں تلخی دورکراسکتا ہے مگر ہمیں سوچنا ہوگاکہ بحران کے ایام میں ہماری قیادت ہربارکیوں ناکام رہتی ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ بحران حل کرنے کی صلاحیت و اہلیت سے ہی عاری ہے تو کیا کسی دشمن کا سامنا کرنے کے قابل ہے؟
حکومت کی پوری کوشش ہے پی ٹی آئی کے مدِ مقابل فوج کو لاکھڑا کیا جائے یہ سوچ یا کوشش قومی سلامتی کے مفاد میں نہیں ملک کوبدترین اندرونی وبیرونی چیلنجز درپیش ہیں جن کا سامناسیاسی عدمِ استحکام سے ممکن نہیں نازک حالات سیاسی قیادت سے ٹھہراؤ،رواداری اور برداشت کے متقاضی ہیں اگر حکومت نے طاقت کا مظاہرہ کیا ہے تو عمران خان کی گرفتاری پر بھی شدید ردِعمل آیا جس کی تائید نہیں کی جا سکتی بہترہے سیاستدان اپنی لڑائیاں پارلیمنٹ کے فلور پرلڑیں گرفتاری کے دوران رینجر اور پولیس نے طاقت کا مظاہرہ کیا تو پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اپنے قائد کی گرفتاری پر شدیدجذباتی ردِ عمل دیا جس سے لاقانونیت کاتاثربنا یہ وقت طاقت کے مظاہرے اورجذباتی ردِ عمل کا نہیں کیونکہ اِس طرح ملک کا تشخص داغدار ہوتاہے کاش سیاستدان مل بیٹھیں اور نظامِ انصاف سے بالا کارروائیوں کے تدارک کا کوئی ایسانتیجہ خیز طریقہ کار بنائیں جس سے مستقبل میں کسی کو شاہراہیں بند کرنے اور حساس تنصیبات پر چڑھائی کی جرات نہ ہو یہ سب قانون کی عملداری سے ہی ممکن ہے مگر فیصلے سے پہلے مریم اورنگزیب کی طرح گھر جلانے کی دھمکیاں دینے پر ہی توجہ مرکوز رکھنی ہے تو بہتری کی توقع پوری نہیں
ہوسکتی مریم نواز جیسی ایک سینئر سیاستدان کا چیف جسٹس سپریم کورٹ کو پی ٹی آئی میں شمولیت کا مشورہ عدالتی نظام پرکُھلا عدمِ اعتماد ہے حالانکہ اسی نظام سے نہ صرف نواز شریف کی بیرونِ ملک روانگی ممکن ہوئی بلکہ شہباز شریف،اسحاق ڈار اور شہاز شریف کے صاحبزادوں کو نیب مقدمات سے ریلیف ملا۔
شہباز شریف کے بارے عام تاثر یہ ہے کہ وہ انتقامی کارروائیوں پر یقین نہیں رکھتے بلکہ سب سے بنا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اسی خو نے اُنھیں اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کی مگر اُن کے ہمرکاب کئی ایسے چہرے ہیں جن کی اولیں کوشش عمران خان کو سیاسی میدان سے باہر کر ناہے تاکہ آمدہ انتخاب میں باآسانی کامیاب ہو سکیں رانا ثنا اللہ،راجہ ریاض،میاں جاوید لطیف اور خواجہ آصف جیسے لوگ جلتی میں تیل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ باربار پچیس مئی 2022 کے واقعات کی دھمکیاں دینے والے وزیرِ داخلہ اب فیصل آباد میں اپنے گھر کو محفوظ بنانے کا خاطر خواہ بندوبست تک نہ کر سکے لہٰذا بہتر ہے کہ سب مل بیٹھیں اورنہ صرف تشدد،حملے اور مارکٹائی جیسے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کا یقینی بندوبست کریں بلکہ آزادانہ و صاف شفاف انتخابات کا متفقہ طریقہ کاربنائیں ایسا ہونے سے نہ صرف سیاست میں مداخلت کے دروازے بند ہوجائیں گے بلکہ کسی کو عسکری قیادت پر اُنگلی اُٹھانے کا موقع بھی نہیں ملے گا اور نہ ہی کسی کو کسی اِدارے پر حملے کی جرأت ہو گی نیز الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر بھی عام آدمی کے اعتماد میں اضافہ ہوگا ظاہرہے طریقہ کار طے ہونے کے باوجود کوئی خلافِ قانون حرکت کا مرتکب ہوگا تو قانون خود راستہ بنائے گااور ذمہ دار کے خلاف تادیبی کارروائی ہو سکے گی۔
وطنِ عزیز میں رواں ہفتے جس قسم کے واقعات دیکھنے کو ملے ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ 1971 کی پاک بھارت جنگ سے قبل ہی مشرقی پاکستان میں عوامی حلقوں کی طر ف سے عسکری قیادت پر الزامات لگنے لگے تھے جو قیامِ بنگلہ دیش پر منتج ہوئے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے واقعہ سے عسکری قیادت کو نشانہ بنانے کی رفتار مزید تیز ہوئی نہ صرف عسکری املاک کو نشانہ بنایا جاتا رہا بلکہ قومی ائر لائن کے طیاروں کو اغوا کرنے اور پھر بدلے میں پی پی رہنماؤں کو رہا کرانے کی روایت پروان چڑھی بے نظیر بھٹو کی المناک موت پر سندھ میں شدید ردِ عمل آیا نہ صرف سرکاری املاک پر حملے ہوئے بلکہ لسانی تعصب کی وجہ سے کئی بے گناہ اور معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا آصف زرداری اسی جذباتی فضامیں پاکستان کھپے کا نعرہ لگا نے کے عوض اقتدار میں آئے اور صدرِ پاکستان بنے لیکن پانچ برس اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنی اہلیہ کی موت کا باعث بننے والے عوامل اور ذمہ داران کا تعین نہ کر سکے اب بھی حکومت کا اہم حصہ ہونے کے باوجود بلاول بھٹو کی والدہ کے قاتلوں کی نشاندہی کے حوالے سے بے نیازی برقرار ہے اِس میں شائبہ نہیں کہ ہمارے نظام میں خرابیاں ہیں جو انتقامی کارروائیوں کاباعث بنتی ہیں عمران خان کے خلاف جاری وارنٹ پر یکم مئی کی تاریخ درج ہے جس دن پورے ملک میں چھٹی ہوتی ہے صاف مطلب یہ ہے کاغذی کارروائی عدالتوں کو مطمئن کرنے کے لیے مکمل کی گئی ایسی حرکتیں بدگمانیاں بڑھاتی ہیں جانے حکمرانوں کب احساس کریں گے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتااسی لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنے دشمن ہم خود ہیں مزید کسی دشمن کی ہمیں ضرورت نہیں چینی وزیرِ خارجہ چن گانگ حال ہی میں مشورہ دے کرگئے ہیں کہ ترقی کرنے ہے تو سیاسی استحکام لائیں مگرایک گرفتاری سے انتشارو افراتفری میں اضافہ کردیاگیا جسے کسی طور دانشمندانہ فیصلہ نہیں کہا جا سکتا ۔
عسکری قیادت ملکی دفاع کی ضامن ہے اِس پر حملے کرنا یا الزامات لگانا دفاعی لائن کمزور کرنے کے مترادف ہے مگرگزشتہ کئی دہائیوں سے عسکری قیادت کواندرونی وبیرونی دباؤکا سامنا اورمسلسل دہشت گرد حملوں کی زد میں ہے ٹی ٹی پی اور مٹھی بھرراہ گم کردہ قوم پرستوں کابھی خاص طورپر نشانہ ہے کچھ عرصہ سے سیاسی قیادت بھی الزام تراشی میں پیش پیش ہے اینٹ سے اینٹ بجانے کا مذموم بیان آج بھی وطن پرستوں کو یادہے قومی اسمبلی میں نام لیکر فوج پر تنقید کرنا اور جلسوں میں نام لیکر مخالفانہ نعرے لگوانا بھی کسی کو نہیں بھولا 2012میں ایک صحافی نے اپنی گاڑی کے نیچے بم لگانے کا ذمہ دار تلاش کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے ایک مخصوص اِدارے کی طرف اشارہ کیابعد میں اسی صحافی پر کراچی میں حملہ ہوتا ہے تو ایک نجی چینل مسلسل اڑتالیس گھنٹے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الا سلام کی تصویر دکھا کر بدنام کرتارہاحالانکہ مضروب بے ہوش تھا جب تین چاردن بعد ہوش آیا تو پولیس آفیسران کے روبرو نشاندہی کرتے ہوئے ایف آئی آر کے اندراج کی استدعا کی نواز شریف نے بطور وزیرِ اعظم چھان بین کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی تشکیل دیا عمران خان بھی حاضر سروس ایک اعلیٰ انٹیلی جنس آفیسر کو دودفعہ قاتلانہ حملے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں نواز شریف اقتدار سے رخصتی کو عسکری وعدالتی سربراہ سے اپنی ناچاقی قرار دیتے ہیں عمران خان بھی اپنے خلاف کامیاب ہونے والی عدمِ اعتماد کا ذمہ دار اندرونی و بیرونی عوامل کوقرار دیتے ہیں قوم پرست رہنما مصائب و مشکلات کا ذمہ دار عسکری قیادت کو ٹھہراتے ہیں جس ملک میں قیادت کے منصب پر فائز شخصیات کا ایسا طرزِ عمل ہو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے مزید کسی دشمن کی ضرورت ہے….؟

Leave a Reply