Meharban saiban bla aakhir rukhsat huwa

مہربان سائبان بالآخر رخصت ہوا

میں نے تقریر جھاڑلی تو پنجابی میں صرف اتنا سمجھایا کہ ٹی وی کے لئے جو کیمرے ان دنوں استعمال ہوتے تھے وہ نیلے رنگ کو زیادہ جاذب نظر بناتے ہیں۔ ان سے ملنے ’’سٹار‘‘ ٹائپ کئی افراد بھی ہماری گفتگو کے دوران ان کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ ان سب سے انہوں نے بہت شفقت سے مجھے متعارف کروایا۔ساتھ ہی یہ فقرہ بھی کس دیا کہ مجھ سے مل کر انہیں اطمینان ہوا ہے کہ رنگ محل کا مشن ہائی سکول ’’اب بھی‘‘ چند ’’پڑھاکو‘‘ طلبا پیدا کررہا ہے۔ شعیب صاحب کی بے اعتنائی دِکھتی شفقت کی بدولت ہی بالآخر آغا ناصر جیسے غیر معمولی ذہانت کے حامل ٹی وی پروڈیوسر سے قربت نصیب ہوئی۔ منّو بھائی کے چہیتے چمچوں میں بھی شامل ہوگیا۔




بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ میٹرک کا امتحان قابل رشک نمبروں کے ساتھ پاس کرنے کے بعد 1971میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔ میں وہاں داخل ہونے سے قبل ہی ’’انقلابی‘‘ ہوچکا تھا۔مجھے گماں تھا کہ نصاب کے لئے جوکتابیں تیار کی جاتی ہیں وہ آپ کے ذہن میں ابلتے سوالات کے تشفی بخش جواب فراہم نہیں کرتیں۔ مجھے کلاس اٹینڈ کرنے کی ضرورت نہیں۔امتحان قریب آئے تو نصابی کتابوں پر دو تین ماہ کی توجہ کی بدولت ڈگری کے حصول کی طرف بڑھ جائوں گا۔ فلسفہ اور انگریزی ادب میری ترجیح تھے۔ انٹرمیڈیٹ کے لئے مگر ایک اور مضمون بھی اختیار کرنا لازمی تھا۔ میں نے بے دلی میں اکنامکس کو چن لیا۔ اسے چن لیا تو چند دنوں بعد دریافت ہوا کہ اس مضمون کی ہفتے میں ایک بار کلاس شعیب صاحب بھی لیتے ہیں۔ ان کی کلاس سے غائب ہونے کی جرأت کوئی طالب علم دکھا ہی نہیں سکتا تھا۔میں البتہ ’’انقلابی‘‘ ہوچکا تھا۔جرأت دکھادی۔اس کے نتیجے میں جو بھگتا اس کا ذکر کرنے کی ہمت نہیں۔سرجھکائے اس کے بعد ان کی کلاس ہر صورت اٹینڈ کرتا رہا۔ اس کے باوجود آخری ملاقات تک مجھے ’’بدداپتر بھگوڑا‘‘کہہ کربلاتے رہے۔

شعیب صاحب گورنمنٹ کالج کی ڈرامیٹک کلب کے سرپرست بھی تھے۔ ان کی بہت خواہش تھی کہ میں اس کلب کا متحرک رکن بنوں۔ وہ مصر تھے کہ میرا مشاہدہ اور یادداشت تھیڑ کے ہنر کے لئے بہت کارآمد ہے۔میں لیکن ’’انقلاب‘‘ لانا چاہ رہا تھا۔ شعیب صاحب اس کے بے چینی سے منتظر نہیں تھے ۔بہت خلوص سے یہ سوچتے کہ معاشرے یکدم تبدیل نہیں ہوتے۔ کئی نسلوں کو ابلاغ کے تمام تر ذرائع تخلیقی انداز میں استعمال کرتے ہوئے معاشروں کو بدلنا پڑتا ہے۔ مزاح کی صنف کو وہ اس تناظر میں اہم ترین گردانتے تھے۔ ہمارے ہاں بھانڈوں کی قائم کردہ روایت کو عقیدت سے سراہتے۔ مجھ سے گلہ ان کا یہ بھی رہا کہ میں ’’انہماک‘‘ کی نعمت سے قطعاََ محروم ہوں۔انہماک سے محروم ذہانت ان کی دانست میں بالآخر بانجھ ثابت ہوتی ہے۔

انہماک کی عادت پختہ کرنے کے لئے وہ ’’ترکھانوں‘‘ کی طرح لکڑی سے کوئی شے تیار کرنے میں کافی وقت صرف کرتے۔ جسمانی مشقت ان کے لئے ایک نوعیت کا ’’ریاض‘‘ تھا جو کامیاب ترین گلوکاربھی ہر صبح اپنے لئے لازمی محسوس کرتا۔صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت کو مسلسل ’’ریاض‘‘ سے صیقل کرنے کے باوجود شعیب صاحب عاجزی اور انکساری کی حتمی علامت ہی رہے۔خود کو ’’سیلیبرٹی‘‘ شمارہی کبھی نہیں کیا۔ اپنے ہم عصروں سے گپ شپ میں وقت گزارنے کے بجائے وہ ان نوجوان فنکاروں کی تلاش میں رہتے جو تخلیقی امکانات سے مالا مال تھے۔شعیب صاحب حیران کن سادگی اور پرکاری سے ایسے باصلاحیت نوجوانوں کو ’’مزید‘‘ کے لئے اُکسانے میں کامیاب ہوجاتے۔ان میں سے چند ایک نے نام کمالینے کے بعد شعیب صاحب سے بے اعتنائی اختیار کرلی۔ایک لمحے کو بھی لیکن شعیب صاحب نے انہیں ان کی ’’اوقات‘‘ یاد دلانے کی کوشش نہیں کی۔اپنے ہر چہیتے شاگرد سے انہیں شدید گلہ محض اس وقت ہوتا جب وہ لاہور میں کئی دن گزارنے کے باوجود ’’سلام کرنے‘‘ان کے ہاں حاضری نہ دیتا۔ میری بیوی سے لاہور میں دوبار ان کی شادیوں میں ملاقات ہوئی۔ پہلی ملاقات میں وہ بہت حیران ہوئی جب وہ خود اُٹھ کر اس کے پاس آئے اور بے تکلفی سے پوچھا ’’بدنصیب بچی تیرا بدداپتر بنداکتھے وے‘‘۔ دونوں بار میں لاہور میں موجود نہیں تھا اور یوں جاں بخشی ہوگئی۔

صلاحیتوں بھرے نوجوانوں کا ہمہ وقت مہربان سائبان بالآخر اس دُنیا سے رخصت ہوا۔میں ان کے سکھائے رویے کے مطابق ’’اکڑبکڑ بمبے پوں-اسی نوے پورے سو‘‘کہتے ہوئے’’ملال‘‘ کا اظہار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں۔

Leave a Reply