Choty bary ka farq samjhna

چھوٹے بڑے کا فرق سمجھنا




یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ اللہ نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں ۔ اس رنگ برنگی کائنا ت میں اللہ نے انگنت متفرق مخلوقات ، انگنت شکلوں، جسموں اور طور طریقوں کے ساتھ پیدا کی ہیں۔ انسان واحد مخلوق ہے جسے اُس نے عقل وشعور سے نوازا ہے اور اس سے بار بار تقاضہ کرتاہے کہ وہ غور وتدبرکرے، سوچ اور سمجھ کر چیزوںکوپرکھے ، انہی لاتعداد تفریقات میںاللہ نے بڑے چھوٹے کا فرق بھی قائم کررکھاہے ، جوحلال وحرام ، گناہ ثواب، صحیح اور غلط ، سیدھے اور ٹیڑھے اورحق وباطل غرضکہ زندگی کے ہر پہلوکو گھیرے ہوئے ہیں۔ اس فرق کو وہی سمجھ سکتاہے جو حضرت علیؓ کے قول کے مطابق ’’حلال میںحساب اور حرام میںعذاب ‘‘ کے درمیان باریک فرق کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بڑاکون ہوتا ہے اور چھوٹا کون ہوتاہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک مغل بادشاہ اور ایک پہروپئے کا واقعہ مددگار ثابت ہوسکتاہے کہ ایک پہروپئے نے کئی بار بادشاہ کو مختلف بہروپ دھار کر دھوکہ دینے کی کوشش کی لیکن ہر بار پکڑا گیا ۔آخری بار پکڑے جانے پر اس نے بادشاہ سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ ایسا روپ دھارے گاکہ اسے وہ بھی نہیںپکڑا سکے گا۔ اس کے بعد بہروپیا منظر سے غائب ہوگیا ۔کئی سال گذرگئے اور لوگ بہروپیئے کو بھو ل بھا ل گئے ۔ اچانک مملکت میں ایک ایسی بزرگ اورپہنچی ہوئی ہستی کا چرچا ہونے لگا جو دور دراز جنگل میںبرسوں سے عبادت الہیٰ میں مصروف ہے اور کسی سے نہیں ملتی۔ لوگوں نے ملنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ بزرگ کسی سے نہیںملا ۔ بادشا ہ سلامت چونکہ پیروں فقیروں کے دلدادہ تھے اس لئے چاہا کہ ملاقات کی جائے ۔ بہت سارے تحفے تحائف بھیجے اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔ برزگ نے زروجواہرات سے بھری طشتریوںکو بار بار لوٹا دیاکہ اُسے ان دنیاوی لوازمات کی ضرورت نہیںتھی۔ آخر کار تھک ہار کر بادشاہ نے اپنے ایک خاص وزیر کواس درخواست کے ساتھ بزرگ کی جھونپڑی پر بھیجا کہ بادشاہ سلامت کوصرف قدم بوسی کی اجازت دی جائے۔ اس عاجزانہ پرفقیر نے اس شرط پراجازت دیدی کہ بادشاہ تن تنہا ننگے پائو ںاُس کی چوکھٹ پرآئے گا۔ اجازت ملنے کے بعد ظل الہی اپنے لائو لشکر کے ساتھ دور دراز کے جنگل کی طرف روانہ ہوا تاکہ فقیر کے دراقدس پر حاضری دے سکے ۔ حسب تاکید اجازت ملنے پر بادشا ہ سلامت ننگے پائوں تن تنہاںفقیر کی جھونپڑی میںہاتھ جوڑ کر داخل ہوا اوراس عنایت پر بزرگ کاشکریہ ادا کیا فقیر موصوف نے بادشا کو دیکھتے ہی نعرہ لگایا کہ ’’میں نے کہا نہیں تھا کہ اب کے میں ایسا رُوپ دھاروںگا کہ تو بھی مجھے نہیں پکڑ سکے گا تو میں نے اپنی بات کو سچا کردکھایا ‘‘ بادشاہ نے حیران اورپریشان ہوکر پوچھا ’’یہ سب کچھ تو نے مجھ سے انعام واکرام پانے کے لئے کیا تھا توپھر زروجواہر اور سونے کے زیوارت اور ہیروںسے بھری تھیلیاں کیوں واپس کیں؟‘‘ فقیر نے جواب دیا ’’اے بادشاہ جب مجھ پر یہ بات عیاںہوئی کہ جس اعلی مرتبے کا محض روپ دھارنے سے بادشاہ منتوں اور سماجتوںپر اترآئے اور ننگے پائوں میرے در پر آجاتاہے، اگر میں حقیقت میںاس مقام کو حاصل کر لوں تو کیا چیز ہوگی جو میرے قدموں پر نچھاور نہ ہوگی؟‘‘ اسلئے میں نے وہ سارے زروجواہر واپس کردئیے کیونکہ اب مجھے ان کی ضرورت نہیںرہی‘‘ اس واقعے سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ بادشاہ اور پہروپیئے میںسے بڑا کون تھا؟ آج سے کافی عرصہ پہلے میرے دوست خالد عباس ڈار نے بتایا تھا کہ ایک ثقافتی ادارے نے اس کے تقریبا ً بیس لاکھ روپے کافی عرصہ سے روک رکھے تھے جبکہ اُسے پیسوں کی اشد ضرورت تھی اُس نے جگہ جگہ ٹھوکریں کھائیں ، منتیں سماجتیں کیں اور سفارشیں کرائیں لیکن کہیں بھی شنوائی نہ ہوئی۔ اسی مایوسی کے عالم میںوہ ایک دن پریشان بیٹھا تھا کہ اُس کی ایک خاتون آرٹسٹ نے اس سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو خالد عباس ڈار نے اپنی پھنسی ہوئی رقم کے بارے میںاُسے بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اس سلسلے میں اس نے اسلام آباد جاکر ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار سے ملنے کی بھی بہت کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔ خاتون آرٹسٹ نے فوراً اپنے موبائیل سے کوئی نمبر ملایا اور کال سننے والے کو بتایا کہ خالد عباس ڈار کے پیسے فوراً دلوادیں ۔ یہ کہتے کہتے محترمہ نے خالد عباس ڈار کو اپنا موبائل پکڑاتے ہوئے کہا اس اعلی عہدیدار کو اپنے پھنسے ہوئے پیسوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کریں۔ اس کے تین دن کے بعد خالد عباس ڈار کو پوری رقم مل چکی تھی۔ اب اللہ سے دعا کرکے ہی سمجھا جاسکتاہے کہ ان تین کرداروں میں کون کس سے بڑ ا او رکس سے چھوٹا تھا؟ ہم زندگی بھر اپنے اردگرد ایسے ہی بڑے چھوٹے لوگوں کے ہجوم میںگھرے رہتے ہیں۔ کسی کی برتری سمجھ میںآتی ہے اور نہ اپنی کمتری۔ عالمی تعلقات میںیہ بات مشہورہے ’’کوئی سفارتکار بھی اپنے ملک سے بڑانہیںہوتا‘‘ سفارتکاری کی حد تک تو یہ بات درست ہے لیکن اس سے آگے ہر گز نہیں۔ قائداعظم پاکستان سے بہت بڑے تھے کیونکہ پاکستان انھوں نے بنایا تھا۔سروجنی نائیڈ ونے کہا تھا اگر سو گاندھی مسلم لیگ میںہوتے اور ایک جناح کانگریس میںہوتا تو پاکستان کبھی نا بنتا ۔ جو لوگ عہدے منصب اور کرسی کو مضبوط سمجھتے ہیں وہ کرسی سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی کرسیوں پرجب چھوٹے چھوٹے لوگ بیٹھ جائیں تو بڑی کرسیاں بھی بے توقیر اور بے وقعت ہوجاتی ہیں اور اگر لالو کھیت جتنے چھوٹے ملک سنگاپور پر اگر لی کوان یو کی طرح کا بڑ ا عظیم مدبر ،قائد اور رہنما بیٹھ جائے تو ملک بڑا ہوجاتاہے۔ اندرا گاندھی کو مارنے والا اُس کا اپنا سکھ محافظ تھا۔ یہاں پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ محافظ بڑا تھا یا مقتولہ وزیراعظم ؟ تبھی تو حضرت علیؓ فرماتے ہیں ’’ اگر یہ کرسی مضبوط ہوتی تو آج تجھ تک کیسے پہنچتی؟ پھر بڑائی کیا ہے ؟ مسلمان دن میں پانچ مرتبہ نمازیوں کو اکٹھا کرنے کے لئے اعلان کرتاہے ’’ اللہ سب سے بڑا ہے‘‘ ظاہر ہے اللہ کو بڑا ماننے کے بعد وہی بڑا ہوگا جسے اللہ بڑا بنائے ۔ نماز کے لئے ہی بلاتے وقت مسلمان دوگواہیوں کا اعلان بھی کرتا ہے پہلی یہ کہ’’ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے‘‘ اور ’’دوسری یہ کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں‘‘۔ ایک گواہی غائب اللہ کی اور دوسری بعثت سے پہلے اوربعثت کے بعد کل تریسٹھ برس تک لوگوں کے درمیان اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے ، کھانے پینے امن اور جنگ میںمعاملات طے کرنے والے اور احکام الہٰی کو نافذ کرنے والے رسولؐ کی گواہی ہے ، جس کے ذریعے اللہ نے انسانیت کو اپنی شناخت کرائی ، جس کے ذریعے نازل ہونے والی کتابوں میں آخری اور سب سے بڑی ایسی کھلی کتاب متعارف کرائی جس میں کوئی شک نہیں۔ یعنی اللہ کے بعد رسول ؐ بڑا ہے، اس کے بعد وہ بڑے ہیں جن پر مسلمان اپنی ہر نماز میںدرود بھیجتے ہیں۔ کیوں؟ کہ اللہ نے بڑائی کی کسوٹی تقویٰ کو رکھا ہے۔یہ کسوٹی اگر سمجھ میں آگئی تو ہر بڑے چھوٹے کا فرق صحیح صحیح سمجھ میںآجائے گا۔ اس کسوٹی کو اقبال عشق کہتے ہیں ۔ تبھی ملت اسلامیہ پر واضح کردیتے ہیں قُو ت عشق سے ہر پست کو بالا کردے دہر میں اسم محمدؐ سے اُجالا کردے

Leave a Reply