Awam ko dbany nhi, smjhany ki zarurat

عوام کو دبانے نہیں،سمجھانے کی ضرورت




پاکستان کے عوام کا قصور کیا ہے؟ ان کے سیاسی اور معاشی حقوق ہمیشہ سلب کئے گئے جبکہ پاکستان اس خطے میں بہنے والے ان اکثریتی مسلمان عوام کے لئے معرض وجود میں آیا تھا جو اوپر سے تسلط کا شکار تھے اور ان کے سیاسی و معاشی حقوق سلب کر لئے گئے تھے۔مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بننے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کو ان کے سیاسی اور معاشی حقوق نہیں دیے گئے تھے۔کیا عوام کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے سر پر چھت ‘ پیٹ میں روٹی اور تن پر کپڑا اور عزت نفس کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ وہ آزاد شہری کی طرح سر اٹھا کر جی سکیں‘ ان کا اور ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو اور ان کو اپنے نمائندوں کو آزاد اور شفاف انتخابات کے ذریعے چن کر اسمبلیوں میں بھیجنے کا حق ہو۔اظہار رائے کی آزادی ہو‘ ان کی شخصی آزادیوں کو حکمران طبقات کی خواہشات کے مطابق سلب نہ کیا جائے۔ پاکستان کے 1973ء کے آئین کی پہلی شق خود مختار ریاست پاکستان اور اس کے علاقوں کے بارے میں ہے‘ دوسری شق ریاست کا دین اسلام اور قرار داد مقاصد کے بارے میں ہے اور اس کے بعد تیسری شق کا عنوان ہے استحصال کا خاتمہ ’’ریاست ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور بتدریج اس بنیادی اصول کو اپنائے گی جس کے مطابق ” From each According to his ability to each according to Work”کارل مارکس نے 1857ء میں سوشلسٹ نظام معیشت کا یہ اصول ریاست کی ذمہ داری کے طور پر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا۔” From each According to his ability to each according to need” یعنی صلاحیت کے مطابق کام اور ضرورت کے مطابق اجر۔ہم نے یہ شق بہت مشکل سے آئین کے مسودے میں داخل کروائی تھی مگر اس وقت تک جاگیردار اشرافیہ نے بھٹو صاحب کے گرد گھیرا ڈال لیا تھا جس کے نتیجے میں صلاحیت کے مطابق کام اور ضرورت کے مطابق اجر کو ایک غیر مبہم فقرے سے تبدیل کیا گیا جس کا مطلب ہے۔صلاحیت کے مطابق کام اور کام کے مطابق کام۔ مگر اس سے پہلے کا فقرہ کہ ریاست ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کو یقینی بنائے گی اور اس کا عنوان استحصال کا خاتمہ اسی طرح موجود ہے استحصال کے خاتمے کی اہم شق پر نہ کبھی کسی سیاست دان نے توجہ دی اور نہ ہی کسی نے بحث کا حصہ بنایا۔جب کہ تمام ممبران اسمبلی سے لے کر حکمران اداروں کے سربراہ اس آئین کا حلف اٹھاتے آئے ہیں۔چونکہ ان کا تعلق استحصال کرنیوالے طبقات سے رہا ہے اور استحصال کو جاری رکھنے کیلئے وہ اقتدار میں آتے ہیں چنانچہ وہ شق جو ان کے مفادات کے خلاف ہے اس کو کبھی اجاگر نہیں کیا گیا ۔ عوام تحریک پاکستان پھر 1968-69ء کی سیاسی و معاشی آزادی کی تحریک کے بعد ایک بار پھر اپنے استحصال کے خاتمے اور چوروں ‘ ڈاکوئوں‘ لٹیروں کی حکمرانی کے خلاف سڑکوں پر ہیں‘ ایک عرصے کے قومی جمود نے ٹوٹ کر عوامی سیلاب کی شکل اختیار کی ہے اس سے پہلے کہ سیلاب کا یہ پانی بکھر کر ضائع ہو جائے اور اپنی توانائی کھو بیٹھے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو بند کیا جائے اور ایک ایسی قوت میں تبدیل کیا جائے جس کے ذریعے آئین کی تیسری اور بنیادی شق کے مطابق ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشرے کی تعمیر کی جا سکے۔ اس کے دو راستے ہیں۔ایک انتخاب کا راستہ اور دوسرا انقلاب کا راستہ۔عوام انتخابات چاہتے ہیں ان کو انتخاب کا راستہ دینے میں ہی دانش مندی ہے۔دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ جہاں کہیں بھی انتخاب کا راستہ بند کیا گیا۔ وہاں پر عوام نے انقلاب کا راستہ اپنایا۔بعض اوقات مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے والوں کو بالآخر انتخابات کا راستہ اپنانا پڑا۔آج پاکستان کے عوام شعوری طور پر اس مقام پر نظر آتے ہیں جہاں پر وہ انتخابات کے ذریعے ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ چاہتے ہیں جس کے لئے آئین کی شق نمبر تین موجود ہے۔انہیں اس بات کی بھی تمیز ہے کہ سیاسیات اور معاشیات کی بین الاقوامی حد بندی میں وہ کون ہیں جو عالمی سامراجی استحصالی نظام کے ساتھ کھڑے ہیں اور کون ہیں جو خلق خدا کے مفادات اور آزاد پاکستان کی سربلندی کے لئے عوام اور پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔میرے خیال میں یہی وہ بنیادی فرق ہے جو پاکستان کے مستقبل کی سیاست و معیشت کا تعین کرے گا۔عوام اور پاکستان کے مفادات کے خلاف حکمران اشرافیہ کی ’’آسانی کی شادی‘‘ کچھ وقت کے لئے تو شاید چل سکتی ہے مگر ہمیشہ کے لئے کامیاب نہیں ہو سکتی۔عالمی سامراج اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے پاس عوام اور پاکستان کے مسائل کا اول تو کوئی حل ہے نہیں اور اگر ہے تو محض ایک سراب ہے آج کے عوام بالخصوص نوجوان نظر آتا ہے کہ وہ تہیہ کر چکے ہیں کہ وہ اس سراب سے دھوکا نہیں کھائیں گے۔انہیں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ جو عوام کی طرف نہیں ہوتا وہ استحصالی طبقات اور سامراج کی طرف ہوتا ہے چنانچہ عوام کو دبانے کی نہیں‘ انہیں سمجھنے‘ان کو منانے اور ان کے مطالبہ انتخابات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔اس میں جتنی دیر ہوتی گئی اتنا ہی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا اور عوام کو منانا بھی آسان نہیں ہوتا۔حکمران طبقات جو اس طرح کی جمہوریت اور انتخابات چاہتے ہیں جس میں وہ کسی نہ کسی طرح مثبت نتائج حاصل کر کے اقتدار کے ایوانوں میں ہمیشہ کی طرح موجود رہیں۔محنت کش عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کی کھلی چھٹی اور پاکستان امریکہ کی فرنٹ لائن ریاست بنی رہے۔اب اتنا آسان نہیں۔اب کی بار اگر آزاد اور شفاف انتخابات ہوئے اور جب بھی ہوئے۔عوا کے ووٹ کی پرچی انہیں اقتدار میں نہیں رہنے دے گی۔عوام کو محض ووٹ دینے کی آزادی نہیں چاہیے بلکہ استحصالی نظام‘ چور‘ ڈاکو اور لٹیرے حکمرانوں سے نجات بھی چاہیے۔وہ ووٹ کی پرچی کا حق استعمال کر کے ایک ایسا معاشی نظام چاہتے ہیں جو بھوکے کا پیٹ بھر سکے۔بے روزگاروں کو روزگار مہیا کر سکے۔ننگے کا تن ڈھانپ سکے اور جس میں غریب کی عزت محفوظ ہو۔پاکستان میں اٹھانوے فیصد عوام کی منتخب حکومت ہو جن میں انہیں سیاسی اقتدار بھی نصیب ہو اور اقتصادی سربراہی بھی کارل مارکس کے مطابق حکمران طبقات آسانی کے ساتھ شکست کو تسلیم نہیں کرتے اور آخری وقت تک اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں جس میں وہ سرکاری مشینری کا استعمال بھی کرتے ہیں۔حکمران طبقات عوام کے سیلاب کے سامنے بند باندھنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں عوام اور سیاسی کارکنوں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ تشدد اور توڑ پھوڑ کا عمل قابل مذمت ہے اور کسی بھی سیاسی اور پرامن عوامی تحریک کو جو کہ انتخابات کے حصول کے لئے کی جا رہی ہو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے بعض اوقات انتشار پسند یہ کام کر رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات حکمران طبقات خود یہ کام اس لئے کروا رہے ہوتے ہیں کہ تحریک کو ’’آہنی ہاتھوں‘‘ کے ساتھ دبایا جا سکے یا اس سیاسی پارٹی پر پابندی لگوائی جا سکے۔1968-69ء کی عوامی تحریک کے دوران قرآن پاک جلانے کا واقعہ اس لئے کروایا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور بائیں بازوں کے کارکنوں کا قتل عام کروایا جا سکے اور اس بنیاد پر پیپلز پارٹی پر پابندی لگائی جا سکے۔آزاد اور شفاف انتخابات عوام کا حق ہے جو آہنی ہاتھوں سے دبائے بغیر یا کسی پارٹی کو انتخابات سے باہر رکھے بغیر انہیں ملنا چاہیے۔

Leave a Reply