Pishawar ki purani yadein

 پشاور کی پرانی یا دیں




حلقہ ارباب ذوق پشاور کی کتاب کہا نی تازہ ترین مجلس ہے اس مجلس میں نئے اورپرانے احباب کو دیکھ کر بر سوں پرانی ایسی نشستیں یا د آجا تی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے دل کو تھامنا پڑ تا ہے یا دوں کی شمعیں جلا نی پڑ تی ہیں اور یا دوں کے دریچوں سے کچھ نہ کچھ لا نا پڑ تا ہے، اگست 1975ء میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو نا صر علی سید کی جوانی کا جوبن اور شرر نعمانی کی بزر گی کا بڑا پن تھا، شب مہتاب کے عنوان سے راتوں کی نشستیں سجتی تھیں شمیم بھیر وی، طہٰ خان اور خا طر غزنوی کا دور تھا۔ عزیز اعجاز، نذیر تبسم اور حسام حر نو جوانوں میں ہر اول دستے کا کام کر رہے تھے وہ جو مرزا غا لب نے کہا ”یا د تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں“ ہمارا حال بھی ایسا ہی ہے فرق یہ ہے کہ نقش و نگا ر طاق نسیاں نہیں ہوئیں یہ ستمبر کی ایک معتدل سہ پہر کا ذکر ہے‘سوئیکار نو چوک میں واقع اُس وقت کے مر کزی ار دو بورڈ کی لا ئبریری میں مجلس جم گئی پروفیسر شرر نعمانی نے اُس زما نے کے حساب
 سے خیبر پختونخوا میں اردو ادب پر اپنا تحقیقی مقا لہ پڑ ھا۔پرو فیسر اشرف بخا ری نے مقا لہ نگارکو آڑے ہا تھوں لیا۔ محسن احسان اور خا طر غزنوی نے مقا لہ نگار کی محنت کو داد دینے میں فیاضی کا مظاہر ہ کیا‘ اب میرے سامنے اسی مو ضوع پر ہمارے دوست پرو فیسر کی تحقیقی کتاب رکھی ہے میں سوچتا ہوں آج اشرف بخا ری حیات ہو تے تو نئی کتاب کے مصنف کو کس اسلوب میں داد دیتے‘ مجھے رہ رہ کے پشاور کے نو جواں لکھاریوں کی تنظیم ینگ تھنکر ز فورم کی سر گرمیاں یا د آتی ہیں‘ نا صر علی سید اور عزیز اعجاز اس تنظیم کے ذریعے احباب کو جمع کر تے تھے۔کبھی پیراڈائز ہو ٹل میں اور کبھی پشاور کلب میں اس کی نشستوں کا اہتما م ہو تا تھا۔ مجھے ایک تنقیدی نشست میں شر کت آج بھی یا د ہے۔ نا صر علی سید نے اپنا افسانہ ”آئس پیس“ تنقید کے لئے پیش کیا تھا۔اظہار خیال کرنے والوں میں توانا آواز مشتاق شباب کی تھی جن کی کتاب ”میں، ترقی اور احباب“ ان دنوں شائع ہو ئی تھی۔ پشاور کے ایک پلا زے میں روز نامہ ڈان کے بیورو آفس کے قریب دفتر ہوا کر تا تھا‘پرو فیسر شوکت واسطی  اس کے سربراہ تھے، کرنل عنا یت اللہ خان،میجر یو سف رجا چشتی اور قدسیہ قدسی اس ادبی تنظیم میں شوکت واسطی کے معا ونین تھے۔ ادبی پرو گرام پرل کا نٹی نینٹل میں ہوا کر تے تھے۔تنظیم کا دائرہ کوہاٹ، ایبٹ آباد اور اسلا م اباد تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب شوکت واسطی نے بزم علم و فن کے
 ملٹن کی پیر ا ڈائز لاسٹ کا اردو تر جمہ شائع کیا احباب نے ان کے فارسی، عربی اور ہندی آمیز اردو تر جمے کو انگریزی سے بھی مشکل قرار دیا۔ سچ پو چھئے  تو شوکت واسطی نے بڑا کا م کیا تھا اور ہر بڑا کا م ایسا ہی ہو تا ہے۔ مجھے پشاور کلب میں میجر یو سف رجا چشتی کے گھر پر بھی ایک اچھی نشست رہ رہ کے یا د آتی ہے، یہ سر دیوں کے دن تھے احباب نے سہ پہر کو گھر کے لا ن میں مجلس جمائی۔ اس مجلس میں نذیر تبسم نے جو غزل سنا ئی اس کا مطلع ابھی تک مجھے نہیں بھولا ”لہو کا زہر بھی جس کی نگاہ بد میں ہے، وہ شخص مجھ سے بڑا صرف اپنے قدمیں ہے“پھر یہ سلسلہ آگے بڑھاگند ھا را ہند کو بورڈ کی سر گرمیاں شروع ہوئیں۔ڈاکٹر ظہور احمد اعوان، ڈاکٹر الٰہی بخش اختر اعوان، صابر حسین امداد ڈاکٹر صلا ح الدین اور ڈاکٹر سید امجد حسین کو سننے کے مواقع ملے،پشاور کی پرانی یادیں ایسی بے شمار سرگرمیوں سے عبارت ہیں۔  

Leave a Reply