In ankhon ny kia kia dekha

ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا

کچھ فلمیں چند ماہ میں بنا لی جاتی ہیں اور ہٹ ہو جاتی ہیں۔ کچھ فلمیں برسوں کی مدت میں مکمل ہوتی ہیں، ان پر بے پناہ سرمایہ لگتا ہے لیکن ریلیز ہوتے ہی فلاپ بلکہ سُپرفلاپ ہو جاتی ہیں۔ ستم ظریفی ہے۔ دو تین دن پہلے شہر کے سب سے بڑے سنیما ہال خان المینی تھیٹر میں میگا بلکہ سُپر میگا بجٹ کی فلم عشروں کی محنت اور انتظار کے بعد ریلیز ہوئی تو توقع تھی کہ کامیابی کا نیا عالمی ریکارڈ بنائے گی لیکن نیازی پروڈکشنز کے بہت بڑے بینر تلے جاری ہونے والی یہ فلم جس کا نام ’’میوٹنی آن دی بائونٹی‘‘ رکھا گیا، پیش ہوتے ہی ایسی فلاپ ہوئی کہ فلاپ ہونے کے ریکارڈ قائم کر دئیے۔ حالانکہ میڈیا تو یہ بتا رہا تھا کہ آئی کے کے نام کے ڈائریکٹر نے ہدایت کاری کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ ہالی سے بالی وڈ تک کے سارے بڑے نام والے ڈائریکٹر رشک و حسد سے بھن جائیں گے۔ اس میں مار دھاڑ اور جلائو گھیرائو کے ایسے مناظر ہیں کہ لوگ ’’لڈی تھیٹر‘‘ کو بھول جائیں گے۔ ایڈونچر ایسا اس فلم میں ہے کہ لغت میں اس کے معنے ہی بدل جائیں گے۔ اس کے باوجود فلم اس برس بُری طرح ناکام ہوئی کہ نیازی پروڈکشنز انٹرنیشنل ان لمیٹڈ نامی ادارے کا دیوالیہ نکل گیا۔ 




اخبار کے نامہ نگار کو اس وقت انتہائے حیرت نے آن لیا جب اس نے اس فلم کی بے پناہ ناکامی کی وجہ جاننے کے لیے نیازی پروڈکشنز انٹرنیشنل ان لمیٹڈ کے ترجمان سے رابطہ کیا تو اس نے ایسی کسی فلم کے بنائے جانے سے ہی لاتعلق ظاہر کر دی اور کہا کہ ہم نے میوٹنی آن دی باونٹی کے نام سے کوئی فلم بنائی ہی نہیں، بلکہ ہم نے آج تک کوئی فلم سرے سے بنائی ہی نہیں۔ بلکہ ہم نے تو یہ نام بھی پہلی بار سنا ہے، ہمیں نہیں پتہ کہ میوٹنی کہتے کسے ہیں۔ نامہ نگار نے پوچھا کہ آپ کی کمپنی کا نام نیازی پروڈکشنز ہے، کس چیز کی پروڈکشن آپ کرتے ہیں تو ترجمان نے کہا، نیاز کی دیگیں تیار کرتے ہیں، نیز تسبیح ، جائے نمازیں بناتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے ہاں ہر قسم کی پڑھائی کی ہوئی طلسمی انگوٹھیاں، ہمزاد والی لوح اور تسخیر والے نقش بھی رعایتی نرخ پر دستیاب ہیں۔ 

_______

مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں ایک دن کا دھرنا دیا، بہت بڑا، بہت ہی بڑا مجمع دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ ٹھیک معنوں میں اسے لاکھوں کا جلسہ کہا جا سکتا ہے۔ 

اتنا بڑا ہجوم رہا بخیر گذشت

دو تین روز سے سوشل میڈیا پر غلغلہ برپا تھا کہ 

مولانا آ رہا ہے 

ڈنڈا بھی لا رہا ہے 

ڈنڈا نہیں، ڈنڈے لیکن یہ ’’فرینڈلی‘‘ ڈنڈے تھے اس لئے کسی کو اندیشہ نہیں تھا۔ زیادہ تر ڈنڈے جھنڈوں کے اندر تھے، باقی نمائشی تھے۔ ایسا ڈنڈا تو تھا ہی نہیں جس سے کسی ایس پی عصمت اللہ جونیجو کا سر پھاڑا جا سکے یا ہائیکورٹ کی عمارت میں گھس کر جن سے کیمرے، دروازے، کھڑکیاں اور دیواریں توڑی جا سکیں شرکا کے پاس ایک ایک شلوار تھی جو انہوں نے پہنی ہوئی تھی۔ فالتو شلوار کوئی لایا ہی نہیں تھا کہ پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ یا کسی اور عمارت کی دیوار پر سکھانے کیلئے ٹانگی جا سکے چنانچہ ’’شلوار بر دیوار‘‘ کا منظر بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ 

جلسے میں پی ڈی ایم کے لیڈروںکی ’’طوفانی ‘‘ تقریریں ہوئیں۔ ہر تقریر کا رخ چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف تھا۔ عقیدت کے ایسے ایسے پھول منہ سے جھڑے کہ افق تاافق گل و گلزار ہو گیا۔ سامعین تقریریں سنتے تھے اور فرینڈلی ڈنڈے لہراتے تھے۔ 

اس سے پہلے کبھی، کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی جلسہ، وہ بھی اتنا بڑا چیف جسٹس کے حوالے سے ہوا ہو۔ مظاہرین کا دل چیف کے لئے جذبات سے بھرا ہوا تھا، وہ فرط عقیدت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ چیف صاحب، آپ نے بہت خدمت کر لی، اب گھر جا کر آرام کریں۔ 

بعدازاں پھر سے آنے کی سنائونی سنا کر یہ دھرنا تھا جلسہ بخیروعافیت اختتام پذیر ہوا۔ 

_______

ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا۔ 

ایک دن آتش بجا انقلاب کو دیکھا کہ ہر سو آگ لگا رہا تھا، رقص کناں تھا، دھاڑ رہا تھا، ان کا میدان تھا کہ تھرا رہا تھا۔ 

دو ہی روز بعد اس انقلاب کو روتے دیکھا، گڑگڑاتے دیکھا، تحریری معافی نامے لکھتے دیکھا، ضمانت کے مچلکے بھرتے دیکھا، اپنے ہی کئے کرائے سے لاتعلق کا بیان حلفی دیتے دیکھا۔ ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا۔ 

_______

9 مئی کے واقعات پر فوج نے سخت ردّعمل دیا اور اس دن کو یوم سیاہ قرار دیا۔ خان صاحب نے نو مئی کے چھٹے روز بیان دیا کہ ان واقعات میں ہم لوگ ملوث نہیں تھے۔ یہ سب ایجنسیوں نے کیا اور ہمارے سر مڑھ دیا۔ 

ایسا ہے خان صاحب تو پھر آپ کو ان واقعات کی مذمت کر دینی چاہیے جو آپ نے ابھی تک نہیں کی۔ حالانکہ دو بڑی عدالتوں کے دو جج صاحبان نے آپ س ے مودبانہ درخواست بھی کی تھی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور اس کے بجائے یہ کہا کہ مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیاتو پھر یہی کچھ ہو گا۔ کیا مطلب، یعنی ایجنسیاں یہ سب کچھ پھر سے کریں گی اور الزام آپ پر مڑھ دیں گی؟

پی ٹی آئی کے ایک سہولت کار سے پوچھا کہ اگر یہ سب کچھ ایجنسیوں نے کیا ہے تو خان صاحب اس کی مذمت نہیں کر دیتے۔ جواب میں فرمایا کہ خان صاحب اداروں اور ایجنسیوں کا بہت احترام کرتے ہیں اور اسی احترام کی وجہ سے وہ یہ احتیاط برت رہے ہیں۔ منہ سے سبحان اللہ نکلا کہ واللہ، احترام ہو تو ایسا۔ 

_______

انقلاب کے دوران بہت سے ایسے لوگ گرفتار ہوئے جو سرحد پار افغانستان سے آئے تھے یعنی افغانی تھے۔ اسے انقلاب کی کشش کہا جا سکتا ہے، یعنی انقلاب کا نعرہ اتنا کشش انگیز تھا کہ اس نے دور دور تک اثر کیا۔ اس سے بڑھ کر انقلاب کی کامیابی اور کیا ہو گی۔ صدا میری بارڈر کے پار جا پہنچی__

Leave a Reply